دسمبر 18, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

وزیر اعظم عمران خان نے ہمیشہ ان پر اعتماد کیا،عثمان بزدار

مشکل صورتحال میں اگر وہ خود استعفیٰ پیش نہ کرتے تو وہ اپنا حق ادا نہ کر سکتے

مجھے کسی سے کوئی گلہ نہیں، میں خاموشی سے پردے کے پیچھے بیٹھ کر کام کرتا ہوں، عثمان بزدار

وزیر اعلٰی پنجاب عثمان بزدار کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے ہمیشہ ان پر اعتماد کیا

اور اس مشکل صورتحال میں اگر وہ خود استعفیٰ پیش نہ کرتے تو وہ اپنا حق ادا نہ کر سکتے۔

وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے بی بی سی کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں کہا کہ ’میں نے بس یہ ہی سوچا کہ جو میرے بس میں ہے

وہ تو میں کروں تاکہ موجود سیاسی صورتحال میں آسانی پیدا کروں۔ میں نے تو بس یہی کوشش کی کہ اگر قربانی دینی ہے تو سب سے پہلے میں اس قربانی کے لیے تیار ہوں۔

پنجاب کے ضلع ڈیرہ غازی کی تحصیل تونسہ سے تعلق رکھنے والے عثمان احمد خان بزدار کو سنہ 2018 کے انتخابات میں کامیابی کے بعد

پاکستان تحریکِ انصاف کی جانب سے وزیرِ اعلٰی پنجاب کے عہدے کے لیے نامزد کیے جانے کے فیصلے نے سب کو حیرت میں ڈال دیا تھا۔

ان کے ساڑھے تین سالہ وزارت اعلیٰ کے دور میں سیاسی مخالفین کے ساتھ ساتھ پاکستان تحریک انصاف کے اپنے ارکان نے بھی وزیر اعظم عمران خان کے عثمان بزدار کو

وزیر اعلیٰ بنانے کے انتخاب پر ہمیشہ تنقید ہی کی لیکن عمران خان اپنے فیصلے پر ڈٹے رہے۔

موجود سیاسی صورتحال پر بات کرتے ہوئے عثمان بزدار کا کہنا تھا کہ اس پر تو کوئی بات کرنا حتمی نہیں کیونکہ یہاں تو پل پل حالات تبدیل ہو رہے ہیں

اور سیاست میں یہ سب ہوتا ہے۔

اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے وزیر اعظم اور خود ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر بات کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ

‘جہاں تک رہی بات میری وجہ سے یہ سیاسی بحران بنا ہے تو میں نے تو خود وزیر اعظم کو ہماری میٹنگ میں کہا کہ وہ جو فیصلہ کریں گے میں اس کی تکمیل کروں گا۔’

’عمران خان کہیں گے کہ بیٹھ جائیں تو ہم سیاست میں نظر نہیں آئیں گے‘

اپنی مستقبل کی سیاست کے حوالے سے بات کرتے ہوئے عثمان بزدار نے کہا کہ اللہ نے جتنی عزت دی

وہ بہت زیادہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں کہ آپ کو یہ مثال نہں ملے گی کہ جو پہلی بار ایم پی اے بنا اور پہلی مرتبہ میں ہی وزیر اعلیٰ بھی بن گیا۔

یہ تو اللہ کی دین ہے۔ میں نے کبھی وزارت اعلٰی کی خواہش نہیں کی تھی کیونکہ میں عہدے لینے کا شوق نہیں رکھتا۔‘

عثمان بزدار
ان کا کہنا تھا کہ ’اس لیے جو پارٹی فیصلہ کرے گی، جہاں کہے گی میں حاضر ہوں۔ ہم تو سپاہی ہیں اگر عمران خان کہیں گے کہ بیٹھ جائیں تو ہم آپ کو سیاست میں نظر بھی نہیں آئیں گے۔‘

چوہدری پرویز الٰہی کے وزیر اعلیٰ بننے کے سوال پر عثمان بزدار نے کہا کہ ’ہماری پارٹی نے انھیں منتخب کیا اور جو فیصلہ پارٹی کرے گی، ہم سب لوگوں کو اس کے پیچھے کھڑا ہونا ہے اور نیک نیتی کے ساتھ کوشش کرنی چاہیے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’باقی تو قسمت کی باتیں ہوتی ہیں کیونکہ جس کے نصیب میں جو کچھ لکھا ہوتا ہے وہی ہوتا ہے۔ مجھے کسی سے کوئی گلہ نہیں۔‘

پارٹی میں گروپنگ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے وزیر اعلٰی عثمان بزدار نے کہا کہ یہ سیاسی باتیں ہیں اور لوگ ایسے بیانات مرچ مصالے لگا کر بیان کرتے ہیں۔

’میرا تمام پارٹی والوں کے ساتھ تعلق ہے۔ میڈیا سے ہٹ کر ان کا میرے ساتھ بہت پیار محبت اور عزت کا رشتہ ہے اور میں تو یہ مانتا ہوں کہ یہ تعلق آج تک ہی محدود نہیں بلکہ ساری زندگی ان کے ساتھ رہے گا۔ مجھے کسی سے کوئی گلہ نہیں کہ کسی نے میرے خلاف بات کی یا کچھ کہا۔ میں ایسی چھوٹی چھوٹی باتیں نہیں سوچتا۔‘

وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے یہ بھی کہا کہ ‘ہر کسی کا اپنا مزاج ہے۔ میرا مزاج نہیں کہ میں بدتمیزی کروں، میں مختلف ہوں۔ اللہ نے ہر انسان کو مختلف بنایا۔ میری عادت ہے کہ میں خاموشی سے پردے کے پیچھے بیٹھ کر کام کرتا ہوں۔’

آپ میڈیا پر کم آتے ہیں جس کی وجہ سے عوام نے ہمیشہ محسوس کیا کہ آپ ان سے جڑ نہیں سکے۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ آپ کی کمی ہے؟

اس سوال پر وزیر اعلی عثمان بزدار نے کہا کہ ‘میں آپ کی اس بات سے متفق ہوں کہ ہم لوگوں تک اپنی باتیں میڈیا کے ذریعے اس طرح نہیں پہنچا سکے جس طرح ہمیں پہنچانی چاہیے تھی۔

اپنی وزارت اعلیٰ کے دوران صوبے میں کاموں کے حوالے سے وزیر اعلٰی عثمان بزدار نے کہا کہ ‘جتنا کام ہم نے کیا، میرا خیال ہے کہ اس کی تشہیر صیح انداز میں میڈیا پر نہیں ہو سکی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ‘لوگوں کو ہم وہ دیکھا ہی نہیں سکے جو کام ہم نے کیے۔

یہ ہماری کمی رہی۔ اگر میں یہ کہوں کہ آپ میرے پچھلے ساڑھے تین سال کے دور کا پچھلے دس سال سے موازنہ کریں تو ہم نے زیادہ کام کیا۔’

عثمان بزدار
،تصویر کا ذریعہ
’ساڑھے تین سال میں کوئی چھٹی نہیں کی‘

پنجاب کے ‘وسیم اکرم پلس’ کہلائے جانے والے سردار عثمان بزدار۔۔۔ جن کے بارے میں وزیر اعظم عمران خان کو اکثر کہتے سنا کہ عثمان اتنا کام کرتے ہیں لیکن کسی کو نظر ہی نہیں آتا۔

ساڑھے تین سال میں اپنی کارکردگی کے حوالے سے وزیر اعلٰی عثمان بزدار خاصے مطمئن دکھائی دیے۔ انھوں نے بتایا کہ ساڑھے تین سال میں انھوں نے کوئی چھٹی نہیں کی بلکہ مسلسل ڈیوٹی پر رہے۔

‘آفیشل ڈیوٹی کے علاوہ ریکارڈ چیک کر لیں ایسا نہیں ہو گا کہ میں اپنے ذاتی زندگی کے کام کے لیے بھی کہیں گیا ہوں۔

کوشش کی کہ ایک ایک لمحہ لوگوں کی خدمت کروں حالانکہ میرے ٹارگٹ اور خواب بہت بڑے ہیں۔’
اس سوال کے جواب میں کہ مخالفین کی جانب سے اکثر یہ بات کی جاتی ہے کہ آپ خاتون اول کے منظور نظر تھے، اس لیے آپ ساڑھے تین سال تک اس کرسی پر بیٹھے رہے اس پر آپ کیا کہیں گے؟

عثمان بزدار نے کہا کہ ایسی کوئی بات نہیں۔ ’آپ دیکھیں کہ وزیر اعظم نے وزیر اعلیٰ کے لیے ایک معیار مخصوص کیا تھا کہ منشور کو لے کر چلنا ہے۔

ایسا بندہ ہو جس پر پہلے سے کوئی سکینڈل نہ ہوں، اس کے کوئی مفادات نہ ہوں۔‘

’میں اس معیار پر پورا اتر رہا تھا۔ پنجاب کے سب سے پسماندہ علاقے کی نمائندگی کر رہا ہوں۔ پہلی دفعہ ایم پی اے بنا۔

میں پڑھا لکھا انسان ہوں ایسا نہیں کہ مجھے کچھ پتا نہیں۔ یہ تو وقت بتائے گا کہ میں نے کیا کیا کام کیے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’باقی کوئی انسان ایسا نہیں جو کہے کہ میں ہر چیز میں ماسٹر ہوں۔ انسان تو قبر تک سیکھتا ہے۔ بس انسان کو تکبر نہیں کرنا چاہیے اور اپنے آپ کو مزید بہتر کرتے رہنا چاہیے۔

میرا خواب تو یہ ہے کہ ہم غریب عوام اور اپنے صوبے کے لیے جو کچھ کر سکتے ہیں وہ کریں۔ ہمارا معیار یہ ہے کہ بس عوام کی اصل معنوں میں خدمت کی جائے جس میں ڈرامے بازی نہ ہو۔‘

،تصویر کا ذریعہ
’مائنس بزدار کی باتیں کرنے والے اپنی گاڑی پر لگا جھنڈا نہیں دیکھتے

مائنس بزدار کی بات آپ کے اپنے لوگوں سمیت بہت سے اور لوگ بھی کرتے ہیں؟ اس پر

جواب دیتے ہوئے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے کہا کہ ‘جو یہ باتیں کرتے ہیں وہ سب میرے دوست ہیں۔

میں نے تو آج تک کسی کو اپنی کابینہ سے بھی نہیں نکالا۔ وہ سب یہاں میرے پاس آتے ہیں، مجھ سے باتیں کرتے ہیں۔’ ‘

اس بارے میں ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘جو مجھے کہتے ہیں کہ مائنس بزدار

وہ یہ نہیں دیکھتے کہ جو جھنڈا ان کی گاڑی پر لگا وہ میرے دستخط سے ہی لگا۔ میں چاہتا تو دستخط سے انھیں نکال بھی سکتا تھا لیکن میں نے ایسا نہیں کیا۔’

About The Author