عاصمہ شیرازی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا وہ لمحہ آ رہا ہے جہاں سیاست دان ایک بار پھر اسٹیبلشمنٹ کو این آر او دے رہے ہیں؟ کیا ایک بار پھر تبدیلی اشاروں پر ہے؟ کیا گھوم پھر کر سیاست پھر وہیں اُسی دائرے میں داخل ہو گئی ہے جہاں 70 سال سے بار بار آتی ہے؟ یہ وہ سوال ہیں جن کے گرد کم از کم گذشتہ چار ماہ سے بحث و تمحیص کا سلسلہ چل رہا ہے۔
کیا بدلا ہے اور کیا بدلنے جا رہا ہے؟ سیاسی قوتیں ایک قدم آگے بڑھی ہیں یا طاقتور حلقے دو قدم پیچھے ہٹے ہیں؟ گذشتہ چار سال میں کیا ہوا پہلے اس پر نظر دوڑائیں۔
تبدیلی کے لیے جس طرح ہواؤں کے رُخ موڑنے کی کوشش کی گئی، تاثر کے اس دور میں میڈیا کے ہتھیار کو یکطرفہ محاذ پر استعمال کیا گیا، ایک صفحے کی طاقت کا بھرپور اظہار اور ہائبرڈ دور کے مخصوص زاویے سے بیانیے کی جنگ کو آزمایا گیا، خارجہ تعلقات، معاشی پالیسیوں اور اندرونی محاذ پر ہم خیال لائحہ عمل نے ملک کو جس کیفیت سے دوچار کیا اُس کا شاخسانہ اب عیاں ہے۔
بہر حال ساڑھے تین سال بعد پھر تبدیلی کے ناگزیر ہونے کا خیال، سیاسی قوتوں کی جمع تفریق کے مطابق وقت سے کہیں پہلے تھا۔ پالنے میں بچے کے مستقبل کا حال بتا دینے والے سیاسی جوتشی سمجھ رہے تھے کہ غیر فطری نظام فطری طور پر گِر سکتا ہے۔
یہ باگ ڈور مزید دلچسپ ہو گئی جب پی ڈی ایم تشکیل پائی اور پھر ٹوٹ گئی۔ بنتے بگڑتے اتحادوں اور نظریاتی کشمکش رکھنے والی جماعتوں کو اس دوران صرف اس نقطے کی سمجھ آئی کہ ’اب نہیں تو کبھی نہیں۔‘
اپوزیشن جماعتیں جو کبھی کندھوں اور سہاروں کی تلاش میں تھیں پہلی بار کندھوں اور سہاروں کو ہٹ جانے کا مشورہ دینے لگیں، بات کندھے کی جانب اشاروں سے نکل کر خلائی مخلوق اور پھر واضح اسٹیبلشمنٹ کے لیے کُھلے لفظوں ہونے لگی۔
ناکامی، ناکامی کی صداؤں میں تبدیلی لانے والوں کو اپنی فکر ہوئی کہ عوامی غیض و غضب کا نشانہ کہیں وہ نہ بن جائیں، سو پہلے ’دوری‘ اور پھر ’انگیجمنٹ‘ کا فارمولا اپنایا گیا۔
وقت کے پہیے نے اُلٹا چلنا شروع کیا اور اسٹیبلشمنٹ نے راستے ہموار کیے، عدلیہ نے آنکھیں بچھائیں، میڈیا نے ’مثبت‘ رویہ دکھایا مگر بدقسمتی کہیے یا خوش قسمتی کہ کوئی طریقہ کارگر نہ ہوا۔
بلآخر بات اداروں تک آ پہنچی اور گھر کو گھر کے ہی چراغ کی آگ سے بچانے کے لیے دروازے دیگر سٹیک ہولڈرز کے لیے کھولے جانے لگے۔ پہلی بار طاقتور قوتیں مستقبل میں ادارے کے بہترین مفاد میں ایک قدم پیچھے ہٹتی دکھائی دیں۔
سیاسی طاقتوں کی یہ کامیابی ضرور ہے کہ الگ الگ پلیٹ فارم پر ہونے کے باوجود یکسوئی سے اداروں کے غیر سیاسی کردار پر مسلسل زور دیتی رہیں۔ اپوزیشن کی حکومت برطرف کرنے کی کوشش کامیاب ہو یا نہ ہو مگر حزب اختلاف عوام اور خواص کو ’غلطی‘ کی نشاندہی کرانے میں قدرے کامیاب رہی ہے۔
اب بھی عدم اعتماد کی کامیابی اور ناکامی دونوں صورتوں میں اپوزیشن کو ایک معاشی اور سیاسی ایجنڈے پر یکجا ہونا ہو گا۔ ماضی کی غلطیوں سے سیاسی جماعتوں نے کیا سیکھا ہے اس کے امتحان کا مرحلہ کپتان کے بعد کے ماحول میں ہی دیکھنے کو ملے گا۔
آصف زرداری نے حکومت اپنے ہی بوجھ پر گرنے کی پیشن گوئی اُنھی دنوں کر دی تھی جب وہ احتساب عدالتوں کے چکر لگا رہے تھے۔ حالات یہ ہیں کہ حکومتی بینچوں پر باقی رہ جانے والے بھی نئی راہوں کی تلاش میں ہیں۔
ندیم افضل چن کی پیپلز پارٹی میں واپسی بھی نظریاتی سیاست کی بہرحال جیت ہے۔ اُدھر طاقتور حلقوں کی ’میانہ روی‘ کا پیغام عام ہوا اِدھر پرندوں نے اپنے گھروں کی راہ لی۔ دباؤ اور خوف سے نجات پانے والے اب ساڑھے تین سال کا حساب چُکانا چاہتے ہیں اور نئے انتخابات کی جوڑ توڑ کے مواقع ڈھونڈ رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
ترین گروپ میں علیم خان کی شمولیت محض آخری نہیں، پنجاب ہو یا وفاق حکومت کو عدم اعتماد کی نہیں بلکہ اعتماد کے ووٹ کی بھی ضرورت پیش آ سکتی ہے۔ پنجاب میں بھی بلوچستان فارمولا یعنی تحریک انصاف کے اندر سے تبدیلی کے امکانات سامنے آ رہے ہیں۔
پیپلز پارٹی کا لانگ مارچ دباؤ ڈالنے میں کامیاب ہوا ہے اور شاید پی ڈی ایم کے لانگ مارچ کی نوبت ہی نہ آئے مگر میلسی میں ’خطرناک‘ ہوئے وزیراعظم اب ردعمل کیا دیں گے؟ کیا کارڈ استعمال کریں گے؟ حالات اس سے زیادہ اور آگے کی پیشن گوئی نہیں کر سکتے۔
یہ بھی پڑھیے:
جناب! عوام کو ہلکا نہ لیں۔۔۔عاصمہ شیرازی
’لگے رہو مُنا بھائی‘۔۔۔عاصمہ شیرازی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر