دسمبر 23, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

‎پدرسری نظام کا عورت مارچ کو سلیوٹ؛ پانچ گولیاں!||ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

”اس وقت تم خود کو کوستے، اس وقت کو یاد کرتے جب لوگ انہیں پیدا ہوتے ہی زمیں میں دفن کیا کرتے تھے۔ فائدہ کیا ہوا اس رسم کو ختم کرنے کا؟ برسہا برس کے لیے مفت کا بوجھ، باپ بھائی کے لئے شرمندگی کا سامان!“

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بابا پدرسری تخت پہ براجمان ہے اس کی گدلی آنکھوں میں وحشت ناچ رہی ہے۔ باچھیں کھلاتا ہوا، مونچھوں پہ تاؤ دے کر وہ اپنی کھرکھراتی آواز میں کہتا ہے،
”خوب، بہت خوب، لڑکے تیری ہمت و جرات پسند آئی“

”جی بابا، بس آپ کا سر پہ ہاتھ چاہیے“ ، سامنے کھڑا مرد منمناتی آواز میں کہتا ہے۔
”لے بچہ، میری شاباشی! تجھ جیسے نڈر ہی تو ہمارا مان ہیں۔ تم نے اپنی بیٹی کو پانچ گولیاں مار کے ان عورتوں کو مزا چکھایا ہے جو عورت کی آزادی کے بہانے نعرے لگاتی سڑکوں پر آوارہ پھرتی ہیں۔ تو جانتا نہیں میں کس قدر خوش ہوں۔ تم نے مجھ بوڑھے کو زندگی دی ہے۔ لیکن میرے ساتھ ساتھ، تمہارا مقام بھی بلند ہو گیا ہے۔ اب نہ صرف تم ہیرو ہو بلکہ اس بہادری کا پھل بھی تم ہی کھاؤ گے“

”بابا جی وہ کیسے؟“

”سوچو، اس بچی کو پالنے پوسنے میں کتنا پیسہ خرچ ہوتا۔ پڑھنے لکھنے کو تو مارو گولی لیکن پیٹ میں روٹی بھی ڈالنی پڑتی اور جسم کو ڈھانکنا بھی پڑتا۔ کم از کم پندرہ برس تمہیں یہ کشٹ کاٹنا پڑتا، پھر کہیں تم اس بوجھ سے چھٹکارا حاصل کرتے“

”جی بابا، ٹھیک کہتے ہیں آپ“

”اور یہ بھی کہ کتنا وقت ضائع ہوتا تمہارا اس کی نگرانی میں۔ کچھ الگ قسم کی فکریں کرنی پڑتیں، آنکھ رکھنی پڑتی اس کے لباس پہ، اس کی حرکات پہ، اس کی بات چیت پہ۔ چھت پہ تو نہیں جاتی، دروازے پر تو نہیں کھڑی ہوتی، فون تو نہیں استعمال کرتی، کتاب رسالے تو منہ کو نہیں لگا رکھے، فضول قسم کی سہلیاں تو نہیں بنا رکھیں۔ ہنسی ٹھٹھے کی شوقین تو نہیں۔

اندازہ کرو کیسا بوجھ محسوس کرتا تمہارا دماغ؟ ہر وقت کی فکر اور ہر وقت کی چوکیداری ”
”جی بالکل“

”پھر سوچو اگر منحوس ماری کسی لڑکے کو پسند کر بیٹھتی تو تمہاری غیرت کو کیسی ٹھیس پہنچتی؟ اب یہ کام کوئی لڑکا کرے تو بات سمجھ میں آتی ہے لیکن گھر کی لڑکی۔ توبہ توبہ! تصور کرو اگر کسی کے بہکاوے میں گھر سے نکل جاتی تو کس قدر بے عزتی ہوتی تمہاری، کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہتے۔ خاندان اور معاشرہ تمہارا جینا حرام کر دیتا۔ تب بھی تو تم اسے گولی ہی مارنا چاہتے نا۔ تو جان لو کہ یہ وہی گولی ہے بس درمیان کے پندرہ برس، سمجھو، آئے ہی نہیں۔ چلو فرض کر لیتے ہیں کہ وہ یہ سب کچھ نہ کرتی، اچھی لڑکی بن کر رہتی پھر بھی تمہاری جان عذاب میں تو رہتی۔ کبھی وہ تمہارے سامنے سکول جانے کے لئے گڑگڑاتی، کبھی تمہیں اپنی خواہشوں کے متعلق بتاتی، کبھی اپنے خواب سنانا چاہتی۔ سوچو کس مشکل میں پھنسے ہوتے تم۔“

