ملک سراج احمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ مدت قبل ایک پریس کانفرنس میں گفتگو کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کپتان کو میڈیا کے ذریعے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان آپ دعا کریں کہ آپ کے اقتدار کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت آ جائے تو آپ کی کچھ بچت ہو جائے گی اور اگر نون لیگ کی حکومت آ گئی تو پھر اپنی خیر منائیں۔ اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان کپتان کو شاید بلاول کی دعا مانگنے کی ہدایت پسند نہیں آئی اور دعا نہیں مانگی حالانکہ دعائیں رد بلا کے لیے ہوتی ہیں ہونی کو انہونی میں بدل دیتی ہیں اور مشکلات اور مصیبتوں کا رخ موڑ دیتی ہیں۔ قصہ مختصر کہ دعا نہیں کی گئی اور اب نون لیگ کے صدر شہباز شریف کا نام مجوزہ قومی حکومت کے وزیراعظم کے طور پر لیا جا رہا ہے
ستم یہ کہ اسی پریس کانفرنس میں بلاول بھٹو نے کہا کہ میں شہباز شریف سے کہوں گا کہ وزیرداخلہ کوئی اچھا بندہ رکھیں۔ یہ بات کرتے ہوئے ان کے چہرے پر ذومعنی مسکراہٹ تھی۔ اور اب جو تجاویز سن رہے ہیں اس کے مطابق ممکنہ وزیرداخلہ نون لیگ کے رانا ثنا اللہ کا نام آ رہا ہے۔ اب خود اندازہ کر سکتے ہیں کہ مبینہ منشیات کے جھوٹے کیس میں گرفتار ہونے والے رانا ثنا اللہ کی وزارت داخلہ کے ایام کپتان اور ان کی ٹٰیم کے لیے کتنے بھاری ہوسکتے ہیں۔ ایسے میں کم سے کم ہم دعا ہی کر سکتے ہیں کہ ملک میں انتقام کی سیاست کا دروازہ بند ہونا چاہیے تاہم اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ یہ دروازہ کپتان اور ان کی ٹٰم نے کھولا ہے اب اس کو بند کوئی اور کرے گا اگر کیا تو۔
رہی بات کہ کیا ہو رہا ہے تو عزیزو صورتحال یہ ہے کہ اس برے وقت سے بچنے کی حکومت ہر کوشش کر رہی ہے۔ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا کہ شاید کوئی راستہ مل جائے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ عدالت کے سوال کے جواب میں اٹارنی جنرل کو یقین دہانی کرنی پڑ گئی کہ کسی رکن اسمبلی کو ووٹ دینے سے نہیں روکا جاسکتا اور اسمبلی کے سامنے ہجوم بھی نہیں ہو گا اور عملی طور پر حکمران جماعت کے جلسہ کی درخواست ڈی چوک کی بجائے پریڈ گراؤنڈ کے لیے دے دی گئی۔ رہی بات کہ ایک شق کی تشریح کی تو اس کے لیے بھی 24 مارچ کو لارجر بینچ تشکیل دے دیا گیا ہے اور اس کی وضاحت بھی جلد ہو جائے گی۔
متحدہ اپوزیشن کا اعتماد بتا رہا ہے کہ معاملات ان کے ہاتھ میں ہیں جبکہ کپتان کی تقاریر اس بات کی غمازی کر رہی ہیں کہ معاملات ہاتھ سے نکل گئے ہیں۔ تاہم کپتان نے مقبول نعروں کا سہارا لے لیا ہے اور کم سے کم اپنی جماعت کے ورکرز کا حوصلہ بڑھا دیا ہے۔ اس سارے مرحلے میں کپتان کی کارکردگی کہیں پس پشت چلی گئی ہے اور بات اب مذہبی نعروں، انا اور خودداری پر آ گئی ہے۔ کپتان نے کہا تھا کہ وہ اقتدار سے باہر زیادہ خطرناک ہو گا تو کسی حد تک یہ بات درست لگ رہی ہے مگر پریشانی کی بات یہ ہے کہ کپتان کا خطرہ اپوزیشن کو نہیں ان کو ہو سکتا ہے جو کپتان کو اقتدار میں لائے تھے۔
کل اگر مقبولیت کے چکر میں اور خود کو مافوق الفطرت ثابت کرنے کے لیے کپتان نے بھرے مجمع میں وہ باتیں بھی کرنی شروع کر دیں جو راز رکھی جاتی ہیں جو سرگوشیوں میں کی جاتی ہیں تو پھر کیا ہو گا۔ اور کپتان سے کچھ بعید نہیں ہے کہ وہ ایسا کر بھی دے تو سوچیں کیا ہو گا یہ ایسے ہو گا کہ پرانے وقتوں کی محبتوں کی طرح خون سے لکھے گئے پریم پتر کو عطر میں ڈبو کر محبوب کی طرف بھیجا جائے اور وہ خط محبوب کے کسی خونخوار قسم کے رشتہ دار کے ہاتھ لگ جائے تو اس کے بعد کی صورتحال کا اندازہ کر سکتے ہیں کہ کیا ہوتی تھی اور اسی طرح اگر کپتان نے راز کی باتیں مجمع عام کر دیں تو سوچیں کیا ہو گا
ہونے کو تو بہت کچھ ہو سکتا ہے یہ ممکنات کی دنیا ہے یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کچھ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ اپوزیشن اپنی عدم اعتماد کی تحریک ہی واپس لے لے اور کپتان کو آسان رستہ دے کہ بقیہ ماندہ مدت میں جو کرنا ہے کرلو۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کپتان آخری گیند تک لڑنے کی نیت سے کمر کس لے مگر اس کی ساری وکٹیں ہی گر جائیں اب اکیلا کپتان کیسے کھیل سکتا ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آخری اوور کی ساری گیندیں ہوجائیں اور کپتان مطلوبہ سکور پورا نا کرسکے۔ جہاں تک سیاسی پنڈتوں کی رائے ہے وہ یہ ہے کہ اب گھر جانا نوشتہ دیوار ہے۔ اور شاید کپتان کو یہ بات معلوم ہو گئی ہے اس لیے اس کی حالیہ تقاریر پر اگر غور کیا جائے تو وہ کسی وزیراعظم کی نہیں اپوزیشن لیڈر کی تقاریر زیادہ لگ رہی ہیں
اس صورتحال میں بظاہر یہی لگ رہا ہے کہ اپوزیشن نے نئے سیٹ اپ کے لیے ہوم ورک پورا کیا ہوا ہے۔ اب یہ نیا سیٹ اپ کتنی مدت کے لیے ہو گا کیسے چلے گا اور کیا ڈلیور بھی کرسکے گا یا نہیں یہ تو آنے والے دنوں میں پتہ چلے گا کہ ملکی معیشت کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ تاہم اگر موجودہ اپوزیشن اگر برسراقتدار آ گئی اور ابتدائی دنوں میں الیکشن ریفارمز کی ترامیم ختم کر کے نئے انتخابات کی طرف جاتی ہے تو یہ اپوزیشن کے لیے زیادہ فائدہ مند ہو گا۔ کیونکہ اس مدت میں کپتان کی ٹٰیم میں ایک بھونچال آنا ہے اور کھلاڑیوں نے ضمیر کی آواز پر دیگر پارٹیوں کا رخ کرنا ہے اور کپتان ایک بار پھر 2013 سے پہلے کی پوزیشن پر چلا جائے گا۔
رہی بات کہ آئندہ عام انتخابات کا نتیجہ کیا ہو گا تو اس کا تجزیہ بہت آسان ہے اور وہ یہ کہ بظاہر نا تو کپتان کو خفیہ ہاتھ کی آشیر باد حاصل ہوگی اور نا ہی عوامی مقبولیت کا وہ گراف ہو گا جو 2018 میں تھا سندھ میں پی پی پی، پنجاب میں نون لیگ اور کے پی کے میں جے یو آئی، اے این پی، نون لیگ اور پی پی پی ٹف ٹائم دیں گی اور بلوچستان تو پہلے ہی ریاست کے ساتھ ہوتا ہے۔ لہذا مریم نواز شریف کے مطابق کپتان کے لیے دی گیم از اوور ناؤ اور ساتھ ہی اگلا الیکشن بھی ہاتھ سے گیا۔
————————-
مصنف سے رابطے کیلئے
رابطہ نمبر 03334429707
وٹس ایپ 03352644777
یہ بھی پڑھیے:
ڈانسنگ ایلیفینٹ ۔۔۔ ملک سراج احمد
وہ لڑکی لال قلندر تھی ۔۔۔ملک سراج احمد
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو ۔۔۔ ملک سراج احمد
بے نظیر بھٹو کی پکار: الوداع پاپا ۔۔۔ملک سراج احمد
عوام کے حق حاکمیت کی فیصلہ کن جنگ۔۔۔ ملک سراج احمد
حضرت خواجہ غلام فرید ؒ – پیلوں پکیاں نی وے، آ چنوں رل یار ۔۔۔ ملک سراج احمد
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر