تحریک انصاف کے کارکنوں کا سندھ ہائوس پر احتجاج اور ہلہ بولنا غیر قانونی ہونے کے ساتھ ساتھ غیر اخلاقی بھی ہے، پیپلز پارٹی نے الزام لگایا ہے کہ کارکنوں کے ساتھ اسلام آباد پولیس بھی ملی ہوئی تھی، اگر سندھ پولیس نہ ہوتی تو ارکان اسمبلی کی جانوں کو نقصان ہو سکتا تھا، اقتدار آنی جانی چیز ہے۔
سیاسی جماعتوں کے درمیان نفرتیں پیدا نہیں ہونی چاہئیں ، فاصلوں کو کم کرنے کی ضرورت ہے ، بر سراقتدار جماعت کو زیادہ تحمل اور بردباری کی ضرورت ہے ۔ گزشتہ شب ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں وزیر اعظم کے مشیر شہباز گل نے اقلیتی رکن اسمبلی راجیش کمار کو جس طرح مخاطب کیا وہ کسی بھی لحاظ سے درست نہیں، مشیر کو معلوم ہونا چاہئے کہ ان کی گفتگو نے ملک کے کروڑوں عوام کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہے ،انہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ اقلیتی رکن کو غیر اخلاقی اور غیر مہذب گفتگو کا اثر ہمسایہ ملک میں بھی محسوس کیا جاتا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ تحریک انصاف اب بھی کنٹینر پر ہے اور وہ اُسی طرح کا لب و لہجہ اختیار کر رہی ہے جیسے اپوزیشن کا ہوتا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ضمیر فروش منحرف ارکان کے ہاتھوں بلیک میل نہیں ہوں گا، اپوزیشن جتنا چاہے پیسہ لگا لے ،مائنس ون نہیں ہو سکتا، دوسری طرف مسلم لیگ ن کے خواجہ سعد رفیق نے منحرف ارکان کو ہیرو قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے نام سنہری حروف میں لکھے جائیں گے ۔
دیکھا جائے تو دونوں باتیں درست نہیں ، گزشتہ دور میں ارکان اسمبلی نواز شریف سے منحرف ہوئے تو ان کو خواجہ سعد رفیق اور دیگر لوگوں نے غدار قرار دیا تھا، اسی طرح وزیر اعظم نے ضمیر فروش کا لفظ استعمال کیا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ عمران خان کی حکومت سازی کیلئے جہانگیر ترین کا جہاز استعمال ہوا اور اِدھر اُدھر سے ارکان اسمبلی اکٹھے کر کے حکومت بنوائی گئی۔ اس کلچر کی حوصلہ شکنی ہونی چاہئے کہ اگر وہی کام جو عمران خان کی حکومت گرانے کیلئے ہو رہا ہے اگر حکومت بنانے کیلئے ہو تو جائز اور گرانے کیلئے ہو تو ناجائز کیسے ہو سکتا۔
حکومت نے منحرف ارکان کے خلاف سپریم کورٹ جانے کا اعلان کیا ہے جو کہ درست فیصلہ ہے وہاں وفاداری تبدیل کرنے، اعتماد توڑنے بارے آئین کی آرٹیکل 63 اے کے بارے میں سوالات کی وضاحت پوچھی جائے گی، لیکن سوال یہ ہے کہ یہی وضاحت حکومت کیلئے بھی وبال جان بن سکتی ہے کہ پنجاب میں (ن) لیگ کا ایک ووٹ تحریک انصاف سے زیادہ تھا، اِدھر اُدھر کے ووٹوں سے حکومت بنائی گئی تھی۔ عمران خان نے کہا تھا کہ میں کپتان ہوں ، مجھے پتہ ہے کہ ٹیم کیسے بنائی جاتی ہے، مگر افسوس کہ عمران خان ٹیم نہیں بنا سکے، شاید انہیں حکومت اورکرکٹ کے میدان کا فرق معلوم نہیں تھا ، پہلے دن سے تحریک انصاف کیلئے قربانیاں دینے والوں کو پیچھے دھکیلا گیا اور اہم عہدوں پر اِدھر اُدھر کے غیر منتخب لوگ لائے گئے۔