”پھر تم اس کی ذمہ داری سے فارغ ہونے کا ارادہ کرتے ہوئے اس کا رشتہ ڈھونڈتے۔ نہ جانے کتنے لوگوں کے سامنے تمہیں لجاجت سے بات کرنی پڑتی، کتنوں کے سامنے اپنی مونچھ نیچی کرنی پڑتی، کئی کی ناروا فرمائشوں پر خاموش رہنا پڑتا، جہیز کا انتظام کرنا پڑتا۔ لڑکے کے نخرے برداشت کرنے پڑتے۔ کس لئے؟ کہ تم اپنا بوجھ کسی اور کے کندھوں پر منتقل کر سکو۔“

”بات اس پر ہی ختم نہ ہوتی۔ شادی کے بعد سسرال والوں کے نہ جانے کتنے مطالبے تمہیں پورے کرنے پڑتے۔ جب بھی وہ تمہاری بیٹی کو پیٹتے، وہ نیل و نیل جسم کے ساتھ واپس آتی اور تم اپنا سر پیٹ لیتے۔ تم اسے کہتے، اب جو بھی ہو، ڈولی میں ڈال کر بھیجا تھا اب ڈولے میں ہی نکلنا۔ دل ہی دل میں تم سوچتے کہ یہ کس عذاب میں گرفتار ہو؟ بیٹی نامی عذاب۔“

”پھر یہ بھی تو ہو سکتا تھا کہ جب شوہر کا دل بھر جاتا وہ تین لفظ کہہ کر اپنے گھر سے نکال دیتا اور وہ پھر سے تمہارے دروازے پہ آ موجود ہوتی۔ اکیلی نہیں بلکہ تین چار بچوں کے ساتھ۔ سر پیٹ لیتے نا تم اپنا کہ جس بوجھ سے بمشکل فراغت حاصل کی وہ کئی گنا زیادہ ہو کر پھر سے سر پہ سوار۔“

”اس وقت تم خود کو کوستے، اس وقت کو یاد کرتے جب لوگ انہیں پیدا ہوتے ہی زمیں میں دفن کیا کرتے تھے۔ فائدہ کیا ہوا اس رسم کو ختم کرنے کا؟ برسہا برس کے لیے مفت کا بوجھ، باپ بھائی کے لئے شرمندگی کا سامان!“

”ممکن تھا کہ وہ تنگ آ کر خود ہی اپنی جان لینا چاہتی۔ تم جانتے ہو نا کتنی عورتیں خود کشی کرنا چاہتی ہیں اور کرتی بھی ہیں۔ زندگی زیادہ تر کے لئے ایک عذاب مسلسل ہے، رویوں کے کوڑے دن رات اپنے جسم پر کھانا آسان کام نہیں ہے۔“

”سو میرے بچے! تم نے بہت اچھا کام کیا۔ اپنی بیٹی کی بہتری کا سوچ کر اسے زندگی کے بوجھ سے آزاد کر دیا۔ باقی دنیا اپنی بیٹیوں کو صبر کی تلقین کرتے ہوئے اچھی عورت بننے کا سبق پڑھاتے ہوئے قطرہ قطرہ زہر پلاتی ہے۔ تم نے نہ اپنے صبر کا امتحان لیا اور نہ بیٹی کا، اسے آزمائشوں سے بچا لیا اور خود کو اس اذیت سے جو برسوں اس کے ذریعے تمہیں ملتی۔“

”دیکھا جائے تو تم نے اپنی سات دن کی بیٹی پر احسان کیا ہے میرے بچے! روتی سسکتی، پٹتی، ککھ سے بھی ہلکی زندگی گزارتی، ہر قدم پر موت کی تمنا کرتی، نے کیا کرنا تھا اس دنیا میں رہ کر؟ وہ سب جو آج تمہیں برا بھلا کہہ رہے ہیں، وہ یہی کچھ تو کرتے ہیں اپنی بیٹیوں کے ساتھ! فرق اتنا ہے کہ زندگی کی ڈور نہیں ٹوٹنے دیتے ورنہ کون سی گولی ہے جو وہ ان کے جسم میں نہیں اتارتے۔

”بوجھ سمجھنے کی گولی
صنفی تفریق کی گولی
سکول نہ بھیجنے کی گولی
کام نہ کرنے کی گولی
مرضی کی شادی سے انکار کی گولی
ڈولی کے بعد ڈولا، کی گولی! ”

یہ بھی پڑھیے

ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے

About The Author