عاصمہ شیرازی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فریب کی بنیادوں سے اٹھائی جانے والی عمارت سچ کا مینار کیسے بن سکتی ہے، ’غلامی اور آزادی‘ کا بیانیہ سوچ کے خلیوں کو سُکیڑ رہا ہے، جن دماغوں کو پہلے ہی آکسیجن دستیاب نہیں تھی گویا وہاں دماغ اور سُکڑ رہے ہیں۔ بیانیہ عقیدہ اور سیاسی تعلق فرقہ بن چُکا ہے۔ سوال کی گنجائش باقی نہیں، دلیل اور تحقیق طعنہ جبکہ جہالت اور کم علمی باعث فخر بن چکی ہے اور یہ سب چند سالوں میں ہوا ہے۔
گذشتہ دنوں ایک باپ کا خان صاحب کے حکم پر بچے کی گردن کاٹ دینے کا خوفناک اعلان دیکھا اور سُنا، احساس جُھرجھری میں بدلا تو محسوس ہوا کہ اس کم علم شخص کے گلے میں جس غلامی کا طوق پہنایا گیا ہے وہ اس سے آگے اپنی عقیدت کا اظہار کیسے کرے۔
کوئی رہنما کو زمانے کا امام مان رہا ہے تو کوئی درویش، کوئی کپتان کے ہاتھ بیعت کرنے کی بات کر رہا ہے اور کوئی قسم اٹھا رہا ہے کہ آج بھی نبی آتے تو نعوذُ باللہ اُن کے راہبر جیسے ہوتے۔ سماجی رابطوں کے میڈیا پر یہ سب کھلے عام ہے مگر اعتراض کوئی کیسے کرے کہ معترض کو خود قسمیں کھانا ہوں گی اور ثابت کرنا ہو گا کہ وہ راسخ العقیدہ مسلمان ہے۔
رہبر ہے کہ نہ روک رہا ہے اور نہ ہی ٹوک رہا ہے بلکہ خود پسندی کے اُس حصار میں ہے جہاں اپنی ذات سے نکلنے کی کوئی خواہش ہی نہیں۔
اس فریب کا شکار کم علم اور کم عقل ہی نہیں بلکہ ڈگریوں کے ترازو میں تُلے بظاہر صحت مند انسان بھی ہیں۔ پی ایچ ڈی ڈاکٹرز، پروفیسرز اور یہاں تک کہ نام نہاد صحافی اور لکھاری بھی اُسی فرقے کا حصہ بن چُکے ہیں جو دلیل کے راستے کے کبھی سفیر تھے۔
تحریک انصاف کی حمایت اور مخالفت حق اور باطل کی جنگ بن چُکی ہے۔ یہاں تک کہ امر بالمعروف کے بیانیے پر تنقید کسی کو بھی اسلام کے دائرے سے خارج کرنے کے لیے کافی ہے۔ الزام، بُہتان، دشنام طرازی دھیرے دھیرے معاشرے میں سرایت کر چُکی ہے، تقسیم، تحریم کے معنی بدل رہی ہے جبکہ اختلاف کی کوئی گنجائش موجود نہیں۔
یہ فرقہ بنتے بنتے بنا ہے، بہت اہتمام سے مذہب کو سیاست میں شامل کیا گیا ہے، سماج کی طبعی بنیادوں میں غیر فطری رواج شامل کیے گئے ہیں۔ حکمرانوں کی منافقت نے چاہے وہ سیاسی ہوں یا فوجی، معاشرے کو فریب کا شکار کر دیا۔ کبھی جنرل ضیا الحق کے اسلامی نظام اور دوغلی پالیسیوں کا رنگ نمایاں ہوتا رہا ہے اور کبھی جنرل مشرف کی روشن خیالی معاشرے کا یوٹرن بنتی رہی ہے، جمہوریت میں آمریت اور آمریت میں جمہوریت رائج کرنے والے نظام سے دوغلے پن کے علاوہ توقع بھی کیا ہو گی؟
گزشتہ چند برسوں سے ہائبرڈ نظام کے تجربے نے معاشرے کو مزید کنفیوز کر دیا ہے اور جن کے کندھے پر ہاتھ رکھا گیا اُنھیں آمر اور فاشسٹ بنانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور بھی لگایا گیا۔ ’امیر المومنین‘ بننے کا جو خواب ماضی میں دکھایا گیا، حال بھی اُس سے کچھ مختلف نہیں مگر لوہے کے خول چڑھا کر جن دماغوں کو چھوٹا کر دیا گیا اب اُس میں سوچ کا گُزر ہو یہ ممکن نہیں۔
ایک بار نہیں گذشتہ ساڑھے تین برسوں میں بار بار لکھا ہے کہ گونگے بہرے معاشروں میں چیخیں اور آوازیں نہیں غوں غاں بڑھ جاتا ہے۔
اب جب سیاسی تقسیم میں نہ سمجھنے والا گروہ بڑھتا چلا جا رہا ہے اور کم علم اور بظاہر عالم برابر ہو چکے ہیں، دلیل اور غلیل ایک ہی طرز میں ڈھل گئے ہیں، جھوٹ اور سچ کا پیمانہ ایک سا ہے تو کیا کرنا ہے؟ کس طرح سیاسی جماعت کو فرقے سے واپس سیاسی جماعت اور رہبر کو سیاسی رہنما بنانا ہے اس کا جواب کسی کے پاس نہیں؟
اب جب آئین شخصیت کے گرد گھوم رہا ہے اور قانون کو گھر کی باندی بنا لیا گیا ہے تو آئین کی سربلندی کیسے یقینی بنائی جائے گی۔ شخصیت کو اداروں سے عظیم اور نظام کو بیانیے کی نذر کر دیا گیا ہے تو اسے واپس دائرے میں کیسے لایا جائے؟ یہ قطعی مشکل نہیں صرف قانون اور آئین کو موقع دیں، آئین کی بالادستی کی چند سطریں ہی قانون سے باہر ہر شخص کو پابند کر سکتی ہیں۔
اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے اور یسو پنجو ہار کبوتر ڈولی کے اس کھیل میں بچ جانے والا صرف مار کھائے۔ نظام کو دائرے میں لانا ہو گا۔ مگر دیکھنا یہ ہو گا کہ تضاد اور فریب کے اس دور میں کون بچائے گا پاکستان، اور کون بنائے گا نارمل پاکستان۔
عاصمہ شیرازی کے دیگر کالم بھی پڑھیے
یہ بھی پڑھیے:
جناب! عوام کو ہلکا نہ لیں۔۔۔عاصمہ شیرازی
’لگے رہو مُنا بھائی‘۔۔۔عاصمہ شیرازی
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