’مجھے ایوارڈ نہ دیں بلکہ میرے سندھ دریا، سندھو کو بچا لیں۔ یہ سندھ دریا میری ثقافت، روایات کا امین اور روزگار کا ذریعہ ہے۔ اس کی تباہی ایک پوری تاریخ، قوم، علاقے کی تباہی ہے۔‘
یہ کہنا ہے سرائیکی زبان کے مشہور زمانہ ادیب اور شاعر ڈاکٹر اشو لال فقیر کا۔ جنھوں نے پاکستان اکادمی ادبیات کی جانب سے ادب اور شاعری پر ملک کا اعلیٰ ترین ایوارڈ ’کمالِ فن‘ اور 10 لاکھ روپے نقد رقم احتجاجاً وصول کرنے سے انکار کر دی ہے۔ یہ ایوارڈ ڈاکٹر اشو لال فقیر کے علاوہ مستنصر حسین تارڑ کو بھی دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔
ڈاکٹر اشو لال فقیر نے یہ ایوارڈ قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اُنھوں نے ساری زندگی اپنے لوگوں کے جذبات کا اظہار شاعری کے ذریعے کیا ہے۔
’میری شاعری مزاحمتی شاعری ہے۔ جس میں میں نے اپنے ماحول، پرندوں، چرندوں، صحراؤں، پانی، ثقافت، زبان، کلچر کی تباہی کا ذکر کیا ہے۔ اب ریاست سے اس پر ایوارڈ لینے کا مطلب ریاست کی عوام دشمن پالیسیوں کو قبول کرنا ہے جو کہ میں نہیں کر سکتا۔‘
خیال رہے کہ مستنصر حسین تارڈر نے بھی اپنے ایک وڈیو پیغام میں ایوارڈ وصول نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔
انھوں نے اپنے پیغام میں ایوارڈ دینے کے طریقہ کار پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ ’ایوارڈ دو لوگوں کے ساتھ شیئر نہیں کیا جا سکتا ہے یہ اصول و ضوابط اور کئی سالوں سے جاری رہنے والے طریقہ کار کے خلاف ہے۔‘
ڈاکٹر اشو لال فقیر کون ہیں؟
ڈاکٹر اشو لال فقیر کا اصل نام محمد اشرف ہے۔ وہ پنجاب کے ضلع لیہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ سرائیکی شاعری کی چھ کتابوں اور کہانیوں کی ایک کتاب کے مصنف ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ اُن کے والد ایک ریٹائرڈ فوجی تھے اور اُن کا تعلق ایک عام اور متوسط طبقے کے خاندان سے ہے۔
’گھر میں میری والدہ مجھ اشرف کے نام سے نہیں بلکہ پیار سے اشو لال کے نام سے پکارتی تھیں۔ میرا یہ ہی نام مشہور ہوا تھا اور پھر میں نے خود بھی یہی نام اختیار کر لیا۔‘
ڈاکٹر اشو لال فقیر نے قائد اعظم میڈیکل یونیورسٹی بہاولپور سے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی تھی۔
وہ کہتے ہیں کہ کالج کے زمانے میں وہ اردو زبان میں بھی شاعری کرتے تھے جس میں اُن کا تخلص شعاع تھا۔
’سرائیکی میں سوچ سمجھ کر شاعری شروع کی تھی۔ میں نے فقیر کا تخلص مرشد شاہ حسین عرف مادھو لال حسین اور ان جیسے دیگر شعراء سے متاثر ہو کر اختیار کیا تھا۔‘
ڈاکٹر اشو لال فقیر کہتے ہیں کہ وہ ڈاکٹر تو بن گئے اور اس کے بعد سینے کے امراض میں مہارت بھی حاصل کر لی اور ساری زندگی پریکٹس بھی کی ہے، مگر اُن کے اندر ایک باغی اور انقلابی موجود ہے جو اُنھیں کسی بھی لمحے چین نہیں لینے دیتا۔
’میں جب اپنی دھرتی، اپنے لوگوں کی بے بسی، اپنی زمین اور ماحول کی تباہی دیکھتا ہوں تو میں صرف افسوس ہی نہیں کرتا بلکہ احتجاج کرتا ہوں۔ اس احتجاج کے لیے میں نے شاعری کو ذریعہ بنا رکھا ہے۔ اس راستے میں بڑی مشکلات آئی تھیں۔‘
نظم لکھنے پر فوجی عدالت سے سزا
ڈاکٹر اشو لال فقیر کہتے ہیں کہ وہ قائد اعظم میڈیکل کالج بہاولپور کے سال دوئم کے طالب علم تھے۔ یہ ضیاء الحق کا دور تھا۔ اس وقت وہ زیادہ تر اردو میں شاعری کرتے تھے۔ اسی دوران اُنھوں نے ایک نظم لکھی جس کا عنوان تھا ’سرخ سویرا‘۔ یہ نظم اُن کے کسی ساتھی طالب علم نے کالج کی دیوار پر لگا دی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ نظم کا دیوار پر لگنا تھا کہ ایک طوفان برپا ہو گیا اور ہر طرف شور شرابہ پھیل گیا اور اُنھیں گرفتار کر لیا گیا۔
ڈاکٹر اشو لال فقیر کا کہنا تھا کہ مارشل لاء دور میں جو کچھ دیگر سیاسی کارکنان، شاعروں، ادیبوں کے ساتھ ہوا تھا، اُن کے ساتھ بھی ہوا۔
’مجھ پر بھی مقدمہ چلا جس میں مجھے دو سال کے لیے کالج سے نکال دینے کی سزا سنائی گئی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ یہ سزا بھی اُن کا جذبہ اور حوصلے پست نہیں کر سکی۔ ’اس دو سال کے عرصے میں، میں نے اپنی ترجیحات کو پرکھا، دیکھا اور سمجھا، اور یہاں سے اپنی مادری زبان میں شاعری کرنے کا فیصلہ کیا۔‘
یہ کوئی پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ ڈاکٹر اشو لال فقیر نے کوئی حکومتی ایوارڈ وصول کرنے سے انکار کیا ہے بلکہ اس سے پہلے بھی وہ پرائڈ آف پنجاب ایوارڈ وصول کرنے سے انکار کر چکے ہیں۔
ڈاکٹر اشو لال فقیر کا کہنا تھا کہ وہ ایوارڈ اُن کے ساتھی شاعر اور ادیب رفعت عباس نے بھی وصول کرنے سے انکار کیا تھا۔
’اس کی وجہ یہ تھی کہ ہم چاہتے تھے کہ سرائیکی وسیب کو قومی شناخت اور اس کا جائز حق ملے۔ ایسا نہ ہونے کی صورت میں یہ ایوارڈ وصول کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا تھا۔‘
’سندھو اور صحرا تباہ ہو رہے ہیں‘
ڈاکٹر اشو لال فقیر کہتے ہیں کہ ’میری ساری شاعری میں دریائے سندھ، صحرا، ماحول، خوبصورتی اور قدرت کا ذکر ملتا ہے۔ اب اگر یہ تباہ ہو رہے ہوں تو میں کیسے ایوارڈ وصول کر سکتا ہوں؟‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ایک وقت تھا کہ پہاڑوں سے آنے والا میرا سندھو سمندر میں گرنے تک لاکھوں، کروڑوں لوگوں کے روزگار کا ذریعہ تھا۔ اس کے کنارے پر آبادیاں مختلف کام کرتی تھیں۔ کوئی ٹوکرے اور برتن بناتا تھا تو کوئی مچھلیاں پکڑتا تھا۔ مگر اب ریاست کی پالیسیوں کی وجہ سے مقامی لوگوں سے یہ سہولت چھن چکی ہے۔‘
ڈاکٹر اشو لال فقیر کہتے ہیں کہ نہ صرف یہ کہ ٹھیکداری نظام کی بدولت مقامی لوگوں سے ان کا حق چھن چکا ہے بلکہ سندھو کو تباہ کیا جا رہا ہے۔
’جب کبھی سندھو پہاڑوں سے ہو کر ڈیلٹا میں گرتا تو اس وقت یہ کوئی اڑھائی سو کلومیٹر کا علاقہ ہوتا تھا، اب یہ صرف 25 کلومیٹر رہ گیا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ بڑے پیمانے پر زرخیز زمین سمندر برد ہورہی ہے جس سے لوگ بیروزگار ہو رہے ہیں۔
’ایسی ہی صورتحال کا سامنا میرے صحرا کو بھی ہے۔ میرا صحرا بھی ختم ہو رہا ہے۔
’ان حالات میں اگر مجھے کہا جائے کہ میں کسی ایسے صدر اور وزیر اعظم سے جا کر ایوارڈ لوں جس کو میرا نام بھی نہیں پتا اور یہ بھی نہیں پتا کہ میں کیا کہتا ہوں، تو یہ مجھے کسی بھی صورت میں قبول نہیں ہے۔‘
اے وی پڑھو
سیت پور کا دیوان اور کرکشیترا کا آشرم||ڈاکٹر سید عظیم شاہ بخاری
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