ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وسیب میں 6 مارچ کو سرائیکی اجرک ڈے منایا جاتا ہے، سرائیکی اجرک کی تاریخ بارے بتاتا چلوں کہ سرائیکی اجرک کا خیال مجھے ایک مدت سے تھا۔ میں نے فریدی رومال کو عام کرنے کے ساتھ اس کو اجرک میں تبدیل کرنے کی بھی کوشش کی ۔ اس سلسلے میں میں کراچی گیا۔ کپڑے کی بڑی مارکیٹ میں ان بیوپاریوں کو بھی ملا جو فریدی رومال تھوک کے حساب سے بیچتے تھے ۔ میں نے ان کو کہا کہ فریدی رومال کو بڑا کر کے اس کی اجرک بنوا دو۔
انہوں نے کہا کہ کوئی مسئلہ نہیں ، کم از کم ہمیں ایک ہزار چوکڑی کا آرڈر دیں ۔ میں نے دوستوں سے مشورہ کیا ۔ مجھے سارے کہنے لگے ٹھیک ہے۔ ہماری اپنی شناخت ہے ۔ میرے ذہن میں یہ خیال نہ آیا کہ فریدی رومال کو اجرک بناتے ہیں تو دوسرے مسلک والے قبول کریں گے یا نہیں ؟
21 فروری 2012ء کو جناح ہال خانپور ماں بولی کے دن کے موقع پر پروگرام میں نور تھہیم نے سٹیج پر آنے والے سارے مہمانوں کیلئے فریدی رومال کا اہتمام کیا۔ تلاوت کرنے والے کے گلے میں فریدی رومال پہنایا گیا تو اس نے اتار دیا ۔ دوبارہ پہنایا گیا تو اس نے پھر اتار دیا۔مجھے بات سمجھ آ گئی۔ میں نے اس وقت ہی سوچ لیا کہ فریدی رومال کو اجرک بنانے کا منصوبہ کامیاب نہ ہو گا۔ کیونکہ ہم ایسی نشانی چاہتے ہیں جس کا تعلق دھرتی اور ثقافت کے ساتھ ہو اور اس کو سارے وسیب میں رہنے والے ہندو، مسلم عیسائی سب خوشی کے ساتھ پہنیں ۔ میں نے فیصلہ کیا جو سرائیکی اجرک بنوائی جائے اور اس کیلئے کام شروع کیا جائے ۔
سرائیکی اجرک کے ڈیزائن بننا شروع ہو گئے۔ کمپیوٹر پر کچھ ڈیزائن بنائے گئے ۔ جس کو دوستوں نے پسند کیا اور کچھ تجاویز سامنے آئیں۔ کمپیوٹر پر ہم نے جو ڈیزائن بنوائے وہ ٹھپے لگانے والوں کے پاس لے گئے ۔ انہوں نے کہا کہ فی الحال نئے ٹھپے نہ بنوائیں ، ہمارے پاس جو ٹھپے ہیں ان کو ہم لگا دیتے ہیں ۔ آپ ان کو دیکھیں ، اگر پسند آئیں تو پھر آپ جیسے کہیں گے ۔ سب سے پہلے ایک پرانے ٹھپے والے جو ملتان کینٹ والی سائیڈ پر بیٹھے ہیں ، ان کو کپڑا لے کر دیا ، اس نے رقم بھی بہت ساری لی مگر کام نہ بنا۔
پھر حسین آگاہی میں گلی کمنگراں والوں کے پاس گئے ، وہاں بھی مزا نہ آیا ۔ اندرون دلی گیٹ گئے ، ہر کوئی نیا مشورہ دے رہا تھا، کچھ لوک یہ کہتے تھے کہ پانچ دس لاکھ ہووے ، فیصل آباد جا کے وہاں سے کپڑا پرنٹ کراؤ پر وہاں تھوڑا کپڑا نہ بنے گا ، بہت زیادہ ہو تو پھر کام بنے گا۔ مسئلہ یہ تھا کہ اتنی رقم کہاں سے آئے ؟ مجھے شوکت مغل صاحب نے کہا کہ کرافٹ بزار والوں کے ساتھ مشورہ کر لیں ۔ ہم کرافٹ بازار والوں کے پاس گئے ۔
ملتان کے عالمی شہرت یافتہ نقاش ملک عبدالرحمان سے ملے۔ ہم نے اپنا مدعا بیان کیا ۔ وہاں کہروڑ پکا کے استاد امیر بخش پہلے سے موجود تھے۔ ملک صاحب نے ان سے ملوایا ۔ ہمارا تعارف کرایا اور کہا کہ ملک امیر بخش صاحب آپ کا مسئلہ حل کر سکتے ہیں ‘ بات ہو گئی۔ انہوں نے کہا کہ آپ کہروڑ پکا آئیں ، میں کہروڑ پکا گیا، پیسے دے آیا ، ان کو بتایا کہ 6اور7 مارچ 2014ء کو سرائیکی فیسٹیول ہے ، آپ نے اس سے پہلے دینی ہے۔ انہوں نے مہربانی کی، سرائیکی اجرک تیار ہو گئی۔ سندھی اجرک والے گہرے رنگ نہ تھے پر بسم اللہ ہو گئی۔ پھر استاد امیر بخش صاحب کے ساتھ رابطہ رہ گیا اور بہت سی اجرکیں تیار کرائیں مگر اصل رنگوں والی آس باقی تھی ۔
سرائیکی اجرک کے سلسلے میں سندھ کے شہر جام شورو گیا ، وہاں سے پوچھا اور اپنا مقصد بیان کیا۔ وہاں کچھ نہ بتایا گیاکیونکہ ان کو ’’ سرائیکی اجرک ‘‘ والا لفظ اچھا نہ لگ رہا تھا۔ اس دورے میں میرے مرحوم دوست اور بھائی غلام مصطفی خان کے ساتھ محمد علی خان بھی تھے ۔ انہوںنے کہاکہ جدید دور ہے۔ ٹھپے کا کام چھوڑیں ، کراچی واپس چل کے کسی کو کہتے ہیں ، اجرکیں تیار کر دیں گے ۔ میں پھر کراچی گیا ۔ بات کی تو انہوںنے کہا کہ ’’ بڑا آرڈر دو اور رقم ایڈوانس جمع کراؤ۔‘‘ بڑے آرڈر کیلئے نہ ایڈوانس رقم تھی اور نہ جمع کرائی ۔
پھر ایک مرتبہ حیدر آباد سرائیکی قوم پرست دوست ذوالفقار کھونہارا کو تکلیف دی ۔ انہوں نے بھاگ دوڑ کی ، آخر کار ایک جگہ پر کامیاب ہو گئے ۔ انہوں نے مجھے حیدر آباد بلوایا ۔ میں حیدر آباد گیا اور اجرکوں کا آرڈر دیا ۔ پھر ہم حیدر آباد کے ان دوکانداروں کے پاس گئے جن کا کروڑوں کا کاروبار سندھی اجرک کا ہے۔ وہ اپنی دوکان پر کوئی دوسرا کپڑا نہیں رکھتے صرف اور صرف سندھی اجرک رکھتے ہیں ۔ ہم نے ان کو درخواست کی کہ سرائیکی اجرکیں بنوائیں اور ان کو بطور کاروبار چلانے کی ارداس کی اور کہا کہ یہ اجرکیں آپ سرائیکی وسیب کے دوکانداروں کو بھیجیں پر وہ نہ مانے۔ حیدر آباد میں سے سرائیکی اجرکیں بن کر آئیں ۔ ٹوٹل رقم انہوں نے ایڈوانس لے لی ۔ بنڈل آئے تو کچھ اجرکیں ٹھیک نہ تھی ، کپڑا پھٹا ہوا ہے ۔ میں نے شکایت کی تو وہ ناراض ہو گئے ۔
میں کچھ عرصہ بعد نئے آرڈر کا کہا تو انہوں نے کہا کہ فی الحال رُک جائیں ، نہریں بند ہیں ، اس لئے مال تیار نہیں ہو رہا۔ میں نے دوستوں سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ واقعی اجرکوں کا تعلق نہر کے پانی سے ہوتا ہے۔ چپ کر گئے ، کچھ عرصہ بعد حیدر آباد گئے ، جام ذوالفقار کھونہارا سئیں میرے ساتھ سارا دن رہ گئے ۔ پر کام نہ بنا ۔ جام ذوالفقار کھونہارا کو اس بات کا رنج تھا کہ رقم بھی دیتے ہیں ، منتیں بھی کرتے ہیں پھر بھی کم نہیں بنا ۔ میں نے کہا کہ فکر نہ کرو، یہ نہ بنائیں پر کب تک ؟ اگر ہم نے سرائیکی اجرک کے کام کو شروع کیا ہے تو آخر تک جائیں گے ۔ اللہ کے فضل سے ایک دن آئے گا جب سرائیکی اجرک عام ہو گی اور سندھی اجرک کی طرح ہر دوکان سے ملے گی ۔ اس اجرک کو اب کوئی نہ روک سکے گا کہ یہ اب سرائیکی قومی شناخت کا سوال ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ
سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ
ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ
میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر