ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملک میں سیاسی بحران سے ہر شخص پریشان ہے، گزشتہ شب قوم سے خطاب میں وزیر اعظم عمران خان نے کہا فیصلہ تسلیم کرتا ہوں مگر سپریم کورٹ کے فیصلے سے مایوسی ہوئی، وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا کہ مایوس کن فیصلہ بوجھل دل کے ساتھ تسلیم کرتے ہیں، انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان کی تاریخ آئین شکنی سے بھری پڑی ہے۔جب میں یہ سطور لکھ رہا ہوں تو عدم اعتماد کی تحریک پر قومی اسمبلی کا اجلاس جاری تھا کہ اپوزیشن کی طرف سے ووٹنگ کے مقابلے پر شور شرابا ہوا ، حکومتی بنچوں سے نعرے بازی شروع ہوئی، شور شرابے کے نتیجے میں سپیکر نے کچھ دیر کیلئے اسمبلی کا اجلاس ملتوی کر دیا۔
سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے ایک بیان میں وزیر اعظم عمران خان کے امریکی خط کے حوالے کو مسترد کر تے ہوئے کہا کہ کیا یہ بھی امریکا نے لکھا تھا کہ اسمبلی تحلیل کر دیں، کیا یہ بھی امریکا نے لکھا تھا کہ اپنے گورنر کو ہٹا دیں، کیا یہ بھی امریکا نے لکھا تھا کہ اپنے ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کریں ؟ کیا یہ بھی امریکا کی سازش تھی کہ صوبے کے بل کو ساڑھے تین سال کیلئے لٹکائے رکھیں؟۔
سید یوسف رضا گیلانی کی باتوں سے اتفاق کے باوجود یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ 18ویں ترمیم کے موقع پر پیپلز پارٹی نے تمام آمرانہ ترامیم ختم کیں مگر فوجی آمر کی طرف سے صوبے میں رکاوٹ پیدا کرنے والی ترمیم کو ختم نہ کیا گیا۔ یہ ٹھیک ہے کہ سید یوسف رضا گیلانی 1983ء میں سب سے پہلے چیئر مین ضلع کونسل بنے تو انہوں نے غریبوں کو ملازمتیں دیں ، دوسرے مواقع پر ایسا کرنے کے ساتھ ساتھ 1993ء میں سپیکر قومی اسمبلی بنے تو انہوں نے تھوک کے حساب سے ملازمتیں دیں اور ان کے خلاف احتساب عدالت میں ملازمتیں دینے کا مقدمہ بنا تو انہوں نے کہا کہ ملازمتیں دینا جرم ہے تو میں اس جرم کا اعتراف کرتا ہوں اور آئندہ بھی جب مجھے موقع ملے گا ، میں یہ جرم کرتا رہوں گا ۔
وزیر اعظم بنے تو دوسرے جاگیرداروں کی نسبت اپنے وسیب میں بھرپور ترقیاتی کام کرائے ۔ البتہ وسیب کی زبان و ثقافت کی ترقی کیلئے انہوں نے کوئی ادارہ نہ بنایا اور نہ ہی قابل ذکر تعلیمی ادارے قائم کرا سکے ۔ اور تو اور اسلام آباد میں مختلف شاہرات کے نام مختلف زبانوں کے صوفی شعراء جیسا کہ رحمان بابا، شاہ عبداللطیف بھٹائی ، مست توکلی ، خوشحال خٹک ، وارث شاہ ، شاہ حسین، میاں محمد بخش و دیگر کے نام پر موجود ہیں ، ہمارے مطالبات اور درخواستوں کے باوجود خواجہ فرید کے نام پر کسی روڈ کا نام نہ رکھا جا سکا، ہم نے یہ بھی کہا تھا کہ جس طرح اسلام آباد میں بھٹائی آڈیٹوریم موجود ہے ، اسی طرح خواجہ فرید آڈیٹوریم بھی بنایاجائے مگر ہماری ان درخواستوں پر کوئی توجہ نہ دی گئی اگر وزیر اعظم یہ کام کرتے جاتے تو آج ہم شکوہ نہیں تعریف کر رہے ہوتے۔ سید یوسف رضا گیلانی نے اپنی کتاب ’’چاہ یوسف سے صدا ‘‘ میں لکھا کہ 1947ء میں تقسیم ہندو پاک کے بعد صوبہ ملتان پنجاب میں شامل ہوا ۔
