نومبر 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

جشن ِنوروز کو نظر لگ گئی||رضاعلی عابدی

ٹھیک ہے۔ ہم بھی آنکھیں موند لیتے ہیں اور آنکھوں میں تیرنے والے مناظر کو اپنے بس میں کرلیتے ہیں۔ ہمار ی آنکھیں، ہماری مرضی۔ ہم اپنی پسند کے منظر نکالیں گے اور اپنے موسم کے مزاج کے نظاروں کو باہر لائیں گے۔ہم خاک ڈالیں گے اس جنگی دیوانگی پر اور خود پر اپنی مرضی کی دیوانگی طاری کریں گے۔ہم یہ شعر پڑھیں گے:

رضاعلی عابدی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ مارچ کا مہینہ ہے، مہینے کا تیسرا ہفتہ قریب ہے۔ یہی تو دنیا میں پھول کھلنے کے دن ہیں، یہی تو موسم گل کی آمد آمد ہے، یہی دن تو ہیں جب فضائیں مہکیں گی، یہ تو برس کے وہ دن ہیں جب برہنہ درخت ترو تازہ سبز اوڑھنی اوڑھیں گے اور جب ہوا کی رنگت میں گلوں کا رنگ گھلے گا اور جب پودوں پر پتوں سے پہلے پھولوں کے خوشے یوں جھولیں گے کہ شاخیں جھک جھک جائیں گی۔ وہ صبحیں نمودار ہونے کو ہیں جب پرندے اپنے رنگا رنگ پہناوے پر نرالے رنگوں کے چھینٹے دے کراپنے سریلے نغمے چھیڑیں گے اور لوگ ایک دوسر ے کو گلے لگا کر کہیں گے کہ موسم گل مبارک ہو، نوروز مبارک ہو۔

مگر دنیا کے اسٹیج پر جو ڈرامے کھیلے جارہے ہیں وہ تو موسم گل کامنہ چڑارہے ہیں۔ دنیا کے تھیٹر میں بارود کا دھواں بھرا ہے اور گوشت کے جلنے کی بو آرہی ہے۔یہ کیسا موسم گل ہے کہ ٹینکوں کی گڑگڑاہٹ، ڈرون طیارں کا سروں پر منڈلانا اور دور مار میزائلوں کا ٹھیک ٹھیک نشانوں پر بیٹھناصبح و شام کا معمول بن کر رہ گیا ہے۔

ٹھیک ہے۔ ہم بھی آنکھیں موند لیتے ہیں اور آنکھوں میں تیرنے والے مناظر کو اپنے بس میں کرلیتے ہیں۔ ہمار ی آنکھیں، ہماری مرضی۔ ہم اپنی پسند کے منظر نکالیں گے اور اپنے موسم کے مزاج کے نظاروں کو باہر لائیں گے۔ہم خاک ڈالیں گے اس جنگی دیوانگی پر اور خود پر اپنی مرضی کی دیوانگی طاری کریں گے۔ہم یہ شعر پڑھیں گے:

قیس کا نام نہ لو، ذکر جنوں جانے دو

دیکھ لینا مجھے تم موسم گُل آنے دو

یہ سنہ ساٹھ کے اوائل کی بات ہے، ہم اخبار جنگ نکالنے کراچی چھوڑ کر راولپنڈی گئے تھے۔ ہمیں بھیجا نہیں گیا تھا، خود اصراکرکے گئے تھے۔ میر صاحب نے پوچھا کہ وہا ں کیوں جانا چاہتے ہو؟ ہم نے کہا ہمیں پہاڑ اچھے لگتے ہیں۔گھر سے دور جاکر وہاں کے نظاروں میں یوں کھوگئے کہ گھر کی یاد نے ستانا مناسب نہ جانا۔ابھی اسلام آباد کاغذوں اور نقشوں میں مقید تھا۔شہر راولپنڈی میں رونق بڑھتی جارہی تھی اور سفارت خانے اور سفارت کار مصروف نظر آنے لگے۔ ان ہی دنوں یہ ہوا کہ فضا کی رنگت بدلی اور موسم گل آن پہنچا۔ ہمیں یک لخت گھر یاد آیاجہاں ہم نے کتنی ہی بار نوروز منایا تھا اور جھوم کر سرشار ہوکر منایا تھا۔یوں محسوس ہوا کہ گھر چھوڑنے کا پہلا خسارہ یہ ہوا کہ ہم نوروز نہ منا سکیں گے کہ اچانک اشاعت کے لیے ایک خبر آئی۔ سفارت خانہ ایرن اور شہر میں مقیم ایرانی باشندے فلاں دن شہر میں نوروز منائیں گے۔خبریں توہم ہر طرح کی چھاپتے تھے مگر اس روز یہ خبر جھوم کر چھاپی وقت مقررہ پر ہم بن سنور کر جا پہنچے اور پہلی بار ا ہل ایران کے ساتھ مل کر جشن موسم گل منایا۔ جلسہ گاہ کی راہ داری میں داخل ہوئے تو دورویہ جوان، خوب رو، خوش لباس، خوش وضع لڑکیاںہاتھوں میں قابیں لیے کھڑی تھیں جن میں عرق گلاب بھر ا تھااور گلاب تیر رہے تھے۔لڑکیاں پھولوں کو جھٹک کر مہمانوں پر عرق گلاب چھڑک رہی تھیں۔پھر بہار کے نغمے گائے گئے، ساز بجے اور ترانے چھیڑے گئے۔ مجھے یاد ہے وہی لڑکیاں ایک ایک کا نام لے کر پکاری گئیں۔ ہر لڑکی کے نام سے پہلے دوشیزہ کہا جاتا تھا۔پہلی بار سُنا۔اچھا لگا۔ مگر اُس روز یہ احساس شدت سے ہوا کہ ہمارے گھر میں نوروز کہیں زیادہ بڑھ چڑھ کر منایا جاتا تھا۔

