وسعت اللہ خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عاشق کو محبوب سے اور سیاست باز کو ووٹر سے اتنے ہی وعدے کرنے چاہیے جتنے وہ نبھا سکے، وگرنہ محبوب اور ووٹر طعنے دے دے کر مار دیتے ہیں اور پھر بوٹی کے بدلے بکرا مانگ بیٹھتے ہیں۔
مگر یہ بات کہنا جتنا آسان، نبھانا اتنا ہی مشکل ہے۔ عاشق ہر قیمت پر محبوب کو رام کرنے کے لیے اور سیاست باز ہر قیمت پر اقتدار حاصل کرنے کے لیے اپنے کمزور لمحات میں چاند ستارے توڑ کے قدموں میں نچھاور کرنے کا ناممکن ٹھیکہ اٹھا لیتا ہے اور پھر اٹائیں، سٹائیں، اگر، مگر، چونکہ، چنانچہ، ہچر مچر کی ڈھال آگے کر کے جیسے کیسے اپنا دفاع کرتا ہے۔
پھر بھی معاملات بے قابو رہیں تو دھمکی، خوشامد، ترغیب، پیسے یا مزید وعدہِ فردا مع سود مرکب سے کام لینے کی کوشش کرتا ہے۔ اس سے بھی کام نہ چلے تو معززینِ دین و دنیا کو بیچ میں ڈال کے معاملہ سیدھا کرنے اور محبوب و ووٹر کی غلط فہمیاں دور کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
ایسے میں معززین دین و دنیا بھی اپنی مدد کے عوض مختلف اشکال میں اپنا حصہ طلب کرتے ہیں۔ یوں عاشق اور سیاست باز اپنی ہی لگائی گرہوں میں پھنستا چلا جاتا ہے۔
جب محبوب یا ووٹر کو قابو میں رکھنے کا کوئی بھی ہتھیار کام نہ آئے تو آخری حربے کے طور پر جذباتی بلیک میلنگ کو آزمایا جاتا ہے۔ فلم شعلے کا ویرو بن کر پانی کی ٹینکی پر چڑھ کے ’سوسائیڈ‘ کا ڈرامہ رچا کر رجھانے کی کوشش ہوتی ہے۔ اس حربے سے مجمع اور محبوب عموماً دم بخود ہو کے ہاں کر دیتے ہیں۔
البتہ تب بھی محبوب اور ووٹر کے کان پر جوں نہ رینگے تو پھر عاشق اور سیاست باز بھی تیزابی ہو کر اپنی یا مطلوب کی جان لینے کی کوشش کرتا ہے مگر یہ تو میں اگلے وقتوں کی التفاتی و وفاداراتی روایت کی بات کر رہا تھا۔
آج کا محبوب اور ووٹر کبھی ایک عاشق یا ایک رہنما پر تکیہ نہیں کرتا۔ جدید عاشق ایک اضافی محبوب کا بھی بندوبست رکھتا ہے اور سیاست باز بھی بس ایک ہی منجن تھیلے میں لے کے نہیں گھومتا۔
پہلے کا محبوب اور ووٹر اپنی سادگی میں دھوکہ کھاتا تھا۔ آج کا محبوب ہو یا ووٹر، جان بوجھ کر دھوکہ کھاتا ہے۔ دونوں کو وعدوں کی حقیقت معلوم ہے لیکن دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے والا معاملہ ہے۔
سنہ 1922 کے برعکس سنہ 2022 کی دنیا آنکھ مٹکے والی دنیا ہے۔ اس میں محض اخلاص و اعتبار کے سہارے جینا لگ بھگ ناممکن ہے۔ فریقین ایک دوسرے کو حامی بھر کے خوش کرتے ہیں۔ دونوں اچھے سے جانتے ہیں کہ ہونا ہوانا تو کچھ نہیں لہذا باہمی دل پشوری میں کیا جاتا ہے۔
پچھلے دور میں عشق کی روایت لیلا مجنوں، شیریں فرہاد، ہیر رانجھا، مادھو لال حسین، سرمد و ابھے چند کے تذکروں سے جڑی ہوئی تھی لہذا عاشق و محبوب بھی جب ایک دوسرے کے ہو جاتے تھے تو پھر ہو جاتے تھے۔
اسی طرح سیاست کا کھدر بھی نظریاتی کارخانوں میں حریتِ فکر کی کھڈیوں پر تیار ہوتا تھا۔ لہذا جس رہنما یا کارکن نے جس کارخانے کا کھدر پہن لیا سو پہن لیا یعنی وفاداری بشرطِ استواری اصل ایماں تھی۔
آج اگر وہ نسل زندہ ہو کر آ جائے تو لوگ پاگل دیوانے کا شور مچا کے ان کا تماشا بنانے میں ایک لمحہ نہ لگائیں گے کیونکہ اب عشق اور محبوبیت کی روایت کی امین شوبز انڈسٹری اور ٹک ٹاکیت ہے، جو وہ طے کرے گی وہی ہم کریں گے۔
جبکہ سیاسی و مذہبی کلچر بھی ایک ہی کارخانے میں ایک ہی طرح کے اجزاِ ترکیبی سے تیار ہوتا ہے۔ بالائی علیحدہ کرنے کے بعد اس کلچر کو تین چار آڑھتیوں کا کارٹیل خرید کے طرح طرح کے لیبل لگا کر آگے بیچ دیتا ہے اور پھر مخصوص لائسنس یافتہ ٹھیلے اسے قریہ قریہ کوچہ کوچہ لے کر گھومتے ہیں۔
جو زیادہ چرب زبان اور شیشہ اتارو ہوا وہ تیزی سے مال نکال دیتا ہے۔ جو نسبتاً سست و خشک زبان ہوا اس کا مال آہستہ آہستہ بکتا ہے مگر خسارے میں کوئی بھی نہیں رہتا۔
کل تک مذہبی و سیکولر مصنوعات کی ڈیمانڈ تیز تھی۔ ان دنوں مذہبی قوم پرستی کا سودا چھت پھاڑ منافع کا ضامن ہے۔ جس کی سوشل میڈیائی پیکیجنگ، پروموشن، مارکیٹنگ جتنی پرکشش و بلند آہنگ اس کا مال ہاتھوں ہاتھ۔
مصالحہ تیز۔۔۔ بھلے قوم کی زبان جل جائے، ریاست کے حلق میں چھالے پڑ جائیں، تعلقاتِ خارجہ کے ہاضمے کا بینڈ بج جائے، آئین کو دست لگ جائیں، اداروں کا دل اچھل کے حلق میں آ جائے، پرواہ نہیں۔ مصالحہ تیز (win the race)۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)
یہ بھی پڑھیں:
قصور خان صاحب کا بھی نہیں۔۔۔وسعت اللہ خان
اس جملے کو اب بخش دیجئے ۔۔۔وسعت اللہ خان
کیا آیندہ کو پھانسی دی جا سکتی ہے ؟۔۔۔وسعت اللہ خان
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر