نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سیاسی خلفشار اور افواہوں کا راج||ظہور دھریجہ

تحریک انصاف نے جس طرح صوبے کے بل کے پیچھے چھپنے کی کوشش کی ہے لوگ اسے بھی سمجھتے ہیں اور ن لیگ جس طرح وسیب دشمنی پر کمر بستہ ہے۔

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پوری قوم کی نظریں تحریک عدم اعتماد پر لگی ہوئی ہیں۔ حکومت کی کمزور پوزیشن اس سے عیاں ہے کہ پہلے دن سے لیت و لعل سے کام لیا جا رہا ہے ، اگر کامیابی کا یقین ہوتا تو پہلے دن سے ہی ووٹنگ کرا دی جاتی۔ سیاسی خلفشار کے باعث تمام کام رکے ہوئے ہیں ، کوئی کام نہیں ہو رہا، سب کی نظریں ٹی وی سکرینوں پر ہیں۔ سیاسی خلفشار اور بے یقینی کی صورت میں افواہوں کا راج ہوتا ہے۔
 وفاقی وزراء کے علاوہ وزیر اعلیٰ سردار عثمان خان بزدار بھی منحرفین میں شامل ہیں اس افواہ کے ساتھ یہ بات بھی شامل تھی کہ بزدار صاحب استعفیٰ دیکر امریکہ روانہ ہو رہے ہیں ، وزیر اعلیٰ کی طرف سے تردید آئی کہ کپتان کا کھلاڑی ہوں آخر دم تک اس کے ساتھ کھڑا ہوں۔ ابھی تردید کا اثر پختہ نہیں ہوا تھا کہ ایک نجی ٹی وی چینل نے خبر چلا دی کہ وزیر اعلیٰ سردار عثمان خان بزدار نے پنجاب اسمبلی تحلیل کرنے کیلئے سمری تیار کر لی، فیصلے کا انتظار ہے،
 عمران خان جونہی آرڈر دیں گے اسمبلی توڑ دی جائے گی۔ افواہوں کے اثناء میں جنوبی پنجاب صوبے کے ورکر بھی حرکت میں آئے انہوں نے سوشل میڈیا پر پوسٹیں لگانا شروع کر دیں کہ بزدار صاحب! اسمبلی تحلیل کرنے سے پہلے سرائیکی صوبے کا مسئلہ حل کرائیں اور عمران خان سے صوبے کا آرڈیننس جاری کرائیں۔ حکمران جماعت تحریک انصاف اور اپوزیشن جماعتیں چالیں چل رہی ہیں ، ملک اور قوم کا کسی کو احساس تک نہیں ، کرسی اقتدار کا کھیل ہے ، چوں چوں کا مربہ، اپوزیشن کو اکٹھا کرنے میں عمران خان کا ہاتھ ہے، عمران خان کی غیر سیاسی ضد ، ہٹ دھرمی اور نہیں چھوڑوں گا کی بڑھک نے ان کو اکٹھا کر دیا۔
 ایمپائر کی طرف سے نیوٹرل کے اعلان نے ان کو مزید تگڑا کر دیا، آخری دم تک مقابلہ کرنے کا اعلان دراصل عمران خان کے اس عزم کی تردید کررہا ہے کہ مجھے اقتدار کی ضرورت نہیں۔ جو تماشہ ہو رہا ہے اس کا بہت بڑا نقصان یہ ہے کہ نوجوانوں نے عمران خان کو امید کی آخری کرن جان کر ووٹ دیا تھا، عمران خان کی ناکامی سے نوجوانوں کی امید ریزہ ریزہ ہو جائیں گئی، آگے اندھیرا ہے کہ عمران کے سامنے مخالفت میں جو چہرے کھڑے ہیں انہی کی نفرت کا ووٹ تو عمران کو ملا تھا۔
عمران خان اپنی عمر کے حساب سے بڑے ہو چکے ہیں ان کو سیاسی بالغ نظری کا مظاہرہ کرنا چاہئے اور انہیں جو مقبولیت اور شہرت حاصل ہوئی ہے اسے نعمت اور غنیمت جاننا چاہئے اور بڑے فیصلے کرنے چاہئیں۔ معاملہ ایک کہاوت والا ہے کہ مولوی صاحب سے ایک دیہاتی خاتون نے پوچھا مولوی صاحب! مرد کو نیکی کے بدلے حور ملے گی اور قیامت کے دن عورت کو نیکی کے بدلے کیا ملے گا؟ مولوی صاحب سر کھجاتے ہوئے توقف سے بولے عورت کو نیکیوں کے بدلے اس کا وہی شوہر ملے گا، عورت جلی ہوئی تھی فوراً کہا ،کیا فائدہ ایسی جزا کا کہ دنیا میں بھی عذاب اور آخرت میں بھی عذاب۔
اب عمران خان جاتا ہے اور وہی چہرے واپس آ جاتے ہیں جن کو نواجونوں نے مسترد کیا تھاتو نوجوان یقینا کہیں گے بھاڑ میں جائے ایسی سیاست جو امیدوں کی قاتل ہو۔ عمران خان کی ناکامی کا سب سے متاثرہ فریق وسیب بھی ہے، عمران خان نے 100 دن میں صوبہ بنانے کا وعدہ کیا، پارٹی منشورمیں صوبہ بنانے کا لکھا، الیکشن اسی نعرے پر لڑا، الیکشن کے دوران صوبہ کا ماحول بنایا گیا، وسیب کی محرومی کے تذکرے ہوئے، صوبہ بنانے اور پسماندگی ختم کرنے کے اعلانات ہوئے مگر بر سراقتدار آنے کے بعد یہ سب کچھ نقش بر آب ہوا، لوگوں کی آس ٹوٹ گئی ۔
پی ٹی آئی کے منحرفین اور صوبہ محاذ والوں نے مزید مایوس کر دیا کہ گندے بھی ہو رہے ہیں پھر بھی ذاتی دُکھڑے رو رہے ہیں اگر یہ لوگ 100 دن گزرنے کے بعد صوبے کے نام پر باہر آ جاتے تو لوگ ان کے ہاتھ چوم رہے ہوتے اب ہر طرف سے ان کیلئے ذلت کے سوا کچھ نہیں۔ 28مارچ کا دن اہم ہے، دیکھنا یہ ہے کہ سپیکر عدم اعتماد کی تحریک پر پہلے بحث کراتا ہے یا صوبے کا بل پہلے پیش کرتا ہے، (ن) لیگ کا امتحان ہے، صوبے کے مسئلے پر (ن) لیگ نے بہت پینترے بدلے، اب حمایت یا مخالفت میں سے ایک کا چنائو کرنا ہوگا۔ (ن) لیگ کی طرف سے صوبے کی مخالفت والی دو صوبوں کی چال بھی کام نہ دے گی ، اگر صوبے کے بل پر پولنگ ہوتی ہے تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا، جو جماعتیں وسیب کے لوگوں کو بے وقوف سمجھتی ہیں دراصل وہ خود غلط فہمی کا شکار ہیں۔
 تحریک انصاف نے جس طرح صوبے کے بل کے پیچھے چھپنے کی کوشش کی ہے لوگ اسے بھی سمجھتے ہیں اور ن لیگ جس طرح وسیب دشمنی پر کمر بستہ ہے۔ وسیب کے لوگوں کو اس کا بھی ادراک ہے۔ وسیب میں (ن) لیگ کی سیاست کرنے والے رانا محمود الحسن ، عبدالرحمن کانجو، شیخ فیاض الدین وغیرہ کے امتحان کا وقت ہے وہ (ن) لیگ کوصوبے کی حمایت پر آمادہ کر لیتے ہیں تو ٹھیک ورنہ آئندہ الیکشن میں ان کا پتہ بھی صاف ہوگا۔ عمران خان اگر وسیب کا مسئلہ حل کرنا چاہتے ہیں تو نیک نیتی سے ہونا چاہئے، وسیب کی حدود اور اس کی شناخت کا مسئلہ بھی اہمیت کا حامل ہے، عمران خان کے علاوہ اپوزیشن جماعتوں کو بھی اس حساس مسئلہ پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ وسیب کے لوگ یہ بھی نہیں چاہتے کہ انہیں پہلے سے موجود صوبوں سے بڑھ کر وسیع اختیارات اور انوکھے نام والا صوبہ دیا جائے ،
بس ! وسیب کے لوگوں کا اتنا مطالبہ ہے کہ جس طرح دوسرے صوبے موجود ہیںبالکل اسی طرح کا صوبہ دیا جائے اس سے پاکستان مضبوط ہوگا ، چھوٹے صوبوں کا احساس محرومی ختم ہوگا اور پنجاب کے بڑے حجم کی وجہ سے پنجاب پر جو اعتراضات آتے ہیں وہ ختم ہو جائیں گے ، ملک میں ترقی اور خوشحالی کا نیا دور شروع ہوگا۔

 

یہ بھی پڑھیں:

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

About The Author