پارٹی کیلئے قربانیاں دینے والے منتخب ارکان اسمبلی کو دوسرے درجے پر بٹھا دیا گیا۔ ملاقات کیلئے وقت نہ دیا گیا، وزیر اعظم نے ان سے کبھی محبت کے دو بول بولنا بھی گوارا نہ کئے۔ خود اعتمادی اور خود پسندی ایک حد تک ہو تو کوئی حرج نہیں مگر ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی اور خود پسندی لا علاج بیماری کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔دنیا کے فاتحین وہ مقام حاصل نہیں کر سکے جو دل کی دنیا فتح کرنے والوں نے حاصل کیا، سرائیکی وسیب کے چند ایک منحرفین سے میں نے بات کی تو انہوں نے کہا کہ ہم جس امید پر تحریک انصاف کا حصہ بنے تھے نہ صرف یہ کہ وہ امید بر نہیں آئی بلکہ کام اُلٹ ہو گیا، صوبہ تو کیا ہم اپنے حلقے کے لوگوں کے چھوٹے موٹے کام بھی نہیں کرا سکے۔تحریک انصاف کے اپنے ارکان کو اپنا بنانے کی بجائے ان پر الزامات کی بوچھاڑ کی جارہی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ کروڑوں روپے کے عوض ارکان اسمبلی نے اپنے ضمیر کا سودا کیا ، الزامات درست ہو سکتے ہیں مگر جلتی پر تیل کا کام کر رہے ہیں۔
تحریک انصاف کے ناراض ارکان میں ڈاکٹر افضل ڈھانڈلہ جیسے لوگ بھی شامل ہیں۔ ڈاکٹر افضل ڈھانڈلہ آزاد حیثیت سے کامیاب ہوئے اور رضا کارانہ طور پر تحریک انصاف کا حصہ بنے ۔ ڈاکٹر افضل ڈھانڈلہ کا تعلق وسیب کے ضلع بھکر سے ہے اور انہوں نے اپنی پارلیمانی قابلیت اور ذاتی شرافت سے ایوان کے وقار میں اضافہ کیا ، ایوان میں سرائیکی اشعار کے ساتھ ساتھ سرائیکی صوبے کی یاد دہانی کراتے رہے، وسیب کی محرومیوں کا ذکر کرتے رہے اور جب سول سیکرٹریٹ کا لولی پاپ دیا گیا اور اس سول سیکرٹریٹ میں بھکر کو شامل نہ کیا گیا تو ڈاکٹر افضل ڈھانڈلہ نے کہا کہ یہ تو میرے مینڈیٹ کی توہین ہے ۔ میں تو ہر سال تھل میں سرائیکی مشاعرہ کراتا ہوں، میں نے تو انتخابی مہم کے دوران ہر جگہ صوبے کی بات کی اور تحریک انصاف میں شمولیت بھی اس بناء پر کی کہ تحریک انصاف نے اپنے منشور میں صوبے کا وعدہ کیا۔ ڈاکٹر افضل ڈھانڈلہ کہتے ہیں کہ وسیب سے حکومت کی بے اعتنائی پر ہم اپنے حلقے کے لوگوں سے شرمندہ ہیں۔
حکومتی کیمپ سے منحرفین پر الزام لگانے والوں کو اپنے گریبانوں میں بھی جھانکنا چاہئے کہ انہوں نے کیا کیا۔ یہ حقیقت ہے کہ عمران خان نے امریکہ کی بات نہیں مانی۔ شروع میں عمران خان امریکی راستے پر تھے ،چین سے دوستی کا ہاتھ کھینچا ہوا تھا مگر جلد ہی ان کو احساس ہو گیا کہ چین کی دوستی کے بدلے میں امریکہ کی دوستی سود مند نہیںہے، اب کہا جا رہا ہے کہ حکومت گرانے میں امریکی ڈالر کا بھی ہاتھ ہے۔ عمران خان کے ناقدین کہتے ہیں کہ وہ بھٹو بننے کی کوشش کر رہے ہیں۔
سینئر صحافی و تجزیہ نگار ارشاد احمد عارف کا گزشتہ سال 22جون 2021ء کو کالم شائع ہوا تھا جس میں انہوں نے امریکہ کی بے جا فرمائشوں کا ذکر کیا تھا اور بجا طور پر یہ کہا تھا کہ امریکہ سے وزیر اعظم عمران خان کو سیاسی طور پر تنہا لڑنے کی بجائے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانا چاہئے اور تمام صورتحال سامنے رکھ کر مشترکہ فیصلے کرنے چاہئیں۔ ضیاء الحق اور مشرف نے امریکی حمایت کے تنہا فیصلے کئے جس سے پاکستان کا بہت نقصان ہوا ۔ وقت اور حالات کا تقاضا ہے کہ تدبر سے فیصلے کئے جائیں ۔ عدم اعتماد کی تحریک کا جمہوری طور پر مقابلہ کیا جائے ، پاکستان کی قسمت کو کسی غیر ملکی قوتوں نے درست نہیں کرنا بلکہ مدبرانہ فیصلے ہی پاکستان کی بہتری کی ضمانت ہو سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:
ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ
سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ
ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ
میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر