دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

خط خطرناک سہی مگر کارکردگی کا محبت نامہ!||نعیم مسعود

بدعنوانوں کو سزا دلوا نہ سکا، یاریاں نباہ نہ سکا، ترقیات دکھا نہ سکا، وعدے ایفا نہ سکا، اتحادی بچا نہ سکا، حکومت چلا نہ سکا، وقت ’ٹپا‘ نہ سکا، اصلاحات کرا نہ سکا،

نعیم مسعود

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

احتجاج کا بازار اپنی جگہ گرم، وزیراعظم چیلنجز سے الگ نبردآزما، سابق حکومت اور تازہ ترین اپوزیشن استعفوں کی چال کی چالبازی کے سنگ مخصوص کھیل میں مصروف، یہ ہے آج کل کی سیاست۔ علاوہ بریں تحریک انصاف کی جانب سے شائستگی کے علاوہ سب کچھ ہے۔ رہی بات مخلوط حکومت کی تو اس میں کچھ لوگ اوپر اوپر سے کہہ رہے ہیں کہ، وزارتیں نہیں لیں گے مگر اگلے ایک دو روز میں یقیناً کابینہ سامنے آ جائے گی۔

سیاست سے آشنا اور سیاسی شوق کی زلف کے اسیروں کی آج رات ( 13 اور 14 اپریل کی درمیانی شب) دو چیزوں پر بطور خاص نظر ہے، ایک نظر اور غور و فکر سابق صدر آصف علی زرداری کی انکشافی انٹرویو پر ہے دوسرا نظریں تحریک انصاف کے پشاور کے جلسہ پر جمی ہوئی ہیں۔ دونوں سرگرمیوں کا آپس میں گہرا تعلق ہے، یقیناً عمران خان اس جلسہ میں امریکہ مخالف چورن بیچیں گے، اور انہوں زرداری انکشافی طریقہ تدریس پر مشتمل انٹرویو کو سن بھی لیا ہو گا، ان کا جواب سمجھنا عام آدمی کے لئے بھی کوئی مشکل نہیں۔

انہوں دو تین باتوں کے علاوہ لفظوں کی جگالی کے علاوہ کچھ نہیں کرنا۔ ”فضل الرحمٰن ڈیزل“ ۔ ”شریف سارے چور“ ۔ ”زرداری سردار ڈاکو“ ۔ ”امریکی سازش“ ۔ ”خط خطرناک“ ۔ بس یہی سب کچھ۔ یہ کوئی نہیں بتائے گا کہ وعدہ پورا نہیں کرسکے اور ساڑھے تین سال دشنام طرازی میں گزار دیے، جاتے جاتے آئین کو مذاق بنا کر جگ ہنسائی کے دریچے کھولے۔ لیکن جس دن فارن فنڈنگ کے راز زبان رد خاص و عام ہوئے سب کو کچے چٹھے کا معلوم ہو جائے گا۔ ان در کے وا ہونے کے خطرہ ہی کی پاداش میں بیرونی سازش اور خط کا کھیل کھیلا جا رہا ہے!

زرداری صاحب نے آج اپنے ایک پرانے انٹرویو میں اظہار کیا تھا کہ ایک بہت بڑے انویسٹر کے راز برطانیہ سے ہوتے ہوئے امریکہ تک پہنچ گئے ہیں جو عمران خان کی جان کو آئیں گے، یہ وہ انٹرویو تھا جسے نشر کے بجائے حشر نشر کا سامنا ہو گیا تھا۔ سابق صدر کی گفت و شنید کی جھلکیاں کچھ یوں ہیں کہ :

عمران اپنی پولیٹیکل لائن بیچ رہا ہے امریکہ تو پوسٹ کووڈ اور داخلہ امور میں پھنسا ہے، اسے پاکستان یاد بھی نہیں سوائے افغان ایشوز کے۔ ایم کیو ایم کو بھٹو صاحب نے نیا سندھی کہا، ہم ایڈجسٹ کریں گے۔ اتحادی صف بندی میں پرویزالٰہی مٹھائی دے کر گئے تھے مگر جب اولاد جوان ہو جاتی ہے تو بندہ مجبور ہو جاتا ہے۔ شہباز شریف کو میں نے چنا اور نامزد کیا اور کہا میرے پاس 70 ووٹ ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں کہا کہ، مجھے عمران خان سے نفرت نہیں، نفرت اس کی سوچ سے ہے جس سوچ نے نوجوان نسل کو مادر پدر آزاد کیا۔ ایم کیو ایم۔ حکومتی معاہدہ میں ضامن ہوں۔ بگٹی، مینگل، مگسی اور بھوتانی کو کوئی نہیں خرید سکتا۔ ہم دوستوں کو آزمائش میں نہیں ڈالتے

