ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا عوامی لانگ مارچ وسیب میں پہنچا تو رحیم یار خان میں قافلے کا شاندار استقبال ہوا، رحیم یار خان میں خطاب کے دوران بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اب دمادم مست قلندر ہوگا، سلیکٹڈ نے ہر آدمی کی زندگی مشکل کر دی ، اسلام آباد جائیں گے اور سلیکٹڈ کو گھر بھیجیں گے ، بلاول بھٹو نے یہ بھی کہا کہ خان کی الٹی گنتی شروع ہو چکی ہے، اس موقع پر بلاول بھٹو زرداری نے اپنی جماعت کے وعدے کے مطابق صوبے یا وسیب کی محرومی کے حوالے سے کوئی بات نہ کی ،
وسیب کے لوگ توقع کر رہے تھے کہ بلاول بھٹو وسیب کے حوالے سے بات کریں گے اوروسیب کے لوگوں کو خوش کریں گے مگر ایسا نہیں ہوا۔ بلاول بھٹو زرداری اور بینظیر بھٹو میں کتنا فرق ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ محترمہ بینظیر بھٹو نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں مشرف کے خلاف جلسوں کا آغاز سرائیکی وسیب سے کیا، 24دسمبر 2007ء کو رحیم یار خان میں جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے محترمہ بینظیر بھٹو نے کہا تھا کہ یہ دھرتی سرائیکی شاعر خواجہ فریدؒ کی دھرتی ہے ، سرائیکی بہت میٹھی زبان ہے، ہم آمر حکمرانوں کو گھر بھیجیں گے ،
الیکشن میں کامیابی کے بعد سرائیکی وسیب کی محرومی کو ختم کریں گے ، صوبہ بنائیں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ چاچڑاں اور کوٹ مٹھن کے درمیان دریائے سندھ پر پل کیلئے ہم نے بجٹ میں 77کروڑ روپے رکھے تھے مگر ہماری حکومت ختم ہوئی تو وہ رقم بھی دوسرے منصوبوں پر لگا دی گئی ، اب ہم دوبارہ بر سر اقتدار آکر اس پل کو تعمیر کریں گے ۔محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پیپلز پارٹی بر سر اقتدار آئی تو وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے محترمہ کا وسیب کی عوام سے کیا وعدہ پورا کرتے ہوئے دریائے سندھ پر پل تعمیر کر دیا۔ یہ تو تھی محترمہ بینظیر بھٹو کی بات کہ انہوں نے پہلے اس خطے کی تاریخی شخصیت خواجہ غلام فریدؒ کا حوالہ دیا، خطے کی محرومی کی بات کی اور آئندہ کا لائحہ عمل بتایا ۔ مگر بلاول بھٹو نے ایسا نہیں کیا۔
اس میں بلاول بھٹو کا بھی قصور نہیں یہ سرائیکی وسیب کی قیادت کا فرض بنتا ہے کہ وہ آنے والے مہمان کو اس خطے کی تاریخ ، ثقافت اور مسائل کے بارے آگاہ کرے تاکہ وہ ان موضوعات کو اپنی تقریر میں شامل کر کے اپنے خطاب کو طاقت ور بنائے۔ وسیب کے جاگیرداروں ، تمنداروں اور گدی نشینوں کا المیہ یہی ہے کہ ان کو باقی ہر چیز کا علم ہے اگر نہیں ہے تو اپنے وسیب کا ادراک احساس اور علم نہیں ہے۔
لانگ مارچ کی بھی عجب کہانی ہے، تحریک انصاف کا لانگ مارچ سندھ کی طرف ہے اور پیپلز پارٹی کا لانگ مارچ اسلام آباد کی طرف ہے، مخدوم شاہ محمود قریشی نے سندھ کے مختلف مقامات پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں سندھ کی محرومی کی بات کرتا ہوں ، اچھی بات ہے کہ ہر علاقے کی محرومی ختم ہونی چاہئے مگر شاہ محمود قریشی سے کوئی پوچھے کہ آپ کو سندھ کی محرومیاں تو یاد آ گئی ہیں مگر آپ کو سرائیکی وسیب کی محرومیاں نظر کیوں نہیں آتیں؟۔ آپ کی جماعت نے 100دن میں صوبہ بنانے کا وعدہ کیا مگر 1300دن گزرنے کے باوجود کیوں خاموشی ہے؟۔ کرسی اور اقتدار کی سیاست کرنے والوں کے اطوار تبدیل ہونے چاہئیں، سیاست اقتدار کیلئے نہیں عوام اور خدمت کیلئے ہونی چاہئے، وزیر اعظم عمران خان چوہدری شجاعت اور چوہدری پرویز الٰہی سے جاکر ملے۔
لانگ مارچ کا سلسلہ شروع ہوا ہے تو وزیر اعظم نے پیٹرول اور بجلی کی قیمت کم کر دی ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ میرا قوم سے وعدہ ہے کہ جتنا ٹیکس دیں گے نچلے طبقے کو ریلیف ملے گااس کے جواب میں سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کا کہنا ہے کہ یہ چھوٹا موٹا ریلیف عوام کو صرف لانگ مارچ کی وجہ سے ملا ہے ۔ سرائیکی جماعتوں کے احتجاج پر وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے کہا ہے کہ وسیب کیلئے 33فیصد ملازمتوں کا کوٹہ مختص کر دیا ہے۔ یہ اعلان ایک بار نہیں بلکہ 101بار ہوا ہے مگر اس پر عملدرآمد آج تک نہیں ہوا، وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے سرکاری خرچ پر ڈی جی خان میں بلوچ کلچر ڈے کی تقریبات منعقد کرائی ہیں ح،پنجاب میں سرائیکی ، پنجابی ، پوٹھوہاری کلچر ڈے بھی ہونا چاہئے۔ بات بلاول بھٹو زرداری سے شروع کی تھی کہ بلاول ، آصف زرداری اور حاکم علی زرداری کے لخت جگر ہیں جو کہ سندھ کے سرائیکی ہیں ، اس لحاظ سے بلاول بھٹو بھی سندھی بعد میں سرائیکی پہلے ہیں ۔
سندھ سرائیکستان کے تاریخی ، ثقافتی ، جغرافیائی ،معاشرتی ، لسانی تعلق کی سانجھ صدیوں سے موجود ہے، اسی اشتراک اور تعلق کو ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی نبھایا ۔یہ بھی حقیقت ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے بر سر اقتدار آنے کے بعد سرائیکی زبان و ثقافت کی پروموشن کیلئے کام کیا اور اپنے دوست ریاض ہاشمی مرحوم کو مشورہ دیا کہ وہ تہذیبی و ثقافتی بنیادوں پر کام کریں ، جس کی بناء پر بہاولپور صوبہ محاذ کے رہنما ریاض ہاشمی نے بہاولپور صوبہ محاذ کو سرائیکی صوبہ محاذ میں تبدیل کیا۔عدالت میں بھی ذوالفقار علی بھٹو نے سرائیکی زبان کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا تھاکہ دنیا کی میٹھی زبان سرائیکی میں یہ کہوں گا کہ ’’درداں دی ماری دلڑی علیل اے ‘‘ ۔
اسی طرح ذوالفقار علی بھٹو نے عدالت میں سرائیکی شاعر خواجہ فرید کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’کیا حال سنڑاواں دل دا ، کوئی محرم راز نہ ملدا۔‘‘ ذوالفقار علی بھٹو کے بر سر اقتدار آنے سے پہلے پورے سرائیکی خطے میں ایک بھی یونیورسٹی نہ تھی ‘ ذوالفقار علی بھٹو نے سرائیکی وسیب کو 1975ء میں تین یونیورسٹیاں دیں۔ گومل یونیورسٹی دیرہ اسماعیل خان ، بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی ملتان ، اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپوران یونیورسٹیوں کے قیام سے پہلی مرتبہ یہ بات سامنے آئی کہ ڈی آئی خان بھی سرائیکی وسیب کا حصہ ہے ،یہ بہت بڑا کارنامہ اور کریڈٹ ہے جس کو وسیب کے لوگ آج بھی یاد کرتے ہیں۔اب بلاول بھٹو کو اپنے نانا کی لاج رکھنا ہو گی، بلاول بھٹو کو ’’ جنوبی پنجاب ‘‘ کے نام اور نظریہ کو مسترد کرنا چاہئے ۔
یہ بھی پڑھیں:
ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ
سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ
ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ
میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر