وجاہت مسعود
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صحافت ایک شب زاد پیشہ ہے، اصطلاح کی حد تک ہی نہیں، لغوی طور پر بھی صحافت میں رات جاگتی ہے تو خبر کا سراغ لاتی ہے۔ کوئی اس وقت برہمن کی صباحت دیکھے / نکلے جب رات کا جاگا ہوا بت خانے سے۔ آپ تو جانتے ہیں، رات کے ہر روزگار میں خواب کا کچھ زیاں لازم ہے اور پھر ایک خاص نوع کی بیزار کن یکسانیت۔ گزشتہ شب کے کیف و کم سے ایسا اغماض گویا ’جانے والے یہاں کے تھے ہی نہیں‘۔ ساعت آئندہ سے ایسا التفات کہ’آبگینہ تندی صہبا سے پگھلا جائے ہے‘۔ اس گھڑی دس اپریل کا سورج بلند ہو چکا ہے۔ گزشتہ رات اطلاع اور افواہ کی دم بدم یلغار سے جونجھتے گزری۔ صبح اخبارات پر نظر ڈالی تو جہان گزراں کے بہت سے موڑ حافظے کی تختی پر روشن ہو گئے۔ ہم ایسوں کے لئے دسمبر 71 کے نقش تو بہت دھندلے ہیں البتہ 6 جولائی 77ء، 7 اگست 90ء، 19 اپریل 93ء اور 14 اکتوبر 99ء جیسے مناظر خوب مستحضر ہیں۔ مرزا دبیر نے تصویر کھینچ رکھی ہے، چھٹے اسیر تو بدلا ہوا زمانہ تھا۔ حکومت بدلنے کے ایک روز بعد کا اخبار تو شتر گربہ کا نمونہ ہوتا تھا، دائیں ہاتھ جلوس تازہ کی تفصیل درج ہے تو عین پہلو میں ڈاک ایڈیشن کی کوئی کترن ٹانک رکھی ہے۔ حیرت ہوتی تھی کہ اگر لکھنے اور بولنے والے یہ سب جانتے تھے تو اب تک خاموش کیوں تھے۔ کل آثار الصنادید مرتب کر رہے تھے، آج بغاوت کے اسباب کی تحقیق پر مامور ہیں۔ خیر اپنا تو جون ایلیا کے مصرعے میں معمولی تصرف سے کلیان ہو گیا، لوگ ’ہم‘ درمیاں کے تھے ہی نہیں۔
عمران خان کی حکومت رخصت ہو گئی۔ عدم اعتماد پارلیمانی طرز حکومت میں معمول کی کارروائی ہے۔ ابھی گزشتہ ہفتے اسرائیل کی اتحادی حکومت کو ایک رکن اسمبلی کے ہاتھوں انہدام کا خطرہ پیدا ہوا مگر کاروبار مملکت بدستور جاری رہا۔ ہمارے ہاں یہ قصہ 8 مارچ کو شروع ہوا اور ان گنت اتار چڑھاﺅ سے گزرتا 9 اور 10 اپریل کی درمیانی شب چند منٹ کے فاصلے سے توہین عدالت سے بال بال بچا۔ اس دوران سیاسی مکالمے میں ابتذال آیا۔ الزامات کی باڑھ چڑھی۔ روپے کی قیمت گری، کاروبار مملکت مفلوج ہوا۔ جگ ہنسائی ہوئی۔ اس لئے کہ ہم سیاسی عمل کی بجائے معجزوں کے منتظر ہیں۔ ہم دستوری تسلسل میں یقین کی بجائے نئے چہرے مانگتے ہیں۔ ہم انتخاب کو رائے دہی کا عمل نہیں سمجھتے، ہم انتخاب لڑتے ہیں۔ ہم کامیابی یا ناکامی نہیں، فتح و شکست کی لغت میں سوچتے ہیں۔ ہمارا ہر رہنما ایک فوق الفطرت تحفہ سرمدی ہے جو عالم عدم سے نرگس کی بے نوری کا درماں کرنے آیا ہے۔ ہمارا ہر مخالف مجسم برائی ہے جو رات کے اندھیرے میں متروکہ قبرستانوں میں شیطان سے گٹھ جوڑ کرتا ہے۔ ہمارا لیڈر ناکام ہو تو سازش کی لگی بندھی دلیل موجود ہے۔ ہم پالیسی کے جھنجھٹ میں نہیں پڑتے، نعرے سے تحریک پاتے ہیں۔ ہمیں دستور یا معیشت کا دماغ نہیں، ہم اوامر و نواہی کی گردان کرتے ہوئے ذاتی مفاد کی جستجو میں رہتے ہیں۔
ہمارے دریائے غیرت کا نقطہ کھولائو بہت کم ہے البتہ مغربی ممالک کا ویزہ لینے کے لئے گھنٹوں دھوپ میں کھڑے ہو سکتے ہیں۔ تحریک انصاف کا معاملہ بھی کچھ مختلف نہیں۔ ریپبلکن پارٹی، کنونشن لیگ، پی این اے، آئی جے آئی کی طرح یہ کھپریل بھی اب تنکا تنکا ہو کے بکھر جائے گی اس لئے کہ سیاسی جماعت نہیں تھی، گھاگ مگر نادیدہ دستکار محروم دلوں کو خوابوں کا دانہ دکھا کر دام میں لائے تھے۔ اب چھتری ہٹ گئی، خواب جھوٹے پڑ گئے اور پرائے پنچھی نئے پرانے تالابوں کی طرف پرواز کر گئے۔ اصل نقصان یہ ہے کہ سیاسی شعور سے دانستہ محروم رکھے گئے نیک دل، مخلص اور بنیادی طور پر دیانتدار ہجوم کی ایک اور نسل سیاست سے برگشتہ ہو گی۔ تحریک خلافت سے آج تک ہم نے سستے جذبات کا یہی ٹھیلا سجایا ہے۔
اجازت دیجئے کہ امبرٹو ایکو نے ’دائمی فسطائیت‘ کے عنوان سے 1995ء میں جو نکات مرتب کیے تھے، بار دگر دہرا دوں۔ (1) فسطائیت میں روایت پرستی اور قدامت پسندی پر زور دیا جاتا ہے۔ ( 2) جدیدیت اور روشن خیالی کو بے راہروی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ( 3) تفکر کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ عمل برائے عمل کی تلقین کی جاتی ہے۔ ( 4) اختلاف رائے کو غداری قرار دیا جاتا ہے۔ ( 5) فسطائیت بیرونی، اجنبی عناصر سے خائف رہتی ہے۔ تنوع کی بجائے یکسانیت پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ( 6) متوسط طبقے کی مایوسی سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ اس طبقے کو بیک وقت اشرافیہ اور غریبوں سے خوف دلایا جاتا ہے۔ ( 7) لوگوں کو مسلسل بیرونی اور داخلی سازشوں سے ڈرایا جاتا ہے۔ قوم میں محاصرے کی نفسیات پیدا کی جاتی ہے۔ ( 8) دشمن کو بیک وقت بہت طاقتور اور بہت کمزور بتایا جاتا ہے۔ حکومت مضبوط دشمن سے حفاظت کرے گی اور اسے ملیامیٹ کر دے گی۔ ( 9) امن پسندوں کو دشمن کا ایجنٹ قرار دیا جاتا ہے۔ ( 10) فسطائیت اپنے مخالفین سے حقارت کا سلوک کرتی ہے۔ ( 11) فسطائیت کو ہیرو بنانے کا جنون ہوتا ہے۔ بڑے بڑے کارنامے کرنے والے ہی قوم کا اثاثہ ہیں۔ ( 12) ہتھیاروں اور طاقت کی نمائش کا چلن ہوتا ہے۔ ( 13) مقبول عام رجحانات کو ہوا دے کر انہیں عوام کی آواز بتایا جاتا ہے۔ ( 14) فسطائیت عامیانہ لب و لہجے اور بازاری زبان کو فروغ دیتی ہے تا کہ غور و فکر پر مبنی تنقیدی شعور کو دبایا جا سکے۔
اس وقت قوم کے ایک حصے میں جشن کا سماں ہے اور ایک طبقے پر مایوسی کی کیفیت طاری ہے۔ 24 اکتوبر 1947 کو جامع مسجد دہلی میں مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے مولانا ابوالکلام آزاد نے فرمایا تھا، ”جس طرح آج سے کچھ عرصہ پہلے تمہارا جوش و خروش بے جا تھا۔ اسی طرح آج تمہارا یہ خوف و ہراس بھی بے جا ہے۔‘ مولانا کے حسن کلام سے تقابل کا خیال بھی جسارت ہے ۔ صرف یہ عرض ہے کہ خوابوں کے جنازے اٹھانے سے تعمیر قوم کی امانت اٹھانا کہیں بہتر ہے۔
صحافت ایک شب زاد پیشہ ہے، اصطلاح کی حد تک ہی نہیں، لغوی طور پر بھی صحافت میں رات جاگتی ہے تو خبر کا سراغ لاتی ہے۔ کوئی اس وقت برہمن کی صباحت دیکھے / نکلے جب رات کا جاگا ہوا بت خانے سے۔ آپ تو جانتے ہیں، رات کے ہر روزگار میں خواب کا کچھ زیاں لازم ہے اور پھر ایک خاص نوع کی بیزار کن یکسانیت۔ گزشتہ شب کے کیف و کم سے ایسا اغماض گویا ’جانے والے یہاں کے تھے ہی نہیں‘۔ ساعت آئندہ سے ایسا التفات کہ’آبگینہ تندی صہبا سے پگھلا جائے ہے‘۔ اس گھڑی دس اپریل کا سورج بلند ہو چکا ہے۔ گزشتہ رات اطلاع اور افواہ کی دم بدم یلغار سے جونجھتے گزری۔ صبح اخبارات پر نظر ڈالی تو جہان گزراں کے بہت سے موڑ حافظے کی تختی پر روشن ہو گئے۔ ہم ایسوں کے لئے دسمبر 71 کے نقش تو بہت دھندلے ہیں البتہ 6 جولائی 77ء، 7 اگست 90ء، 19 اپریل 93ء اور 14 اکتوبر 99ء جیسے مناظر خوب مستحضر ہیں۔ مرزا دبیر نے تصویر کھینچ رکھی ہے، چھٹے اسیر تو بدلا ہوا زمانہ تھا۔ حکومت بدلنے کے ایک روز بعد کا اخبار تو شتر گربہ کا نمونہ ہوتا تھا، دائیں ہاتھ جلوس تازہ کی تفصیل درج ہے تو عین پہلو میں ڈاک ایڈیشن کی کوئی کترن ٹانک رکھی ہے۔ حیرت ہوتی تھی کہ اگر لکھنے اور بولنے والے یہ سب جانتے تھے تو اب تک خاموش کیوں تھے۔ کل آثار الصنادید مرتب کر رہے تھے، آج بغاوت کے اسباب کی تحقیق پر مامور ہیں۔ خیر اپنا تو جون ایلیا کے مصرعے میں معمولی تصرف سے کلیان ہو گیا، لوگ ’ہم‘ درمیاں کے تھے ہی نہیں۔
عمران خان کی حکومت رخصت ہو گئی۔ عدم اعتماد پارلیمانی طرز حکومت میں معمول کی کارروائی ہے۔ ابھی گزشتہ ہفتے اسرائیل کی اتحادی حکومت کو ایک رکن اسمبلی کے ہاتھوں انہدام کا خطرہ پیدا ہوا مگر کاروبار مملکت بدستور جاری رہا۔ ہمارے ہاں یہ قصہ 8 مارچ کو شروع ہوا اور ان گنت اتار چڑھاﺅ سے گزرتا 9 اور 10 اپریل کی درمیانی شب چند منٹ کے فاصلے سے توہین عدالت سے بال بال بچا۔ اس دوران سیاسی مکالمے میں ابتذال آیا۔ الزامات کی باڑھ چڑھی۔ روپے کی قیمت گری، کاروبار مملکت مفلوج ہوا۔ جگ ہنسائی ہوئی۔ اس لئے کہ ہم سیاسی عمل کی بجائے معجزوں کے منتظر ہیں۔ ہم دستوری تسلسل میں یقین کی بجائے نئے چہرے مانگتے ہیں۔ ہم انتخاب کو رائے دہی کا عمل نہیں سمجھتے، ہم انتخاب لڑتے ہیں۔ ہم کامیابی یا ناکامی نہیں، فتح و شکست کی لغت میں سوچتے ہیں۔ ہمارا ہر رہنما ایک فوق الفطرت تحفہ سرمدی ہے جو عالم عدم سے نرگس کی بے نوری کا درماں کرنے آیا ہے۔ ہمارا ہر مخالف مجسم برائی ہے جو رات کے اندھیرے میں متروکہ قبرستانوں میں شیطان سے گٹھ جوڑ کرتا ہے۔ ہمارا لیڈر ناکام ہو تو سازش کی لگی بندھی دلیل موجود ہے۔ ہم پالیسی کے جھنجھٹ میں نہیں پڑتے، نعرے سے تحریک پاتے ہیں۔ ہمیں دستور یا معیشت کا دماغ نہیں، ہم اوامر و نواہی کی گردان کرتے ہوئے ذاتی مفاد کی جستجو میں رہتے ہیں۔
ہمارے دریائے غیرت کا نقطہ کھولائو بہت کم ہے البتہ مغربی ممالک کا ویزہ لینے کے لئے گھنٹوں دھوپ میں کھڑے ہو سکتے ہیں۔ تحریک انصاف کا معاملہ بھی کچھ مختلف نہیں۔ ریپبلکن پارٹی، کنونشن لیگ، پی این اے، آئی جے آئی کی طرح یہ کھپریل بھی اب تنکا تنکا ہو کے بکھر جائے گی اس لئے کہ سیاسی جماعت نہیں تھی، گھاگ مگر نادیدہ دستکار محروم دلوں کو خوابوں کا دانہ دکھا کر دام میں لائے تھے۔ اب چھتری ہٹ گئی، خواب جھوٹے پڑ گئے اور پرائے پنچھی نئے پرانے تالابوں کی طرف پرواز کر گئے۔ اصل نقصان یہ ہے کہ سیاسی شعور سے دانستہ محروم رکھے گئے نیک دل، مخلص اور بنیادی طور پر دیانتدار ہجوم کی ایک اور نسل سیاست سے برگشتہ ہو گی۔ تحریک خلافت سے آج تک ہم نے سستے جذبات کا یہی ٹھیلا سجایا ہے۔
اجازت دیجئے کہ امبرٹو ایکو نے ’دائمی فسطائیت‘ کے عنوان سے 1995ء میں جو نکات مرتب کیے تھے، بار دگر دہرا دوں۔ (1) فسطائیت میں روایت پرستی اور قدامت پسندی پر زور دیا جاتا ہے۔ ( 2) جدیدیت اور روشن خیالی کو بے راہروی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ( 3) تفکر کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ عمل برائے عمل کی تلقین کی جاتی ہے۔ ( 4) اختلاف رائے کو غداری قرار دیا جاتا ہے۔ ( 5) فسطائیت بیرونی، اجنبی عناصر سے خائف رہتی ہے۔ تنوع کی بجائے یکسانیت پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ( 6) متوسط طبقے کی مایوسی سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ اس طبقے کو بیک وقت اشرافیہ اور غریبوں سے خوف دلایا جاتا ہے۔ ( 7) لوگوں کو مسلسل بیرونی اور داخلی سازشوں سے ڈرایا جاتا ہے۔ قوم میں محاصرے کی نفسیات پیدا کی جاتی ہے۔ ( 8) دشمن کو بیک وقت بہت طاقتور اور بہت کمزور بتایا جاتا ہے۔ حکومت مضبوط دشمن سے حفاظت کرے گی اور اسے ملیامیٹ کر دے گی۔ ( 9) امن پسندوں کو دشمن کا ایجنٹ قرار دیا جاتا ہے۔ ( 10) فسطائیت اپنے مخالفین سے حقارت کا سلوک کرتی ہے۔ ( 11) فسطائیت کو ہیرو بنانے کا جنون ہوتا ہے۔ بڑے بڑے کارنامے کرنے والے ہی قوم کا اثاثہ ہیں۔ ( 12) ہتھیاروں اور طاقت کی نمائش کا چلن ہوتا ہے۔ ( 13) مقبول عام رجحانات کو ہوا دے کر انہیں عوام کی آواز بتایا جاتا ہے۔ ( 14) فسطائیت عامیانہ لب و لہجے اور بازاری زبان کو فروغ دیتی ہے تا کہ غور و فکر پر مبنی تنقیدی شعور کو دبایا جا سکے۔
اس وقت قوم کے ایک حصے میں جشن کا سماں ہے اور ایک طبقے پر مایوسی کی کیفیت طاری ہے۔ 24 اکتوبر 1947 کو جامع مسجد دہلی میں مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے مولانا ابوالکلام آزاد نے فرمایا تھا، ”جس طرح آج سے کچھ عرصہ پہلے تمہارا جوش و خروش بے جا تھا۔ اسی طرح آج تمہارا یہ خوف و ہراس بھی بے جا ہے۔‘ مولانا کے حسن کلام سے تقابل کا خیال بھی جسارت ہے ۔ صرف یہ عرض ہے کہ خوابوں کے جنازے اٹھانے سے تعمیر قوم کی امانت اٹھانا کہیں بہتر ہے۔
بشکریہ ہم سب
یہ بھی پڑھیے:
منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود
ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود
وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود
اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر