نومبر 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ایک ایوارڈ کے بارے میں سرسری بات||رفعت عباس

۔اسلام آباد یا لاہور سے ایک اچھوت/راکھشس/مقامی نے ایوارڈ چرایا ہے تو براہمن زادے ناراض نہ ہوں۔اچھوتوں کے اجداد کو گالیاں نہ دیں اور ان کی موت کی پیش گوئی نہ کریں۔راکھشسوں کی موت کی پیش گوئی رگ وید نے بھی کی تھی لیکن راکھشس ابھی زندہ ہیں۔

رفعت عباس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ لینا میرا ذاتی فیصلہ ہے۔اس سے پہلے پرائڈ آف پنجاب ایوارڈ کی واپسی بھی میرا اپنا فیصلہ تھا۔یہ دونوں فیصلے ایک سرائیکی لکھنے والے/مقامی باشندے کے طور پر میری ذاتی/انسانی آزادی سے منسلک ہیں۔ان دونوں باتوں نے مجھے اور یہاں بسنے والے لوگوں کو مونجھ/افسردگی اور تنہائی سے نکلنے میں مدد دی ہے۔ایک مدت سے مونجھ اور تنہائی کو سرائیکی لوگوں کا زیور قرار دیا جا رہا ہے اور مقامی باشندوں کو پاتال ہی میں بسے رہنے کا مشورہ دینے والوں کی کمی نہیں ہے۔یہ سرائیکیوں کے مونجھ اور لمبی تنہائی سے نکلنے کا وقت ہے۔میں نے کسی حکومت یا اس کے کسی صدر سے ایوارڈ نہیں لیا،نہ ہی وہ دینے کے قابل ہیں۔میں نے اس دھرتی سے ایوارڈ لیا ہے جہاں ملتان اور کارونجھر آباد ہیں۔جہاں دریائے چناب کے کنارے میری بستی ہے جہاں میری سات پشتوں کی قبریں ایک ہی گورستان میں ہیں۔یہ خطہ سرائیکستان ہے جو پاکستان میں بستا ہے۔اس لیے ہم جانتے ہیں کہ ہمارا سرائیکستان اسی پاکستان میں بنے گا۔ہم سرائیکی کسی بھی لشکر اور مذہبی اجارہ داروں کے خوف سے ماورا بولتے ہیں۔ہم نے اپنی جھومر کے معمول میں فوج کو اپنی بیرکوں میں واپس جانے کا کہا ہے۔ہم جھومر ڈالنے والے فوج کی پریڈ سے مانوس نہیں ہیں۔ہم نے اپنی شاعری میں بلوچوں کی گمشدگی کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔یہ ریاست ہمارے مکالمے سے آگاہ ہے اور جانتی ہیں کہ ہم سرائیکی کس طرح بولتے ہیں۔میں نے یہ ایوارڈ پاکستان سے لیا ہے اور پاکستان بھی جانتا ہے کہ سرائیکی کس طرح بات کرتے ہیں۔یہ ایوارڈ ایک سرائیکی نے اپنی زبان بندی کے لیے نہیں بلکہ اونچی آواز میں بولنے کے لیے لیا ہے۔ہم سرائیکی بندوق نہیں اٹھاتے اپنی کلا سے بات کرتے ہیں،سو اس ریاست سے بات کرنے کا ہمارا اپنا طریقہ ہے۔سپہ سالار،ملا،قاضی اور حاکم سے بات کرنے کی ہماری اپنی حکمت ہے۔یہ اس ملک کا ایوارڈ ہے جس میں ہم سرائیکی اپنی صوبائی اکائی کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں،سو ہم اس کا ایوارڈ اس کے منہ پہ نہیں مار سکتے۔ہمارے پاس مکالمے کا ہنر اور آرٹ کی سفارت کاری ہے جو ہمیں اپنی سیاسی کامیابی تک لے جا سکتی ہے۔اسلام آباد یا لاہور سے ایک اچھوت/راکھشس/مقامی نے ایوارڈ چرایا ہے تو براہمن زادے ناراض نہ ہوں۔اچھوتوں کے اجداد کو گالیاں نہ دیں اور ان کی موت کی پیش گوئی نہ کریں۔راکھشسوں کی موت کی پیش گوئی رگ وید نے بھی کی تھی لیکن راکھشس ابھی زندہ ہیں۔

رفعت عباس دی کتاب "ایں نارنگی اندر” پڑھن کیتے کلک کرو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایں نارنگی اندر پڑھن کیتے کلک کرو

About The Author