اسلم اعوان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پچھلی چار دہائیوں میں قومی سیاست میں جس نوع کی غیر معمولی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں‘ انہوں نے سیاست کے خیر و شر میں تفریق کے احساس کو کنفیوز کرکے عام لوگوں کیلئے پالیٹکس کی ہرقدرکو بیکار اورقومی مفاد کے ہر تصورکو متنازع بنا دیا ہے۔ یہ متغیرکیفیات ایک مجموعی عالمی پیراڈائم شفٹ کے تحت ہماری فکری اور نفسیاتی ہجرت کے ٹرانزٹ پیریڈ کی غمازی کرتی ہیں جس کی توضیح ہمیں پچھتر سالوں پہ محیط اپنے قومی سفر کی داستانوں میں تلاش کرنا پڑے گی لیکن ظاہری اور محدود پیرایے میں ہم اسے نیرنگیٔ زمانہ ہی کہیں گے جس کی گہرائیاں 1979ء کی پہلی افغان جنگ کے تقاضوں سے جڑی ہوئی ہیں جس نے دیکھتے ہی دیکھتے ایک پھلتے پھولتے جمہوری تمدن کو نگل لیا لیکن اس وقت کے سیاسی تعصبات کے ماحول میں یہ تباہی ہمیں دور پہاڑوں کے عقب سے اٹھتے ہوئے بے ضرر دھویں کی صورت نظر آئی جسے ایک رومان پرور معاشرے نے بہت جلد نظر اندازکر دیا تھا؛ تاہم ذوالفقارعلی بھٹو کی پھانسی کے بعد پیدا ہونے والی فضا میں جینے والے لوگوں نے کم و بیش تیس سال تک کراچی میں ایک لسانی جماعت کی صورت میں مائیکرو سطح پہ ظلم و تشدد اور فسطائیت کی ناقابل یقین داستانوں کو برداشت کیا۔ اسی نشیب و فراز میں اقتصادی شہ رگ کراچی میں قومی معیشت کے لامتناہی نقصانات کے علاوہ ہماری دونسلیں اسی خونیں جدلیات میں کھپ گئیں‘ جس سے اجتماعی زندگی کی پوری ہیٔتِ ترکیبی بدل گئی۔ لسانی سیاسی جماعت کی سیاست نے یو پی اور سی پی کی خوبصورت تہذیبی روایات، دلآویز آدابِ زندگی اور ایک درخشندہ ثقافت کو مسخ کرکے قومی سیاست کا چہرہ خون آلود کیا۔ اس تھکا دینے اور ناشائستہ بنا دینے والی کشمکش میں پھنس جانے کے باوجود بقا کے فطری تقاضوں نے رفتہ رفتہ ہمارے لیے کبھی نہ تھمنے والے اس تشدد کو بھی قابلِ قبول بنا دیا۔ افغان وار کی پہلی لہر میں ضیا ء الحق سمیت اہم فوجی قیادت پراسرار حادثے کا شکار ہو گئی مگر اس عظیم سانحے کو بھی بعد میں رونما ہونے والی مصنوعی سیاسی جدلیات نے جلدی سے پس منظر میں دھکیل دیا۔
ابھی پُر تشدد سیاست کی گونج فضا میں تحلیل نہیں ہو پائی تھی کہ عالمی مقتدرہ کے مفادات کی تکمیل کی وسیع سکیم میں طالبانائزیشن کی مہیب لہروں نے ملت کو چونکا دیا، گویا منیر نیازی کے بقول، آگ اور خون کے ایک دریا کو عبور کرنے کے بعد ہمیں ایک اور دریا کا سامنا تھا۔ طالبانائزیشن کے فروغ کے دوران فرقہ وارانہ تشدد کی آگ نے ہر گھر کے دروازے پہ دستک دے کر زندگی کو ایسے افسردہ کن المیوں سے دوچار رکھا جن کی توضیح کیلئے ہمیں الفاظ نہیں ملتے۔ ہزاروں علماء کرام، عورتیں، بچے، جوان، بوڑھے اور عمالِ ریاست اس خونیں کشمکش کی بھینٹ چڑھ گئے۔ تشدد کی اسی بدترین گونج کی کوکھ سے نائن الیون جیسا وہ المیہ نمودار ہوا جس نے پورے کرۂ ارض کی طرح‘ جنوبی ایشیا میں بھی قومی سلامتی کے تقاضوں اور اجتماعی حیات کی پوری سکیم کو تہ و بالا کر ڈالا۔ جنگ دہشت گردی کے نامطلوب عوامل نے ملک کا بنیادی ڈھانچہ تباہ کرنے کے علاوہ کم و بیش ایک لاکھ انسانوں سے جینے کا حق چھین لیا، اسی جنگ میں ہم بینظیر بھٹو جیسی قومی لیڈرکو گنوا بیٹھے۔ سماجی و سیاسی اجتماعات میں خودکش حملوں، مساجد، خانقاہوں، امام بارگاہوں اور دوسری عبادت گاہوں میں بم دھماکوں اور شادی بیاہ کی تقریبات اور جنازوں کی رسومات میں ابھرنے والی کربناک خون ریزی نے دیکھتے ہی دیکھتے ایک زندہ و تابندہ تہذیب وتمدن کو اجاڑ کے رکھ دیا۔ اسی مہیب تشدد کی لہروںکے آفٹر شاکس ابھی تک جاری و ساری ہیں جن کی تازہ مثال پشاور کی جامع مسجد میں ہونے والا دھماکا ہے، جس نے آنِ واحد میں درجنوں بے گناہ لوگوںکی جان لے لی۔
تقدیر کی ستم ظریفی دیکھئے کہ حالات کے جبر نے عمران خان کو اسی بندوبست کے بائیں جانب لا کھڑا کیا جس نے انہیں قومی سیاسی جماعتوں کے متبادل کے طور پر سیاسی استحکام لانے کی خاطر کھڑا کیا تھا لیکن آج اُسی عمران خان سے نجات کیلئے انہی پیش پا افتادہ سیاسی جماعتوں کی مدد لینا پڑی جو ہمیشہ راندۂ درگاہ سمجھی گئی تھیں۔ قومی سفر کی اونچ نیچ میں ہمارے لیے سب سے اہم سبق یہی ہے کہ پچھلے بیس سالوں میں جس قسم کی ذہنی تقسیم اورنفرت انگیز ڈیجیٹل کلچرکو فروغ دیا گیا وہ اب مملکت کے منہ کو آنے لگا ہے۔ ہموار جمہوری اور آئینی عمل کے ذریعے سیاسی تبدیلیوں کو کھلے دل سے قبول کرنے کے بجائے سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی جماعت پی ٹی آئی نے اقتدار کو اپنا مستقل حق جان کے باغیانہ انداز میں آئین و قانون اور آئینی اداروں کے خلاف مزاحمت شروع کردی ہے۔ یہ ناگوار طرزِ عمل کسی فوری ردعمل کا شاخسانہ نہیں بلکہ اسی جنونِ استرداد کوپروان چڑھانے میں دو دہائیاں صرف کی گئی ہیں؛ تاہم عمران خان کے لیے یہ مناسب نہ تھا کہ جس ملک نے انہیں شہرت، عزت، دولت اور اقتدار سمیت سب کچھ دیا‘ اسی کو اپنی ادنیٰ خواہشات کی بھینٹ چڑھانے پہ کمر بستہ ہوجائیں۔ انہیں بھٹو خاندان‘ جس کی پوری نسل سیاسی عمل کی بھینٹ چڑھ گئی‘ اور میاں نوازشریف‘ جنہیں تین بار ایوانِ اقتدار سے نکال باہر کیا گیا‘ کے کردار سے سبق حاصل کرکے سیاسی حالات کا تحمل، تدبر اور بصیرت سے مقابہ کرنا چاہئے تھا تاکہ مملکت کی سلامتی پہ کوئی انچ نہ آئے لیکن افسوس کہ وہ ایثار، حب الوطنی اور جمہوری اقدار کے احترام میں ناکام رہے اوراپنے مدمقابل کو کھلے دل کے ساتھ ان سیاسی آزادیوں کی اجازت نہ دے سکے جنہیں وہ خود اپوزیشن میں بیٹھ کے دس سالوں تک انجوائے کرتے رہے۔
اس سے بھی زیادہ دردناک حقیقت یہ ہے کہ عمران خان کے حامی نہ صرف اپنے نظریات میں پوری قوم سے غیر منسلک ہیں بلکہ معلومات کے ذرائع میں بھی متضاد دکھائی دیتے ہیں۔ ‘جعلی خبریں‘ اور’متبادل حقائق‘جیسی نئی اصطلاحات کی تدوین اسی گریز کی نشاندہی کرتی ہیں کہ لوگوں کے مختلف گروہ ایک ہی واقعے کو مختلف معلومات کے طور پر دیکھتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ہرگروہ اپنی اپنی تخلیق کی دو مختلف دنیاؤں میں رہنے کیلئے الگ ہو رہا ہے۔ سوشل میڈیا وار نے ذہنی تقسیم کے اس رجحان کو مزید تیز کیا ہے۔ اسی پلیٹ فارم سے انفرادی ترجیحات کے تجزیے کی بنیاد پر لوگوں کو مخصوص معلومات بھیجی جاتی ہیں تاکہ لوگ اسی مخصوص بیانیے کے اسیر رہیں جسے وہ غالب دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ لوگوں کو صرف ان کی پسندیدہ قسم کی خبروں کے حصار میں رکھا جائے۔ اس کے نتیجے میں مختلف گروہوں کے فیصلوں میں گہرا خلا پیدا ہوتا گیا۔
فی الوقت بحیثیت قوم ہم جس نئے فکری عہد میں داخل ہونے والے ہیں‘ اس کی توضیح کے لیے ہمیں عالمی منظرنامے کی طرف دیکھنا پڑے گا۔ پچھلی نصف صدی تک ہماری ملکی سیاست سرد جنگ کی حرکیات کی قیدی اور گزشتہ پچیس سالوں سے دنیا کی واحد سپر پاورامریکا کی جنگ دہشت گردی سے جڑی سفاک ڈپلومیسی کی مضبوط گرفت میں رہی ہے جس میں ہماری قومی سیاست کو طاقت کے مراکز کے گرد محو خرام رکھنا مجبوری تھی لیکن افغانستان میں امریکی شکست اور عالمی فورسز کے انخلا کے بعد خطے کی سیاسی صورت حال میں جو بنیادی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں‘ انہوں نے ہمارے فلسفۂ سیاست کو بھی متاثر کیا ہے۔ دنیا آج جس پیراڈائم شفٹ کا مشاہدہ کر رہی ہے‘ اس میں جمہوریت کی آفاقی اقدار، شخصی آزادیاں اور مارکیٹ اکانومی کا نظریہ کئی سنجیدہ سوالات کی زد میں ہے۔ امریکا میںصدارتی انتخابات، اس بات کا تعین کرنے کے بجائے کہ حکومت کی باگ ڈور کون سنبھالے اورکون سی پالیسیاں نافذ کرے‘ امریکی عوام میں تقسیم کا وسیلہ بن گئے ہیں۔ چین اور امریکا میں تعلقات کے بگاڑ کی جڑیں مزید گہری ہوئی ہیں جس کے اثرات ہماری معاشی اور سیاسی پالیسیوں کو ہمہ وقت وقفِ اضطراب رکھے ہوئے ہیں۔ روایتی جغرافیائی سیاسی مسائل کے علاوہ عالمی رجحانات میں بھی ایسی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں جنہیں نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔
سرد جنگ کے بعد 30 سال سے زائد کے عرصے میں مغربی فاتحین یہ محسوس کرنے لگے ہیں کہ ان کی مضبوط اقدار، جیسے لبرل جمہوریت اور آزاد منڈی کی معیشتوں پر زوال کے بادل منڈلا رہے ہیں‘ ڈیجیٹل تبدیلی ایک الگ رجحان ہے جس کی جانچ پڑتال کا کوئی متفقہ میکانزم تشکیل نہیں پا سکا۔ جیسے جیسے مصنوعی ذہانت اوراس سے جڑی اقدارکا نیٹ ورک تیزی سے ترقی پاتا گیا، اسی تیزی سے لوگوں کی زندگیوں، قومی حکمرانی اور بین الاقوامی سیاست پر ناقابل یقین اثرات مرتب ہوتے گئے۔ امریکا، جاپان اور دیگر مغربی ممالک نے سرد جنگ کے بعد کے دور میں عالمی اقدار، جیسے جمہوری طرزِ حکمرانی، قوانین پر مبنی بین الاقوامی نظم، آزاد منڈیوں اور انسانی حقوق کے تحفظ کا جو نظام بنایا تھا، حالیہ بین الاقوامی پیش رفت نے ان ترجیحی اقدار پر سایہ ڈال دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
کشمیریوں کا مستقبل۔۔۔اسلم اعوان
اپوزیشن جماعتوں کی آزمائش۔۔۔اسلم اعوان
پیراڈائم شفٹ میں ہم کہاں کھڑے ہیں؟۔۔اسلم اعوان
افغانستان کا بحران عالمی ایشو نہیں رہا۔۔۔اسلم اعوان
عورتوں میں ہم جنس پرستی پر یہ مشہور کہانی لکھنے والی عصمت چغتائی۔۔۔اسلم ملک
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر