نومبر 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بوڑھے کامریڈ کی آزمائش کب ختم ہو گی؟|| راناابرارخالد

سندھ حکومت سے میرا ایک ہی سوال ہے، اگر تو کسی عدالت نے ایم کیو ایم (لندن) کو شیڈول فور کے تحت کالعدم قرار دے رکھا ہے تو صرف کنور خالد یونس اور کامریڈ مومن خاں مومن ہی نہیں بلکہ اس جماعت سے ظاہری و خفیہ طور پر وابستگی رکھنے والے تمام لوگوں کو حراست میں لے کر دہشت گردی کے مقدمے چلائے جائیں۔

رانا ابرار خالد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

2016 میں بائیں بازو کے استاد حسن عارف اور کامریڈ مومن خاں مومن کا زیر عتاب متحدہ قومی موومنٹ کی باگ ڈور سنبھالنے کا فیصلہ جہاں آ بیل مجھے مار کے مترادف تھا وہیں مجھ سمیت پاکستان بھر کے بائیں بازو کی سوچ رکھنے والے سیاسی کارکنوں، صحافیوں و لکھاریوں کو ورطہ حیرت میں ڈالنے کا سبب بنا، کہ انہوں نے ایک لسانی تعصب کے زیر اثر پروان چڑھنے والی تنظیم میں کیوں شمولیت اختیار کی جو نہ صرف لسانی تشدد بلکہ ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری اور دہشت پسندی کا ریکارڈ رکھتی ہے۔ حالانکہ ایم کیو کیو کا بائیں بازو کے نظریے سے دور کا بھی تعلق واسطہ نہیں مگر اس کے باوجود ایک مارکسی استاد اور تین دہائیوں سے طبقاتی جد و جہد میں متحرک کردار کے حامل ایک کامریڈ کا ایم کیو ایم جوائن کرنے کا فیصلہ سب کو ورطہ حیرت میں ڈالنے کے لئے کافی تھا۔

ہو سکتا ہے کہ مارکسی استاد حسن عارف اور کامریڈ مومن خاں مومن کا ایم کیو ایم جوائن کرنے کا فیصلہ سیاسی تنہائی سے نکلنے اور ماضی میں بائیں بازو کے سیاسی کارکنوں کو نشان عبرت بنانے والی سٹیبلشمنٹ سے بدلہ چکانے کی سوچ کے پیش نظر ہو، مگر سوال تو بنتا ہے کہ ایک ایسی لسانی تنظیم جس نے فسطائیت پر مبنی سیاست کو پروان چڑھانے کے لئے کراچی سے پاکستان کے تقریباً ہر گاؤں میں لاشیں بھجوائی ہوں، جس نے تیس سال تک پاکستان کے معاشی حب (کراچی) میں کشت و خون کا بازار گرم کیے رکھا ہو اور خاص طور پر اظہار رائے اور اختلاف رائے کو ناممکن بنا کر رکھ دیا ہو، ولی خان بابر جیسے صحافیوں، حکیم سعید، ظفر بلوچ اور زہرہ شاہد جیسے معتمدین و سماجی کارکنوں اور عثمان غنی جیسے سیاسی کارکنوں و مزدور رہنماؤں کو بے دردی سے موت کے گھاٹ اتارا ہو ایسی تنظیم میں طبقاتی جد و جہد کے داعی مارکسی استاد اور مزاحمت کا استعارہ بننے والے بائیں بازو کے سیاسی کارکن کو شمولیت کی ضرورت آخر کیوں محسوس ہوئی؟

ایم کیو ایم میں شمولیت سے ان کی افسوسناک موت کے دوران پروفیسر حسن عارف سے کبھی بات نہیں ہو سکی البتہ کامریڈ مومن خاں مومن سے نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں کئی نشست ہوئیں، ہر نشست میں بات گھوم پھر کے اسی سوال پہ آ جاتی کہ کوئی کامریڈ ایک متشدد ماضی رکھنے والی لسانی تنظیم میں کیونکر شامل ہو سکتا ہے، ہر بار کامریڈ کا ایک ہی جواب آتا کہ ہم نے ایم کیو ایم میں ایسے وقت شمولیت اختیار کی جب وہ سٹیبلشمنٹ کے شدید عتاب کا شکار ہو کر بحران میں تھی اور کراچی و حیدر آباد میں کوئی اس کا نام بھی لینے کی جرات نہیں کر سکتا تھا۔

میرے ذہن کے پردے پہ تو کامریڈ مومن خاں مومن کا وہی عکس محفوظ تھا اور رہے گا جب وہ بائیں بازو کی طلبہ تنظیم نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کے رہنما ہوا کرتے تھے اور اپنے سٹریٹ تھیٹر کی وجہ سے ضیائی آمریت کے خلاف مزاحمت کا استعارہ بن چکے تھے، وہی مومن خاں مون جو جلسے جلوسوں اور سٹریٹ تھیٹر میں فیض احمد فیض کی نظم ”ہم دیکھیں گے، لازم ہے ہم ہی دیکھیں گے“ اپنے مخصوص انداز میں پڑھ کر مجمعے کو گرما دیا کرتا تھا، میں تو اس کو جانتا تھا۔ مگر یہ نیا مومن خاں مومن مجھے کبھی ہضم نہیں ہو سکا جو ایم کیو ایم (لندن) کا ڈپٹی کنوینر ہے، لے دے کہ اس کی یہی بات دل کو تھوڑی لگتی کہ وہ متحدہ قومی موومنٹ میں اپنی شمولیت کو سٹیبلشمنٹ کے خلاف جمہوری جد و جہد کا تسلسل قرار دیتا ہے۔

طبقاتی جد و جہد کے دوران ضیائی آمریت ہو یا کوئی دوسرا دور، کامریڈ مومن خاں مومن کے لئے قید و بند کا سلسلہ کوئی نیا نہیں تھا، کئی بار جیل بھی کاٹی اور ضیائی آمریت کے کوڑے بھی کھائے، جبکہ دوستوں کا خیال تھا کہ ایم کیو ایم (لندن) میں شمولیت کے بعد شاید کامریڈ کو چند دنیاوی آسائشیں اور آرام نصیب ہو گا۔ کیونکہ مسلسل طبقاتی جد و جہد اور جیل کے اندر باہر کا تسلسل بڑے بڑوں کو کھا جاتا ہے، اس دوران کامریڈ مومن خاں مومن کو بھی متعدد بیماریاں لگ چکی تھیں۔

مگر سچ کہتے ہیں کہ طبقاتی تفریق کے خلاف ایک مرتبہ علم بلند کر کے میدان کارزار میں کودنے والوں کے نصیب میں آسائش و آرام ہو تا ہی نہیں، کامریڈ مومن خاں مومن کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ انہوں نے متحدہ قومی موومنٹ بھی ایسے وقت جوائن کی جب سٹیبلشمنٹ کا عتاب بھی ایم کیو ایم (لندن) والوں کا شدت سے منتظر تھا۔ سو وہی ہوا، اڑنے ہی نہ پائے تھے کہ گرفتار ہوئے ہم کے مصداق 2016 میں ایم کیو ایم (لندن) جوائن کرتے ہی جیل یاترا کرنی پڑی۔ کئی ماہ کی اسیری کے بعد جب رہائی ملی تو ڈاکٹروں نے کینسر کے ابتدائی سٹیج کی تشخیص کی، حتیٰ کہ ایک مرتبہ تو فالج کے حملے کا سامنا بھی کرنا پڑا۔

پروفیسر حسن عارف کی دوران حراست موت اور کامریڈ مومن خاں مومن کی اسیری کے بعد ایم کیو ایم (لندن) کی تنظیم نو کا سپنا تو چکنا چور ہو ہی چکا تھا جبکہ رہائی کے بعد بھی کامریڈ کا زیادہ وقت حیدرآباد بلکہ صوبہ سندھ کے باہر ہی گزرا۔

گزشتہ دنوں لندن (برطانیہ) کی عدالت میں جب ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی دہشت گردی کے مقدمے میں بے گناہی ثابت ہوئی تو اس کے بعد ایم کیو ایم (لندن) نے ایک مرتبہ پھر کراچی و حیدرآباد میں اپنے کارکنوں میں نئی روح پھونکنے کے لئے تنظیم نو کا فیصلہ کرتے ہوئے کنور خالد یونس کو کنوینر اور کامریڈ مومن خان مومن کو ڈپٹی کنوینر مقرر کیا، نتیجتاً کراچی و حیدرآباد کی اردو بولنے والی آبادی میں ایک ہلچل سی مچ گئی۔

دوسری جانب ایم کیو ایم (پاکستان) حالانکہ اس کے سارے لیڈر کبھی الطاف حسین کے پٹھے ہوا کرتے تھے، میں بھی کھلبلی مچ گئی۔ بلاشبہ (سابق) وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا ساتھ دینے کے حوالے سے پی پی پی اور پی ڈی ایم سے ایم کیو ایم کی بات پہلے سے ہی چل رہی تھی، تاہم 30 مارچ 2022 کو ایم کیو ایم (پاکستان) کے پیپلز پارٹی اور پی ڈی ایم سے معاہدے کا (شاید) یہ منطقی نتیجہ نکلا کہ 8 اپریل کو ہوم ڈیپارٹمنٹ (حکومت سندھ) نے انسپکٹر جنرل پولیس (سندھ) کو حکمنامہ جاری کیا کہ امن عامہ میں رخنہ ڈالنے کے خدشے کے پیش نظر کنور خالد یونس اور مومن خاں مومن کو ایم پی او تھری کے تحت نوے روز کے لئے حراست میں لے لیا جائے۔ میں نے مذکورہ حکمنامے کے بارے میں موقف جاننے کے لئے ترجمان حکومت سندھ مرتضیٰ وہاب سے متعدد بار رابطہ کیا اور واٹس ایپ پر انہیں سوالات بھی ارسال کیے تاہم وہ صوبائی حکومت کا موقف بتانے کے لئے راضی نہیں ہوئے۔

سندھ حکومت سے میرا ایک ہی سوال ہے، اگر تو کسی عدالت نے ایم کیو ایم (لندن) کو شیڈول فور کے تحت کالعدم قرار دے رکھا ہے تو صرف کنور خالد یونس اور کامریڈ مومن خاں مومن ہی نہیں بلکہ اس جماعت سے ظاہری و خفیہ طور پر وابستگی رکھنے والے تمام لوگوں کو حراست میں لے کر دہشت گردی کے مقدمے چلائے جائیں۔ بالفرض اگر ایم کیو ایم (لندن) کو کالعدم قرار نہیں دیا گیا تو ان کو بھی ایم کیو ایم (پاکستان) کی طرح سیاسی سرگرمیوں کی آزادی ہونی چاہیے، کیونکہ الطاف حسین کراچی و حیدرآباد میں ہونے والی تیس سالہ غنڈہ گردی، ٹارگٹ کلنگ، بھتہ وصولی، لسانی فسادات و دہشت گردی کا اکیلا ذمہ دار نہیں بلکہ فاروق ستار سے لے کر مصطفی کمال اور عامر خان سے لے کر خالد مقبول صدیقی تک سب کے ہاتھ ہزاروں معصوم شہریوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں جو تیس سال تک کراچی و حیدر آباد میں گاجر مولی کی طرح کٹتے رہے اور ان کے اعضا روئی کے گالوں کی طرح اڑتے رہے۔ گڈ طالبان اور بیڈ طالبان والی پالیسی کے نتائج ہم دیکھ چکے ہیں، لہٰذا اگر سزا دینی ہے تو سب کو دی جائے، ورنہ اچھی ایم کیو ایم اور بری ایم کیو ایم کی پالیسی ترک کی جائے!

About The Author