رضاعلی عابدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مغرب والوں کا ایک رواج مجھے بہت پسند ہے۔یہ لوگ ہر سال اپریل کے مہینے میں یا یوں کہہ لیجئے کہ موسم بہار میں اپنے گھر، اپنے پڑاؤ یا اپنے اٹھنے بیٹھنے کے ٹھکانے کی اچھی طرح جھاڑ پونچھ کرتے ہیں جسے یہ اسپرنگ کلیننگ کہتے ہیں۔ہے بڑے کمال کی چیز۔بس ایک بار لگ کر گھر میں خوب اچھی طرح صفائی ستھرائی کرتے ہیں، بالکل یوں جیسے کسی گندے برتن کو خوب اچھی طرح مانجھا جاتا ہے۔سارے گھر کی خوب ہی خوب تلاشی لے کر طے کرتے ہیں کہ گھر میں کون کون سی چیزیں بلا وجہ پڑی ہیں جو نہ اب تک کام آئی ہیں اور نہ عرصے تک کسی کام آئیں گی؟ بس پھر جی کڑ ا کرکے فالتو چیزوں کو نکال کر گھر کو کشادہ اور اُجلا کرتے ہیں۔ اس وقت یوں لگتا ہے جیسے گھر کے سر سے فالتو بوجھ اتر گیا۔میری بیوی کہتی ہے کہ جو چیزپچھلے تین مہینے کام نہ آئی ہو اور اگلے تین مہینے کام آنے کا امکان نہ ہو اس کو فارغ کرو کہ بلا سبب گھر میں جگہ گھیرے ہوئے ہے۔ کام کی نہ کاج کی۔ آ تے جاتے ٹھوکروں میں آتی ہے۔
یہ انسانی فطرت ہے۔ ہم سال بھر کچھ نہ کچھ گھر میں لاتے رہتے ہیں۔ لاتے وقت وہی چیز کارآمد محسوس ہوتی ہے مگر کچھ عرصے بعد احساس ہوتا ہے کہ یہ شے اتنی ضروری تو نہ تھی۔ سیانے لوگ کہتے ہیں کہ کبھی اپنی الماری کھولیں اور ذرا پیچھے ہٹ کر اس میں بھری ہوئی اشیاء کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ کون سی چیز استعمال میں آرہی ہے۔ کپڑوں کو دیکھیں، کتابوں کو پرکھیں، اور تو اور اپنے بچوں کے بچپن کے زمانے کے کھلونے، ان کے چھوٹے چھوٹے جوتے،ان کے ہاتھ کی پہلی ڈرائنگ، پہلی کتاب، پہلی کاپی۔ ان سب پر عرصے تک پیار آتا ہے مگر چند برس بعد یہ چیزیں کچرا محسوس ہونے لگتی ہیں۔ ہم اپنے بچوں سے کہتے ہیں کہ تم نے اپنے لڑکپن کی جو یادگاریں جمع کر رکھی ہیں،انہیں لے جاؤ اور اپنے پاس رکھو۔ وہ صاف انکار کردیتے ہیں۔
یہی حال شوق کی چیزوں کا ہے۔ فرض کیجئے مجھے فوٹو گرافی کا شوق ہوا اور میں نے اپنی اتاری ہوئی تصویروں کا ذخیرہ کرنا شروع کیا۔ کچھ عرصے بعداحساس ہوا کہ یہ تو انبار جمع ہورہا ہے۔ یہ کئی ہزار تصویریں کہاں سمائیں گی۔ ایسے میں جی کڑا کرکے ان تصویروں کوخیر باد کہنا ہی بہتر ہے جنہیں چند ماہ بعد کوئی آنکھ اٹھا کر بھی دیکھنے کا روا دار نہ ہوگا۔مجھی کو لے لیجئے۔مجھ پر ایک دور آیا جب میں نے پرانے گانے جمع کرنے کا مشغلہ اختیار کیا۔کہاں کہاں سے کیسے کیسے پرانے گانے ڈھونڈ کر لانے لگا۔ بڑے بڑے ڈبے بھر گئے۔ کچھ عرصے بعد وہ بھی ابلنے لگے۔ پھر یہ ہوا کہ ہوا کا رُخ بدلا۔ وہی پرانے فرسودہ سے گانے فضول محسوس ہونے لگے۔ آخر گھر کی فضول چیزیں لے جانے والوں کو بلا کر یہ الا بلا ٹھکانے لگانا پڑی۔
میں ایسے احباب سے واقف ہوں جنہیں کبھی اپنا جما جمایا گھر تبدیل کرنا پڑا۔اب گھر کا سامان سمیٹنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ کہاں کہاں سے کیسا کیسا کاٹھ کباڑ نکلا۔ گھر والوں کو خود حیرت ہوئی کہ یہ سب الّم غلم کہاں سے آگیا۔ برطانیہ میں ایسے کاروباری ادارے ہیں جن کی مدد طلب کیجئے تو آپ کے گھر آکر اچھی طرح صفایا کردیتے ہیں۔ ہم نے بارہا دیکھا ہے کہ گھر تبدیل کرنے والے کیسی کیسی کارآمد چیزیں پھینک رہے ہیں۔ خاص طور پرمرجانے والوں کا چھوڑا ہوا سازوسامان اکثر بے رحمی سے ٹھکانے لگایا جارہا ہے۔
بہتر یہی ہے کہ ایسے فیصلے جیتے جی ہی کرلیے جائیں۔ اس موقع پر مجھے اپنی ہی لکھی ہوئی بات یادآرہی ہے کہ ہمارے گھروں میں اردو کتابوں کے ذخیرے جمع ہیں جو ہماری زندگی میں تو قرینے سے چنے رہیں گے لیکن ہماری آنکھ بند ہوتے ہی یہ خزانے بے قدر ی کا شکارہوجائیں گے۔ ہمارے بچوں کو ان سے ذرا سی بھی دل چسپی نہ ہوگی اور یہ ساری کتابیں یا تو ردّی اٹھانے والوں کے حوالے کی جائیں گی یا فٹ پاتھ پر سستے داموں فروخت ہوں گی۔ یہ مسئلہ یورپ اور مغربی ملکوں میں آباد ہمارے ہم وطنوں کا ہے۔جوجتنے بزرگ ہیں ان کا کتابوں کا ذخیرہ اتنا ہی بڑا ہے اور ان کی نئی نسل ان کتابوں سے اتنی ہی بے بہرہ اور اسی قدر بے نیاز ہے۔میری تجویز تھی کہ کوئی ایسا نظام قائم کیا جائے کہ جہاں لوگ اپنے ذاتی کتب خانوں کو جمع کرا سکیں۔ مگر صاف نظر آتا ہے کہ یہ کام آسان نہیں اور دوسرے یہ کہ یہ بار کون اٹھائے۔ کراچی میں ہم نے دیکھا ہے ہمارے احباب نے اپنی قیمتی اور نایاب کتابیں شہر کے کسی کتب خانے کو سونپ دیں۔اگر یہی کام منظم طور پر ہو سکے تو شہر میں ایک شان دار کتب خانہ قائم کیا جا سکتا ہے۔
موسم بہار میں جھاڑپونچھ کی یہ رسم مغربی ملکوں ہی میں کیوں،ہمارے ملکوں اور علاقو ں میں کیوں نہیں؟ہم لوگ ہر سال نہیں تو کبھی کبھارہی سہی اپنے گھروں کی اچھی طرح صفائی کریں۔ میرے ایک دوست کے ہاں کتابوں کا بڑا ذخیرہ ہے۔ ایک رات میں نے ان کے ہاں قیام کیا۔اس رات غضب کی کھانسی اٹھی۔ میں حیرا ن تھا کہ یہ مجھے کیا ہوا؟ اگلی صبح میں ان کی کتابوں کا جائزہ لینے لگا تو پتہ چلا کہ ان کی کتابوں پر برسوں کی گرد جمع ہے جو گھر کی فضا میں بھی گردش کررہی ہے۔مجھے دربار اکبری کا پرانا نسخہ نظر آیا۔ بڑے اشتیاق سے نکالنے لگا تو کتاب وزنی محسوس ہوئی۔ کوئی یقین نہیں کرے گا کہ وہ وزن کتاب کا نہیں، اس پر جمی ہوئی خاک دھول کا تھا۔
سچ ہے۔ کتابیں بھی زندہ ہوتی ہیں۔ ہماری طرح سانس لیتی ہیں لیکن اگر ہم انہیں دن کی روشنی نہ دکھائیں اور انہیں ہوا بھی نہ لگے تو وہ بھی تہِ خاک چلی جاتی ہیں۔ ہم اتنا ہی کہہ سکتے ہیں کہ بے شک سب کو لوٹ کر اسی کی طرف جانا ہے۔
بشکریہ جنگ
مولانا مجھے نہ کہا جائے۔۔۔رضاعلی عابدی
کچھ لوگ ٹیکہ لگائیں گے۔۔۔رضاعلی عابدی
جمہوریت کا تجربہ بھی ناکام ہو رہا ہے؟۔۔۔رضاعلی عابدی
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