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ 2 جون 1818ء کو رنجیت سنگھ نے صوبہ ملتان پر قبضہ کیا مگر ملتان کی صوبائی حیثیت برقرار رکھتے ہوئے دیوان ساون مل کو ملتان کا صوبیدار بنایا ، ساون مل کے بعد اس کا بیٹا مولراج صوبیدار بنا ، 1849ء میں انگریزوں نے ملتان پر جب حملہ کیا تو اسے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ، زبردست حملے کے بعد انگریزوں نے 1849ء میں صوبہ ملتان پر قبضہ کرکے اسے پنجاب میں ضم کر دیا ۔ سید یوسف رضا گیلانی نے صفحہ 17 پر لکھا ہے کہ یہاں کی علاقائی زبان سرائیکی ہے ، جس پر سندھی زبان کا گہرا اثر ہے ۔ یہ بات خلاف واقعہ ہے ، اصل حقیقت یہ ہے کہ نہ صرف وسیب بلکہ سندھ کی بھی اصل سرائیکی ہے اور سندھ کی اکثریت نہ صرف سرائیکی زبان بولتی ہے بلکہ حضرت سچل سرمست ؒ سمیت سندھ کے اکثر شعراء نے سرائیکی میں شاعری کی ۔
یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ سندھی کا سرائیکی پر اثر نہیں بلکہ سندھی زبان پر سرائیکی کے انمٹ نقوش اب تک موجود ہیں ۔ پچھلے دنوں سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کا اخبارات میں بیان شائع ہوا ہے کہ میں نے اپنے پردادا سید صدرالدین گیلانی کی کتاب مرتب کر لی ہے اور اسے اردو، عربی، فارسی میں شائع کرا رہا ہوں ، خبر پڑھ کر میں نے گیلانی صاحب کو ایس ایم ایس کیا کہ آپ اردو ،عربی اور فارسی میں کتاب شائع کرا رہے ہیں ، کیا ہی اچھا ہو کہ اردو عربی فارسی کے ساتھ سرائیکی میں بھی اس کی اشاعت ہوکہ سرائیکی آپ کی مادری زبان ہونے کے ساتھ ساتھ ملک کے وسیع خطے کی زبان ہے اور چاروں صوبوں میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔
میں نے یہ بھی لکھا کہ سیاسی ضرورت کے تحت کہا جاتا ہے کہ سید یوسف رضا گیلانی کو سرائیکی ہونے کی سزا ملی جبکہ عملی طور پر وسیب کی زبان سے انس والا رشتہ نہیں ہے، بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ نہ صرف یہ کہ سید یوسف رضا گیلانی بلکہ وسیب کے جاگیرداروں ، تمنداروں اور گدی نشینوں کا وسیب سے دور دور تک کوئی تعلق نظر نہیں آتا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بھرپور اقتدار کے باوجود یہ صاحبان وسیب زبان وثقافت کی ترقی کیلئے کچھ نہ کر سکے۔ ہمارے وسیب سے تعلق رکھنے والے با اثر سیاستدان جن کی کوٹھیاں ، بنگلے لاہور میں ہیں ، سرائیکی وسیب کو صرف بیگار کیمپ سمجھتے ہیں اور لوگوں کے پاس صرف ووٹ لینے آتے ہیں ۔
چند دن پہلے کی بات ہے ہمارے ایک مخدوم صاحب کے ساتھ ان کے دو بیٹے بھی تھے ، وہ لوگوں سے سرائیکی میں اور بیٹوں سے اردو میں گفتگو کر رہے تھے ۔وسیب کے ایک بزرگ کھڑے ہوئے اور دست بستہ عرض کیا کہ کیا آپ کے گھر میں اردو بولی جاتی ہے ؟ تو مخدوم صاحب نے شرمندہ ہوئے بغیر جواب دیا ’’ نہ سئیں نہ گھر اچ میں اپنْے نوکراں نال سرائیکی الینداں ‘‘ ( نہ صاحب نہ میں گھر میں اپنے ملازموں سے سرائیکی میں بات کرتا ہوں ) ۔ یہ رویہ ہے ان کا اپنی ماں بولی کے ساتھ۔ یہ وسیب کی بہتری کا خاک سوچیں گے؟
یہ بھی پڑھیں:
ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ
سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ
ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ
میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر