نومبر 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

اور مجھے یوں نکالا||عاصمہ شیرازی

توشہ خانہ کے 112 تحائف کپتان کی ’مرضی‘ کی نذر ہوئے بالکل اُسی طرح جس طرح انھوں نے آئین اپنی مرضی سے استعمال کیا۔ اب ہر جگہ ایک ہی شکوہ ہے کہ عدالتیں بارہ بجے کیوں کُھلیں۔ عدالتیں یوں تو آئین کی عملداری کے لیے کھلیں لیکن پھر بھی خدارا عوام کو بتا دیں کہ آپ ایسا کون سا کھیل کھیل رہے تھے کہ عدالت کو کھلنا پڑا۔

عاصمہ شیرازی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خیال کے ہر موسم میں کمال اور زوال کا سوال ہے۔ وقت یوں بھی بدل جائے گا شاید وقت کو بھی احساس نہیں۔ وقت کا پہیہ کس نے کتنا گھمایا اور کس کے ہاتھ کیا آیا یہ ابھی چند دنوں کی داستان ہے۔

کبھی کبھی پیچھے مُڑ کر دیکھنا بھی اُتنا ہی ضروری ہے جتنا آگے کے سفر کو نگاہ میں رکھنا۔ لوٹتے قدم کبھی بڑھنے میں مدد دیتے ہیں اور کبھی منزل کی خبر۔۔۔

عمران خان دوبارہ اپوزیشن ہو گئے، اپوزیشن دوبارہ حکومت بن گئی، وقت کا پہیہ اُلٹا گھوم گیا۔ کپتان پھر سڑکوں پر اپوزیشن پھر ایوانوں میں، عمران خان پھر جلسوں میں شفاف انتخابات کے مطالبے لیے جبکہ نئی حکومت عوامی تکالیف کے ازالے کے نئے دعوے کرتی نظر آ رہی ہے۔

اصل آئینی تبدیلی انا اور ضد کے مرحلوں سے گزرتی ہوئی بغیر خون خرابے انجام کو پہنچی۔ عدالت نے آئین کو سربلند کیا، اسٹیبلشمنٹ نے خود کو دو قدم پیچھے ہٹایا، پارلیمان کی طاقت تسلیم ہوئی اور یوں نیا پاکستان تخلیق ہوا۔ کسی ہار جیت کے بغیر آئینِ پاکستان جیت گیا۔

اس سے پہلے ذرا سے پُرانے پاکستان میں حکومت ساڑھے تین برس اپوزیشن میں رہی اور اپوزیشن حکومت میں۔ احتساب چلتا رہا، الزام لگتے رہے، تحریکیں زور پکڑتی رہیں، جلسے، جلوس، بیانیے، جوابی بیانیے بکتے رہے اور بات اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیے تک آئی اور پھر مصالحانہ خاموشی۔

شہباز شریف

،تصویر کا ذریعہPML-N

،تصویر کا کیپشن’عدالت نے آرٹیکل 224 کے تحت ہاتھ پاؤں کیوں باندھے؟ ویسے بھی ‘مجھے کیوں نکالا’ سے ‘مجھے یوں نکالا’ کا بیانیہ انتہائی دلچسپ ہو گا‘

گذشتہ تین برسوں میں قوم کے احتساب کے نام پر بے تحاشہ وقت اور پیسہ ضائع کرنے کے بعد شہزاد اکبر دُبئی کے لیے روانہ ہوئے اور جاتے جاتے بتا گئے کہ برطانیہ سے آنے والا پیسہ خزانے کی بجائے کیسے ’ٹائکون‘ کی جیب میں جائز ہوا جبکہ انصاف کا، احتساب کا، روشن پاکستان کا خواب ریزہ ریزہ ہوا۔ اور ثابت ہوا کہ جس کا پیسہ اُس کی مرضی۔

توشہ خانہ کے 112 تحائف کپتان کی ’مرضی‘ کی نذر ہوئے بالکل اُسی طرح جس طرح انھوں نے آئین اپنی مرضی سے استعمال کیا۔ اب ہر جگہ ایک ہی شکوہ ہے کہ عدالتیں بارہ بجے کیوں کُھلیں۔ عدالتیں یوں تو آئین کی عملداری کے لیے کھلیں لیکن پھر بھی خدارا عوام کو بتا دیں کہ آپ ایسا کون سا کھیل کھیل رہے تھے کہ عدالت کو کھلنا پڑا۔

عدالت نے آرٹیکل 224 کے تحت ہاتھ پاؤں کیوں باندھے؟ ویسے بھی ’مجھے کیوں نکالا‘ سے ’مجھے یوں نکالا‘ کا بیانیہ انتہائی دلچسپ ہو گا۔

اختلاف، اعتراف اور پچھتاؤں کے اُس موسم کا آغاز ہو چکا ہے جس میں نہ معافی ہے اور نہ ہی شاید تلافی۔ آنے والے دنوں میں جانے کیسے کیسے اعتراف سامنے آئیں گے؟ ابھی تو قاضی فائز عیسیٰ کا ریفرنس پچھتاوا بنا ہے کہیں سٹیٹ بنک کی خودمختاری آئی ایم ایف کے ہاتھوں گروی رکھنے اور فارن فنڈنگ کیس کے اعترافات بھی سامنے نہ آجائیں؟ محض اعتراف اور وہ بھی احساس کے بغیر پچھتاوا تو ہو سکتا ہے مگر مداوا نہیں۔

سازش کا بیانیہ بھی اعترافات کا تقاضا کر سکتا ہے۔ سازش بیانیے کو طوالت دینے کے لیے جو مواد چاہیے اُس کے امتحان بہت ہیں۔ عمران خان کا سازش بیانیہ ثبوتوں کا طلبگار ہے اور ثابت کرنے والے سازش کے ثبوت جلد منظر عام پر لا سکتے ہیں اور یہ بھی کہ اصل سازش کس نے اور کیسے تیار کی؟ یہی وجہ ہے کہ خان صاحب ایک قدم پیچھے ہٹتے دکھائی دے رہے ہیں۔

تحریکِ عدم اعتماد
،تصویر کا کیپشن’ادارے اپنی حدود کا تعین کر رہے ہیں اور خدا کرے کہ اپنی آئینی حدود میں ہی رہیں‘

انتخابات میں جانے کے لیے کپتان کو کارکردگی بیان کرنا ہو گی اور کارکردگی کا سوال گول کرنے کے لیے نئے نئے سکرپٹ ڈھونڈنے ہوں گے۔ اب ہدایتکار کہاں سے آئیں گے اور کہاں سے فیض حاصل ہو گا یہ بھی اہم سوال ہے۔

اس سب کے باوجود خان صاحب کے ’ٹیلنٹ‘ کو انڈر ایسٹیمیٹ کرنا زیادتی ہو گی۔ روزانہ کی بنیادوں پر یو ٹیوبرز، سوشل میڈیا اور میڈیا سٹارز کے ہاتھوں کافی مواد ہے جو وہ بیچ سکتے ہیں۔ نفرت اور عناد کا جو cult انھوں نے تیار کر لیا ہے وہ اداروں میں بھی سرایت کر چکا ہے، اس سے پہلے کے فرضی بیانیے کی صورت عناد کی یہ آگ قومی اداروں کو بھی لپیٹ میں لے، اسے کسی مدلل انجام تک پہنچانا بھی پارلیمان اور اداروں کا ہی فرض ہے۔

دوسری جانب اتحادیوں کی حکومت بھی چیلنجز سے دوچار ہے۔ معیشت کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا ٹرینڈز سے نبرد آزما ہونا بھی کسی آزمائش سے کم نہیں۔ کیونکہ کپتان نے کہیں اور کارکردگی دکھائی یا نہیں دکھائی سوشل میڈیا کے محاذ پر ضرور پرفارم کیا ہے۔ یہاں تک کہ بوٹس کی حکومت، بوٹس کے ذریعے اور بوٹس کے لیے کا جدید مظاہرہ بھی انھی کے سر ہے۔

نئی حکومت کو اپوزیشن کے احتساب کے ساتھ ساتھ خود احتسابی کو بھی مدنظر رکھنا ہو گا۔ وفاق اور پنجاب میں باپ بیٹے کا تعلق تو تھا ہی اب مستقل بنیادوں پر انتظام بھی کر دیا گیا ہے جس پر سوال اٹھتے رہیں گے۔ ادارے اپنی حدود کا تعین کر رہے ہیں اور خدا کرے کہ اپنی آئینی حدود میں ہی رہیں۔ کاش کہ سیاسی جماعتیں اور سیاست دان بھی ماضی کی غلطیاں نہ دُہرائیں پھر ہی ہو گا اصل جمہوریت کا بول بالا۔

عاصمہ شیرازی کے دیگر کالم بھی پڑھیے

 بشکریہ بی بی سی اردو ڈاٹ کام

About The Author