وجاہت مسعود
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج مارچ کی 25 تاریخ ہے۔ یونہی یاد دلانا تھا کہ 51 برس پہلے آج ہی کے دن ڈھاکہ میں آپریشن سرچ لائٹ شروع ہوا تھا۔ فارم گیٹ کے ناکے پر چلنے والی پہلی گولی سے وہ آگ بھڑکی جس نے قائد اعظم کا پاکستان دو لخت کر دیا۔ سلہٹ کی پہاڑیوں پر گرتی بوندوں سے خنجراب کی برف پوش چوٹیوں کو چھوتا ہوا پاکستان سمٹ کے ایک عمودی پٹی کی صورت اختیار کر گیا۔ 26 مارچ کی شام بھٹو صاحب نے کراچی ایرپورٹ پر کہا تھا، خدا کا شکر ہے، پاکستان بچ گیا۔ چرچل نے ڈنکرک سے شکست خوردہ افواج کی بازیابی پر کہا تھا، جنگیں کامیاب مراجعت سے نہیں جیتی جاتیں۔ ٹھیک اسی طرح قومیں بندوق کی نالی سے نہیں، عمرانی سمجھوتے کی پاسداری سے سلامت رہتی ہیں۔ ہماری تاریخ ناقابل پیش گوئی اتار چڑھائو کا مرقع ہے۔ پون صدی پرپھیلی اس حکایت کا بیشتر حصہ ایسا محضر ندامت ہے کہ اسے نصاب تو کیا، اجتماعی یاد داشت سے بھی کھرچ دیا گیا ہے۔ وطن دوستی لیکن ناخن کا ایسا قرض ہے جسے کسی فرمان شاہی سے منسوخ نہیں کیا جا سکتا۔ اسے پانچویں ہائبرڈ وار فیئر کہا جائے یا مفروضہ انتشار پسندی، قلم کا ضمیر مسلط کردہ فراموشی کے خلاف یادداشت کی مزاحمت سے پیچھے نہیں ہٹ سکتا۔
2018ء کا برس زیر آب طوفانی لہروں سے عبارت تھا۔ فروری 2018ء میں منتخب صحافیوں سے ملاقات میں آئندہ بندوبست کے خدوخال واضح کیے گئے تھے۔ درشنی تقاضے نبھانے کے لیے ایک منتخب حکومت موجود تھی لیکن قوم کو مطلع کر دیا گیا تھا کہ 2008ء سے شروع ہونے والا جمہوری تسلسل ایک عہد عبور میں داخل ہو رہا ہے۔ اس دوران عدالتوں سے فیصلے آتے رہے۔ نیب کا ادارہ سیاسی مخالفین سے دست پنجہ کرتا رہا۔ انتخابی امیدوارو ں سے نیم شب رابطوں کا سلسلہ ایسا پھیلا کہ بچہ بچہ اس کے کیف و کم سے آگاہ ہو گیا۔ ولی خان فرمایا کرتے تھے کہ سازش جلسہ عام میں نہیں ہوتی، اس کے مہرے دو یا تین لوگ بٹھایا کرتے ہیں۔ اس پر یہ جملہ بڑھا دینا چاہیے کہ سازش اگر کوچہ و بازار میں بازگشت دے تو اسے سازش نہیں، جرم کہا جاتا ہے۔ 26 جولائی کی شام ایک مستعد اہلکار نے سورہ آل عمران کی آیت نمبر 26 کا ترجمہ ٹویٹ کیا تھا۔ یہ وہی محترم ہستی تھی جس نے 6 دسمبر 2018ء کو صحافیوں کو حکم دیا تھا کہ آئندہ چھ ماہ تک مثبت رپورٹنگ کی جائے۔ اس فرمان کی دستوری حیثیت سے قطع نظر، اس اشارے سے بغل بچہ صحافیوں کے طائفے میں جوش و خروش پیدا ہو گیا۔
16 اپریل 2019ءکو 26 افراد کی ایک فہرست جاری کی گئی جن کے بارے میں بتایا گیا کہ انہیں منظور شدہ دفاعی تجزیہ کار سمجھا جائے۔ اس فہرست سے پیشہ ور صحافی کے لیے دست تہ سنگ آمدہ کی کیفیت پیدا ہو گئی۔ اس فہرست میں شامل خوش نصیب تواتر سے ٹیلی ویژن پر نظر آنے لگے۔ صحافی کا المیہ یہ تھا کہ سیاسی، معاشی اور خارجہ معاملات پر رائے زنی کرتی ہوئی ان پرفتوح ہستیوں کو کس درجہ بندی میں رکھا جائے۔ یہ کسی سیاسی جماعت کے رکن نہیں تھے۔ صحافت کے پیشے سے ان کا تعلق نہیں تھا اور ملازمت سے سبکدوشی کے بعد ان کی رائے کو سرکاری بیانیہ بھی نہیں سمجھا جا سکتا تھا۔ دراصل یہ ہائبرڈ بندوبست کے نادیدہ پہلو کے ترجمان تھے اور اجتماعی مکالمے کو اپنے شخصی پس منظر کے بل پر ایک خاص رنگ دینے کا ذمہ اٹھائے ہوئے تھے۔ ستم ظریفی یہ کہ ہائبرڈ نظام کی شراکت دار سیاسی پارٹی کے موقف کی کھلی ترجمانی کرنے کے باوجود یہ حضرات مذکورہ جماعت کے رسمی ارکان بھی نہیں تھے۔ چناچہ صحافت اپنی ساکھ کھونے لگی۔ اشارہ سمجھنے کی صلاحیت سے محروم صحافی منظر سے ہٹا دئے گئے۔ اخبار سرکاری گزٹ بن گیا اور برقی ذرائع ابلاغ ریاستی موقف کے ترجمان بن گئے۔ اس دوران کچھ سرپھرے صحافیوں کے ساتھ دراز دستی کے واقعات بھی پیش آئے جس سے وسیع پیمانے پر دہشت پھیل گئی۔ اس ملک میں پیشہ ورانہ تشخص رکھنے والے دوچار صحافتی ادارے ہی باقی ہیں۔ حالیہ برسوں میں بیشتر صحافتی ادارے اپنے کاروباری مفادات پر مہین پردہ ڈالنے کے لیے قائم کئے گئے ہیں۔ اس ملک کا صحافی بہت عرصہ پہلے ٹریڈ یونین کی نعمت سے محروم ہو چکا۔ اب نوبت یہ آئی کہ صحافی کی بجائے مالکان اور ان کے انتظامی اہلکاروں نے ادارتی صوابدید پر قبضہ کر لیا۔
ان دنوں موسم بدل رہا ہے۔ فروختنی قلم ایک نئے رسم الخط کی تلاش میں ہیں۔ مذکورہ چھبیس اصحاب فہم بھی سر کھجا رہے ہیں کہ حرف شیریں ترجماں کی تفسیر بدل رہی ہے۔ اشتراکی حقیقت پسندی کے بانی میکسم گورکی نے 1899ءمیں ’چھبیس مزدور اور ایک لڑکی‘ کے عنوان سے ایک افسانہ لکھا تھا۔ منٹو نے ’ہمایوں‘ کے روسی افسانہ نمبر میں اس کہانی کا ترجمہ کیا تھا۔ بسکٹ بنانے کے ایک کارخانے میں چھبیس بدحال مزدور زندگی کی مشقت کاٹ رہے ہیں۔ ان کی زندگی میں جینے کی واحد کرن ایک نوجوان لڑکی ہے جو کبھی کبھار بسکٹ لینے آتی ہے تو بیکری کی جھلسا دینے والی آنچ میں شرابور مزدوروں کو زندگی کی ایک جھلک دیکھنے کا موقع مل جاتا ہے۔ یہ چھبیس مزدور اپنی معصومیت میں اس لڑکی کو نیکی کا اوتار سمجھتے ہیں۔ کچھ عرصے بعد ہمسائے میں ایک سابق سپاہی چلا آتا ہے جس کی زرق برق وردی اور اوباش طور طریقے مزدوروں کو ایک آنکھ نہیں بھاتے۔ سابق سپاہی مزدوروں سے شرط لگاتا ہے کہ ان کے خوابوں کی شہزادی ایک معمولی لڑکی ہے جسے خوشنما لباس اور اختیار کے معمولی اظہار سے رجھایا جا سکتا ہے۔ بوڑھا سپاہی شرط جیت جاتا ہے۔ خیالوں کی پارسا دیوی گوشت پوست سے بنی عورت ثابت ہوئی۔ گورکی نے یہ نہیں لکھا کہ اپنے جانکاہ شب و روز میں روشنی کی واحد کرن سے محروم ہونے والے چھبیس مزدوروں پر کیا گزری۔ ہمیں بھی معلوم نہیں کہ قلم فروشی کی پاتال میں اترنے کے بعد صحافت پہ کیا گزرے گی۔ یہ بہرحال طے ہے کہ میکسم گورکی کا سپاہی آج بھی زندہ ہے۔ چھبیس مزدور حسب خواہش بدذائقہ بسکٹ گھڑ سکتے ہیں۔ اسمبلی کے ضوابط موم کی ناک ہیں۔ کمرہ عدالت میں دستور کی ایک سے زیادہ تشریحات موجود ہیں۔ میکسم گورکی کی کہانی کا المیہ ابھی ختم نہیں ہوا۔
بشکریہ : ہم سب
یہ بھی پڑھیے:
منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود
ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود
وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود
اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر