دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ماہواری، بچہ دانی اور کالی شلوار||عبدالغفار قیصرانی

جہاں تک ماہواری، بچہ دانی اور کالی پیلی شلوار کا تعلق ہے تو ان چیزوں کے بارے میں مجھے خود بھی کچھ نہیں پتا۔ ٹھرکی قارئین سے مضمون پڑھوانے کا اس سے اچھا طریقہ اور کیا ہو سکتا تھا۔

عبدالغفار قیصرانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خوشامد ایک ایسی چابی ہے جس سے کامیابی کا تقریباً ہر دروازہ باآسانی کھولا جا سکتا ہے، سرکاری ملازمت ہو یا کارپوریٹ کلچر، سیاست کا پرخار میدان ہو یا سماجی زندگی کے نشیب و فراز، خوشامد آپ کی کامیابیوں کو ایک مختصر سے وقت میں کئی گنا بڑھا سکتی ہے۔ ہمارے وطن عزیز میں اس چابی کا استعمال تو تقریباً ٹھیک ہی ہو رہا ہے مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ باہر کے ملکوں میں آج تک اس چابی سے کماحقہ نفع نہیں اٹھایا جا سکا۔

اور تو اور مغربی دنیا کے کامیابی کے گر بتانے والے لکھاریوں نے بھی اس پر کوئی خاص توجہ نہیں دی، نتیجتاً وہ اس کے فوائد سے محروم ہی رہے۔ یہاں بھی لوگوں کی ایک بہت قلیل تعداد موجود ہے جو خوشامد کے بیش بہا فوائد سے آج تک روشناس نہیں ہو سکی۔ دراصل ایسے لوگ سطحی قسم کی جذباتیت کا شکار ہوتے ہیں اور انہیں آج تک اندازہ ہی نہیں ہو سکا کہ حضرت انسان کے لئے اس میں کتنے فوائد پوشیدہ ہیں۔ ایسے لوگوں کی ”کم عقلی“ کا ذمہ دار کافی حد تک اردو ادب کو بھی ٹھہرایا جا سکتا ہے کہ جس نے بچپن سے ہی طالب علموں کو ”لومڑی اور کوا“ اور ”مکڑا اور مکھی“ جیسی کہانیاں سنا کر ان کے ذہنوں کو ”پراگندہ“ کرنے کی کوشش کی اور یہ اخلاقی سبق دینے کی کوشش کی کہ خوشامد بری بلا ہے۔ اگر خدا لگتی کہی جائے تو اس ضمن میں ایک ”ضرب کاری“ علامہ اقبال نے فلسفہ خودی پیش کر کے بھی لگائی۔ وہ تو اللہ بھلا کرے ہمارے ایک ”دانشور“ کا کہ انہوں نے حال ہی میں اقبال کا سارا ”پول“ کھول کر نوجوانان قوم کو مزید ”تباہی“ سے بچا لیا۔

اردو ادب کا اگر تاریخی اعتبار سے تنقیدی جائزہ لیا جائے تو یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ خوشامد کے معاملہ میں اردو ادب دو واضح دبستانوں میں تقسیم نظر آتا ہے۔ پہلا دبستان وہ جو خوشامد کے فوائد سے پوری طرح آشنا نہیں اور نتیجتاً اس کی مخالفت میں کمر بستہ نظر آتا ہے، اور جس کا ذکر اوپر آ چکا ہے، اسے ادب میں ”دبستان منکرین خوشامد“ کے طور پر بھی پہچانا جاتا ہے، دوسرا دبستان وہ ہے جس نے خوشامد کے فوائد پر قلم اٹھایا، اسے ”دبستان مقلدین خوشامد“ کے طور پر جانا جاتا ہے۔

جہاں ”دبستان منکرین خوشامد“ نے خوشامد کا گلا گھوٹنے کی کوشش کی ہے وہاں آفرین ہے ”دبستان مقلدین خوشامد“ پر کہ انہوں نے اپنے تئیں اس فن کی خوب آبیاری کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ یہاں ہم اس دبستان کی تفصیل میں نہیں جائیں گے البتہ ہم اس دبستان کے ایک نمائندہ شعر کا صرف حوالہ دینے پر ہی اکتفا کریں گے۔

؂ سو کام نکلتے ہیں خوشامد سے جہاں میں دیکھو جسے دنیا میں خوشامد کا ہے بندہ

دونوں دبستانوں کے ماننے والے ہمیشہ سے ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار رہے اور اپنے اپنے دلائل کی روشنی میں ایک دوسرے کو چاروں شانے چت کرنے کی کوشش میں لگے رہے۔ اگر ان دونوں دبستانوں کے ماننے والوں کا تاریخی اعتبار سے فکری موازنہ کیا جائے تو یہ بات ضرور تسلیم کرنی پڑتی ہے کہ ”مقلدین خوشامد“ کا پلڑا ہمیشہ سے بہت بھاری رہا۔ یہ لوگ بدصورتی میں خوبصورتی، بدکلامی میں شیریں گفتاری، بے ادبی میں ادب اور نالائقی میں قابلیت اور لیاقت کے موتی ڈھونڈنے میں ید طولیٰ رکھتے ہیں۔

”مقلدین“ کے اس موقف میں بڑا وزن ہے کہ خوشامد پر خرچہ ہی کتنا آتا ہے؟ نہ کوئی investment، نہ کوئی خرچ، نہ ہینگ لگے نہ پھٹکڑی اور رنگ بھی چوکھا آئے، صرف دو چھٹانک کی زبان ہی تو ہلانی ہے۔ دوسری طرف ”منکرین خوشامد“ کا موقف ہے کہ اگرچہ اپنے ملک میں ہمارا پلڑا کمزور ہے مگر باہر کے ملکوں میں ہمارا فکری گروہ بہت طاقتور ہے۔ جواب میں ”مقلدین“ کا دعویٰ کہ وہاں بھی ہمارے نمائندہ تارکین وطن اس فن کی نشو و نما کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے ہیں۔

چونکہ فی زمانہ خوشامد کرنا اتنا آسان نہیں رہا بلکہ باقاعدہ ایک فن کی شکل اختیار کر گیا ہے اس لئے ہم اپنے تجربے کی روشنی میں خوشامد کے کچھ مجرب طریقے بیان کریں گے تاکہ مخلوق خدا (بطور خاص سرکاری ملازمین ) اپنی اپنی استطاعت اور ضرورت کے مطابق فائدہ اٹھا سکیں۔

1۔ جس طرح بھوکے اور پیاسے آدمی کو دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اسے کھانے اور پانی کی ضرورت ہے اسی طرح ایک اچھے ماتحت کو اپنے صاحب کے بارے میں ضرور علم ہونا چاہیے کہ اسے کب، کس وقت اور خوشامد کی کتنی dose کی ضرورت ہے تاکہ اسے حسب ضرورت دی جا سکے۔

2۔ اگر آپ کی میٹنگ میں بیٹھے ہیں اور آپ کا باس آپ سے کسی موضوع پر آپ کی رائے معلوم کرے تو اپنا موقف بیان کرنے میں جلدی مت کریں۔ اپنے ذہن پر زور دے کر سوچیں کہ اس موضوع پر آپ کے باس کی کیا رائے ہو سکتی ہے یا وہ کیا سننا چاہتے ہیں۔ رائے پر مطابقت کی صورت میں آپ کو کافی افاقہ ہو گا۔ خواہ مخواہ سقراط اور بقراط مت بنیں۔

3۔ کچھ لوگ بلا واسطہ خوشامد سننے کے عادی ہوتے ہیں مگر کچھ ”باکردار“ لوگ اس طرح کی بلاواسطہ خوشامد کو حرام سمجھتے ہیں۔ لہٰذا کوشش کریں کہ ایسے شخص کے سامنے بالواسطہ تعریف کریں۔ مثلاً بات ایسے شروع کریں کہ ”سر ویسے منہ پر تعریف کرنا اچھی بات تو نہیں ہوتی مگر سچ تو پھر سچ ہے کہ جناب کے آنے کے بعد دودھ اور شہد کی نہریں۔ وغیرہ وغیرہ اور مخلوق خدا جناب کو پلو اٹھا اٹھا کر دعائیں (بد دعائیں نہیں ) دے رہی ہے“ ، وغیرہ۔

4۔ کوئی بھی اچھا کام کریں تو اس کا کریڈٹ اپنے کھاتے میں مت ڈالیں۔ بلکہ ایسے کہیں کہ ”جناب کی ہدایات اور سپرویژن کی بدولت یہ کام ہوا ہے“

5۔ بالواسطہ خوشامد کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ پچھلے باس کے کام میں کیڑے نکالے جائیں، جیسے ”جناب رضوی صاحب ویسے تو بڑے اچھے افسر تھے مگر سر تھوڑا سا۔ ۔ ۔“ آگے فقرہ ادھورا بھی چھوڑ سکتے ہیں۔

6۔ بعض اوقات کوئی ایسا شخص بھی آپ کا باس ہو سکتا ہے جو خوشامد کو پسند نہ کرتا ہو اس کے لئے ضروری ہے کہ ایسے غیر محسوس طریقے سے خوشامد کریں کے ابتدائی طور پر اسے محسوس ہی نہ ہو۔ جیسے انسولین لگانے کے لئے بہت باریک سرنج کا استعمال کیا جاتا ہے ایسے آپ بھی بہت ہی باریک سرنج کے ذریعے اسے ڈوز دیں۔ جب ”لائن“ پر آ جائے تو پھر بے شک اسے ”جہاز“ بنائیں۔

7۔ بعض اوقات اپنی بیگم کی طرف سے بھی کوئی جملہ منسوب کر کے بات کر سکتے ہیں جیسے ”کل آپ کی بھابھی کہہ رہ تھیں کہ جب سے آپ کے نئے باس آئے ہیں ماشا ء اللہ آپ تو بہت محنتی ہو گئے ہیں۔“ وغیرہ وغیرہ۔

8۔ اگر ٹرانسفر ہونے پر آپ کو شک ہے کہ آپ کا باس دوبارہ کسی اچھی پوسٹنگ پر جا سکتا ہے تو اسے بھی نظر انداز مت کریں۔ مناسب وقت پر باقاعدگی سے اسے فون کریں اور آپ کچھ اس طرح کے جملے بول سکتے ہیں، ”بس سر نئے صاحب اچھے ہی ہیں پر جناب کے ہوتے ہوئے تو آپ کو پتہ ہے۔ ۔ ۔“ کیا پتہ ہے یہ فقرہ ادھورا چھوڑ دیں۔

9۔ اپنے باس کا شجرہ نسب اور ذات پات کی پوری جنتری آپ کے پاس ہونی چاہیے۔ صاحب کے خاندان (بیشک خاندان جدی پشتی گوشت کے کاروبار سے منسلک ہی کیوں نہ رہا ہو) کو باتوں باتوں میں آپ مارشل ریس بھی ثابت کر سکتے ہیں۔ بعض اوقات یہ طریقہ بہت کارگر ثابت ہو سکتا ہے۔

10۔ اگر بات بات پر صاحب کی زبان سے ٹرپل ایکس گالیوں کا فوارہ پھوٹتا ہو تو تب بھی کوشش کریں کہ کسی طریقے سے صاحب کے کلام میں خوش گفتاری کا پہلو نکالیں۔ اگر ممکن نہ ہو کم از کم اتنا کہہ دیں کہ ماشاء اللہ صاحب بہت ذہین اور تیز آدمی ہیں، فائدہ رہے گا۔ اسی طرح اگر صاحب پرلے درجے کا ”بے ادب“ ہو تو اسے بھی چالاکی، ہوشیاری یا تیزی کے کھاتے میں ڈال کر کچھ نہ کچھ ”ادب پرور“ کہا جاسکتا ہے۔

باقی جہاں تک ماہواری، بچہ دانی اور کالی پیلی شلوار کا تعلق ہے تو ان چیزوں کے بارے میں مجھے خود بھی کچھ نہیں پتا۔ ٹھرکی قارئین سے مضمون پڑھوانے کا اس سے اچھا طریقہ اور کیا ہو سکتا تھا۔

یہ بلاگ  ہم سب پر شائع ہوچکاہے

یہ بھی پڑھیے:

دے دھرنا۔۔۔عفت حسن رضوی

کامریڈ خدا حافظ۔۔۔عفت حسن رضوی

ابا جان کی نصیحت لے ڈوبی۔۔۔عفت حسن رضوی

ہزارہ: میں اسی قبیلے کا آدمی ہوں۔۔۔عفت حسن رضوی

خاں صاحب! آپ کو گمراہ کیا جارہا ہے۔۔۔عفت حسن رضوی

فحاشی (وہ مضمون جسے کئی بار لکھا اور مٹایا گیا)۔۔۔عفت حسن رضوی

عفت حسن رضوی کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author