اب اُس کا احول سنئے کہ سارے جشن کا آغاز امامیہ جنتری سے ہوتا تھا۔اس میں ستاروں اور سیاروں کی حرکت سے اور آپ کے شہر کے طول البلد اور عرض البلد کے حساب سے نوروز کی ساعت طے ہوتی تھی۔ اور پھر یہ کہ حضرت نوروز کس شان اور کس ادا کے ساتھ وارد ہوںگے۔دن، تاریخ اورسیکنڈ کے حساب سے شبھ گھڑی درج ہوتی تھی۔ نوروز کی سواری کیا ہوگی۔ اگر بڑا، زہریلا یا خطر ناک جانور ہے تو سال اچھا نہ ہوگا۔پھر یہ کہ اس کا رنگ کیا ہوگا۔ مثال کے طور پر اگر رنگ زرد ہے تو دسترخوان پر زرد رنگ کے سات پکوان سجانے ہوںگے۔ اور لڑکیاں وہی رنگ پہنیں گی۔ ایک قاب میں ستّو بھر کر دستر خوان کے درمیان رکھا جاتا تھا اور ستّو کی سطح کو بالکل سپاٹ کر دیا جاتا تھا۔ اس کا سبب آگے چل کر۔ اسی طرح چینی کی طشت پر زعفران کی روشنائی سے کچھ آیات لکھی جاتی تھیں۔ پھر اسی طشت میں عرق گلاب بھر کر وہ آیات اس میں گھول دی جاتی تھیں اور طشت کو دسترخوان کے بیچوں بیچ آراستہ کرکے عرق گلاب کی سطح پر گلاب تیرا دیا جاتا تھا۔ پھر کچھ دعائیں پڑھ کر دستر خوان پر چنی ہوئی اشیاء امام کی نذر کرکے کمرہ اس طرح بند کردیا جاتا تھا کہ کوئی جاندار اندر نہ آنے پائے اور کمرے میں ہوا کے ہلکے سے جھونکے کا بھی گزر نہ ہو۔اس کے بعد سب لوگ کمرے سے باہر جمع ہوکر نوروز کی ساعت کا انتظار کرتے۔ بعد میں کمرہ کھولا جاتاتو کیا دیکھتے کہ عرق گلاب پر تیرتا ہوا پھول حرکت کرکے ذرا سا سرک چکا ہے اور ستّو کی سطح پر انگلی کا نشان بنا ہوا ہے۔ ان دونوں باتوں کا مطلب یہ تھا کہ امام نے نذ رقبول کی اور تشریف لاکر اپنے آنے کی نشانی چھوڑ گئے ہیں۔ آخر میں وہی عرق گلاب گھر کے ہر کونے میں چھڑکا جاتا تھا جو برکت کا باعث ہوتا تھا۔ لکھنؤ اور دوسرے مقامات پر اس روز لوگ رنگ کھیلتے تھے اور بڑی شان سے جشن نوروز منایا جاتا تھا۔

اس موقع پر آتش بازی بھی چلتی ہوگی۔ وقت بدل گیا ہے۔ اب توپوں کے گولے چلتے ہیں۔

بشکریہ جنگ

مولانا مجھے نہ کہا جائے۔۔۔رضاعلی عابدی

کچھ لوگ ٹیکہ لگائیں گے۔۔۔رضاعلی عابدی

جمہوریت کا تجربہ بھی ناکام ہو رہا ہے؟۔۔۔رضاعلی عابدی

رضا علی عابدی کی دیگر تحریریں پڑھیے

About The Author