نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

الزامات کی مہم||ظہور دھریجہ

اگر پی ڈی ایم کی نئی حکومت عوام کو کوئی ریلیف یا لائحہ عمل نہ دے سکی اور آزادانہ الیکشن ہوئے تو ممکن ہے کہ ن لیگ یا پیپلز پارٹی کی بجائے تحریک انصاف کو پہلے سے زیادہ سیٹیں مل جائیں۔ یہ بات پھر دہراتا ہوں کہ اداروں پر تنقید نہیں ہونی چاہئے، پاکستان اور پاکستانی اداروں کو احترام ملنا چاہئے ، دوسروں کے علاوہ اداروں پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی زیر صدارت 79ویں فارمیشن کمانڈر کانفرنس میں پاک فوج کو بدنام اور ادارے و معاشرے کے درمیان تفریق پیدا کرنے کی حالیہ پروپیگنڈامہم کا سختی سے نوٹس لیا گیا جبکہ شرکا نے ملک اور قانون کی حکمرانی کے لیے عسکری قیادت کے فیصلوں کی بھرپور حمایت بھی کی۔ فارمیشن کمانڈر کانفرنس میں کور کمانڈرز، پرنسپل اسٹاف آفیسرز اور پاک فوج کے تمام فارمیشن کمانڈرز نے شرکت کی۔اقتدار آنی جانی چیز ہے ، اداروں کے خلاف مہم نہیں ہونی چاہئے، اس سے قومی وقار مجروح ہونے کے ساتھ ساتھ ملکی سلامتی کو بھی اندرونی و بیرونی خطرات لاحق ہوتے ہیں۔ یہ اچھی بات ہے کہ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے اداروں کیخلاف چلائی جانیوالی مہم کی مذمت کی ہے ۔
 وزیر اعظم شہباز شریف کا یہ کہنا ٹھیک ہے کہ سیاسی سرگرمیوں کی سب کو اجازت ہے مگر انتشار پھیلانے کی اجازت کسی کو نہیں دیں گے، اداروں کے خلاف مہم چلانے والے قانون کی گرفت میں آئیں گے۔ایک خبر کے مطابق اسلام آباد کے نجی ہوٹل میں پی ڈی ایم کے رہنمائوں نے پی ٹی آئی کے کارکن کو منحرف رکن اسمبلی نور عالم کیخلاف بات کرنے پر تشدد کا نشانہ بنایا۔ تشدد کرنے والے ندیم افضل چن، مصطفیٰ نواز کھوکھر اور فیصل کریم کنڈی نامور لوگ ہیں ان میں حوصلے کے فقدان سے مایوسی ہوئی ہے۔
سوشل میڈیا پر جو ٹرینڈ چل رہا ہے اس سے لڑائی جھگڑوں اور تنازعات کا خطرہ بڑھ رہا ہے ، لوئر دیر میں تیمرگرہ کے قریب گائوں رانئی میں پاکستان تحریک انصاف اور جمعیت علمائے اسلام کے کارکنوں میں تصادم سے دو افراد زخمی ہو ئے ہیں ۔کراچی کے علاقے لانڈھی کورنگی میں ایم کیو ایم حقیقی اور پی ٹی آئی کے کارکنوں کی طرف سے پارٹی پرچم جلائے جانے کے واقعہ پر کشیدگی ہوئی ہے۔ سوشل میڈیا پر چلنے والے ٹرینڈ کیخلاف وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے نے کریک ڈائون کرتے ہوئے صوبے سے 8 افراد کو گرفتار کیا ہے، ان پر الزام ہے کہ وہ فوج کے خلاف مہم چلا رہے تھے۔
لاہور سے گرفتار مقصود عارف نے سیاسی جماعت کے کہنے پر آرمی چیف کے خلاف ٹرینڈ چلانے کا اعتراف کیا ہے۔ اگر وہ اعتراف نہ بھی کرے تو پوری دنیا دیکھ رہی ہے کہ سوشل میڈیا پر کیا ہو رہا ہے۔ یہ بھی ٹھیک ہے کہ اپوزیشن جماعتوں نے غلط وقت کا انتخاب کیا۔ عمران خان کو مدت پوری کرنے دی جاتی تو وہ اس قدر مقبول نہ ہوتے ، آج وہ مظلوم کے طور پر پاکستان میں موجود ہیں اور ان کو تیزی کے ساتھ ہمدردیاں بھی حاصل ہو رہی ہیں۔
اگر پی ڈی ایم کی نئی حکومت عوام کو کوئی ریلیف یا لائحہ عمل نہ دے سکی اور آزادانہ الیکشن ہوئے تو ممکن ہے کہ ن لیگ یا پیپلز پارٹی کی بجائے تحریک انصاف کو پہلے سے زیادہ سیٹیں مل جائیں۔ یہ بات پھر دہراتا ہوں کہ اداروں پر تنقید نہیں ہونی چاہئے، پاکستان اور پاکستانی اداروں کو احترام ملنا چاہئے ، دوسروں کے علاوہ اداروں پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔
 سوشل میڈیا پر عدلیہ کے بارے میں بات ہو رہی ہے اور ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ 1955ء کو گورنر جنرل غلام محمد کے اسمبلی تحلیل کرنے کے اقدام کو سپریم کورٹ نے جائز قرار دیا۔ سپریم کورٹ نے 1972ء میں یحییٰ خان کے مارشل لاء کو اس وقت غیر آئینی قرار دیا جب یحییٰ خان اقتدار چھوڑ کر چلے گئے، 1977ء میں بیگم نصرت بھٹو کیس میں سپریم کورٹ نے جنرل ضیاء کے مارشل لاء کو نظریہ ضرورت کے تحت جائز قرار دیا۔ اسی طرح جونیجو حکومت کی برطرفی کو غیر آئینی قرار دینے کے باوجود سپریم کورٹ نے اسمبلی بحال کرنے سے انکار کیا۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ سپریم کورٹ نے 1990میں محترمہ بینظیر بھٹو کی برطرفی کو جائز جبکہ 1993ء میں نواز شریف کی برطرفی کو غیر قانونی قرار دیا اور یہ بھی دیکھئے کہ 2000ء میں پرویز مشرف کے مارشل لاء کو نہ صرف سپریم کورٹ نے درست قرار دیا بلکہ ان کو آئین میں ترمیم کا بھی اختیار دیا۔ 3 نومبر 2007ء کو جب صدر مشرف نے ایمرجنسی نافذ کی تو عدالت نے اسے ناجائز مگر 24 نومبر کو سپریم کورٹ نے اسے جائز قرار دیدیا۔ بھٹو کی پھانسی ہو یا پھر سید یوسف رضا گیلانی کو تیس سیکنڈ کی سزا، یہ سیاسی فیصلوں کے زمرے میں آتے ہیں۔ پاکستان کو امن اور انصاف کی ضرورت ہے، عمران خان کو بھی حوصلے سے کام لینا چاہئے وہ اپوزیشن میں تھے توکنٹینر پر تھے مگر بر سراقتدار آنے کے باوجود بھی وہ کنٹینر پر موجود رہے ۔
پشاور کے بعد کراچی اور لاہور میں جلسے کریں گے ، اصولی طور پر ان کی یہ بات درست ہے کہ جمہوریت کی حفاظت فوج یا غیر ملکی طاقت نے نہیں عوام نے کرنی ہوتی ہے، مگر وہ خود بھی عوامی انداز فکر اختیار کریں ، عمران خان کو خود احتسابی کا سلسلہ شروع کرنا چاہئے کہ الگ صوبہ بنانے ، پچاس لاکھ گھر دینے اور ایک کروڑ افراد کو ملازمتیں دینے کے علاوہ آئی ایم ایف سے قرضہ نہ لینے ، غربت اور مہنگائی ختم کرنے کے وعدے نہ صرف یہ کہ پورے نہیں ہوئے بلکہ سب کچھ اس کے الٹ ہوا،ملک کے چار ستون پارلیمنٹ، عدلیہ ، انتظامیہ اور صحافت مضبوط ہونے کی بجائے کمزور ہوئے۔
 عمران خان کے دور میں آزادی اظہار کو دبانے کیلئے کالے قوانین بنے جسے پیکا کا نام دیا گیا اور عدلیہ نے اسے کالعدم قرار دیا۔ عمران خان کے دور میں بہت سے میڈیا ہائوسز بند ہوئے اور لاکھوں عامل صحافی بیروزگار ی کا شکار ہوئے، دیکھنا یہ ہے کہ موجودہ حکومت میڈیا ہائوسز کی بحالی اور بیروزگار ورکروں کو روزگار دینے کے لئے کیا اقدامات کرتی ہے۔ آنے والی حکومت کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے ، ن لیگ کے رہنما رانا ثناء اللہ نے قبل از وقت الیکشن کا عندیہ دیا ہے اور پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ نے بھی کہا ہے کہ خواہش ہے کہ اسمبلیاں مدت پوری کریں لیکن عمران خان کی خراب کارکردگی کا بوجھ اٹھا کر الیکشن میں جانا بے وقوفی ہو گی۔ نئے الیکشن کی تیاری بھی ضروری ہے لیکن اس سے پہلے زیادہ ضروری یہ ہے کہ حکومت الگ صوبے کا مسئلہ اسی اسمبلی سے حل کرے کہ یہ اسمبلی صوبے کے مینڈیٹ پر برسراقتدار آئی ہے، تمام جماعتوں کے منشور میں الگ صوبے کا مطالبہ شامل ہے۔ یہ کریڈٹ پی ڈی ایم خصوصاً (ن) لیگ کو حاصل کرنا چاہئے آئندہ الیکشن میں وہ ہیرو ہو گی ۔

 

 

یہ بھی پڑھیں:

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

About The Author