استعفوں میں اپوزیشن کو واپس لانا چاہیے سمجھانا چاہیے۔ ایک زرداری سب سے یاری ”سب سے بھاری نہیں“ مزید کہا ایک زرداری سب سے یاری ہم فقیر لوگ ہیں انسان کی کوئی حیثیت نہیں سب سے بڑی ذات تو اللہ کی ہے۔ 18 ویں ترمیم کے بعد جب ہم نے پختونخوا کا نام رکھنے کا اعلان کیا تو اسفندیار ولی کی آنکھوں میں آنسو تھے، وہ میری بات مانتے ہیں۔ آج کا سوشل میڈیا بہت خطرناک ہو گیا ہے۔ حامد میر کے ایک سوال میں تھوڑا سا جذباتی ہو کر بولے کہ، مجھے جیل بھیجا مجھے افسوس نہیں مگر میری بہن کو ناجائز جیل میں زندان میں بھیجا۔

فالودہ والے پیسے صرف پروپیگنڈا تھا کوئی شہادت نہ تھی نیب کے پاس۔ عمران خان کو پروپیگنڈا میں گولڈ اسمتھ فیملی کی حمایت ہے۔ نیب میں کوئی سینسبیلٹی کی ضرورت ہے وہ بغیر تحقیق کام کرتے ہیں۔ بزنس کمیونٹی اور بیوروکریسی کی راہ میں نیب رکاوٹ ہے۔ نیب والا پکڑنے کے بعد پوچھتا ہے کیا کیا ہے، ایسا قانون دنیا میں کہیں نہیں! ۔ ایک سوال کے تناظر میں کہا، انتخابات سے قبل الیکٹورل ریفارمز ضروری ہیں۔ کیا فرق پڑتا اگر عارف علوی شہباز شریف کا حلف لے لیتے؟ آئندہ کی حکمت عملی کے حوالہ سے کہا کہ بزنس مین کا اعتماد بحال کرنا ضروری ہے۔ پھر یہ بھی کہا کہ فوج کو نیوٹرل رہنا چاہیے ہر ایک کی حدود کا آئین میں تذکرہ ہے!

اس انٹرویو اور اس انٹرویو میں ماضی کے نشر نہ ہونے والے ایک مقبول انٹرویو کی باتیں بتا رہی تھیں کہ آصف علی زرداری اس وقت سے حکومت گرانے میں کوشاں تھے حتیٰ کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے دور سے ہر اعتماد اور پر امید تھے جب کوئی تصور بھی نہیں کر رہا تھا، اس میں شک نہیں ہے کہ یہ حکومت عمران خان کی نرگسیت کے سبب زمین بوس ہوئی، بقول زرداری اپنے وزن ہی سے دھڑن تختہ ہوا۔

راقم عرض کرتا ہے کہ:
مجھے بھی اکثریت کی طرح عمران خان سے امیدیں تھیں کیونکہ حب بھٹو و بے نظیر بھٹو میں نواز شریف سے بغض تھا، 1988 سے سیاست کو بغور دیکھ رہا ہوں۔ بہرحال فواد چوہدری، بابر اعوان، شہباز گل، شیخ رشید، شہزاد اکبر، واؤڈا، علی زیدی، فردوس عاشق وغیرہ کے جھوٹوں اور اوور ایکٹنگ کے گردابوں اور خان کے اپنے یوٹرنوں کی دلدل اور حکومت کی اجتماعی نا اہلی و ناتجربہ کاری کے سبب شریف خاندان اچھا لگنے لگا، بلاول بھٹو مستقبل کا بڑا اسٹیٹس مین دکھائی دے رہا ہے!

کبھی کبھی دل ناداں یہ بھی سوچتا ہے :

بدعنوانوں کو سزا دلوا نہ سکا، یاریاں نباہ نہ سکا، ترقیات دکھا نہ سکا، وعدے ایفا نہ سکا، اتحادی بچا نہ سکا، حکومت چلا نہ سکا، وقت ’ٹپا‘ نہ سکا، اصلاحات کرا نہ سکا، شفقت چمکا نہ سکا، ڈنڈا کھڑکا نہ سکا، چائنہ و ملائشیا و ترکی و مدینہ کا نظام اٹھا نہ سکا، 1 کروڑ نوکریاں 50 لاکھ گھر بنا نہ سکا، لانے والوں کے سنگ تعلق بڑھا نہ سکا، عدم اعتماد سے جان چھڑوا نہ سکا، زبان دوڑائی عقل کے گھوڑے دوڑا نہ سکا۔ قصور امریکہ کا ہے اور خطرناک خط کا جو ”پکڑا“ گیا مگر اپنی کارکردگی کا محبت نامہ ابھی بلوغت کا منتظر ہے!

بشکریہ:روزنامہ جنگ

یہ بھی پڑھیے:

محبت: جی بی کے بعد آزاد کشمیر؟۔۔۔ نعیم مسعود

اپنی اصلاحات کا موڑ کب آئے گا؟۔۔۔ نعیم مسعود

عالمی و قومی منظرنامہ اورصدر آزادکشمیر!۔۔۔ نعیم مسعود

زرداری رونمائی، مولانا اِن ایکشن، خان اِن ٹربل؟ ۔۔۔ نعیم مسعود

نعیم مسعود کے دیگر کالمز پڑھیے

About The Author