عاصمہ شیرازی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقت بھی کبھی کسی کا ہوا ہے؟ وقت اقتدار میں مقتدر کے ہاتھ میں ریت کی مانند تو اقتدار سے باہر ترازو کے پلڑے میں۔ حوادث زمانہ ہیں کہ طاقت اُن کے پاس ہے جو کمزور ہیں اور خوف کے ہاتھوں بدحواس۔ اور جب طاقتور خوفزدہ ہو جائیں تو حادثے جنم لے سکتے ہیں۔
طاقت کا نشہ کہیں یا وقت کا انتظام، حکمران اکثر ایسی غلطیاں تب کرتے ہیں جب انجام کی خبر ہو مگر یہ سب بھی اُنھیں ایسا کرنے سے روک نہیں سکتا۔
موجودہ ہائبرڈ دور نے خوف کی فضا پیدا کی، صحافیوں کو ڈرایا دھمکایا، الزام لگائے، تنقیدی آوازوں کا گلا گھونٹنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ تقریر، تحریر کی آزادی سلب کرنے کے اقدامات کیے۔ گالم گلوچ، بہتان اور کردار کُشی کا بازار گرم کیا۔ سنجیدہ اور اچھی شہرت رکھنے والے صحافیوں کی ساکھ کو نقصان پہنچایا، یہی نہیں جمہوری سوچ رکھنے والے سیاست دانوں، سول سوسائٹی کے اراکین غرض جس نے آواز اُٹھائی اُسے نشان عبرت بنانے کی کوشش کی گئی۔
مگر ہاتھ کیا آیا؟ آخر کب تک محض الزام تراشی کو ہتھیار بنایا جاتا اور کب تک محض کھوکھلے دعوے اور نعرے سُنائے جاتے۔ جب کچھ ہاتھ نہ آیا تو میڈیا پر پابندیوں کا قانون عائد کیا گیا۔ اور یہی وہ غلطی ہے جو موجودہ حکمرانوں کو ہمیشہ ڈراتی رہے گی۔
گذشتہ روز وزیراعظم کی تقریر نے حیران کر دیا، دس روپے پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں کمی جبکہ بجلی کے نرخوں میں جو اضافہ کیا گیا، وہ واپس لے لیا گیا۔
حیران کُن یہ نہیں کہ حکومت نے عوام کو ریلیف دیا، پریشان کُن بات یہ ہے کہ یہ اضافے آئی ایم ایف کی شرائط اور دباؤ پر کرنا پڑتے ہیں، تو کیا وزیراعظم آئی ایم ایف کی زنجیریں توڑ رہے ہیں؟ کہنے کو یہ خوش کُن نعرہ ہے مگر متبادل کیا ہے؟ روس اور چین کے ساتھ تعلقات آزاد خارجہ پالیسی کی علامت مگر ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کے چنگل میں پھنسا کر نکلنے کا خواب کیسے شرمندہ تعبیر ہو گا؟
وزیراعظم کی تقریر نے انتخابات کا بگل بجا دیا ہے اور کسی بھی وقت کوئی بھی غلطی حادثہ بن سکتی ہے۔ انتخابات کا اشارہ دے کر انتخابی اعلانات مگر تلخ حقائق سے پیچھا کیسے چھڑوائیں گے اور اقتدار میں آنے والے کے لیے کھدی خندق میں کون گرنا چاہے گا شاید موجودہ حکمرانوں کو اس کا بھرپور احساس ہے۔
حزب اختلاف تین ہفتے گزر جانے کے باوجود اب تک ایک واضح ایجنڈے کے ساتھ سامنے نہیں آئی یا مناسب وقت کی تلاش میں ہے۔ حکومت کی جانب سے اس طرح کے ریلیف پیکج کا اعلان اپوزیشن کی متحرک سیاست کا ہی نتیجہ ہے تاہم حکومت اور چند ایسے بظاہر مقبول اقدامات کر کے عوام کا دل جیت سکتی ہے؟ تب اپوزیشن کے ہاتھ کیا نعرہ ہو گا؟
ایک طرف پیپلز پارٹی کے عوامی مارچ کا آغاز متاثر کُن تو دوسری جانب مارچ کی ٹائمنگ اہم۔ جیت اور ہار، ڈیل اور نو ڈیل، ایمپائر کی میانہ روی یا مداخلت اور عدم مداخلت کے خوف سے بالاتر سیاسی جماعتیں اگر عوام کے نبض پر ہاتھ رکھ کر سیاست کریں تو اُنھیں نتائج بھی عوام پر ہی چھوڑنا پڑیں گے اور اس سلسلے میں پیپلز پارٹی نے بہرحال ابتدا کی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا پیپلز پارٹی یہ زور پنجاب میں دکھا پائے گی؟
ہر دو صورتوں میں بازی مات نہیں کہ سیاسی جماعتوں نے عوام کے پاس جانے کا آپشن استعمال نہیں کیا۔ عوامی دباؤ عوامی نمائندوں کو مجبور کر سکتا ہے کہ جمہور کے فیصلے مقدم ہوں۔
آصف زرداری صاحب نے اپنے دو اہم کھلاڑی بلاول اور آصفہ کی صورت عوام میں اُتار دیے ہیں۔ جلد یا بدیر ن لیگ اور مولانا کو بھی عوامی اکھاڑے میں اُترنا ہو گا پھر فضا کیا بن سکتی ہے، مقتدر اس سے باخبر ہیں۔
دوسری جانب قومی اور پنجاب اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحاریک اپوزیشن کے ہاتھ میں ہیں۔ تجربہ کار سیاسی جماعتیں جانتی ہیں کہ کس وقت ترکش کا یہ تیر چلایا جا سکتا ہے۔ اپوزیشن کی ذرا سی غلطی شدید نقصان کا سبب بن سکتی ہے یہی وجہ ہے کہ تمام پتے چند راہنماؤں نے سینے سے لگا رکھے ہیں۔
مقتدر حلقوں کے پاس بھی وقت کم ہوتا چلا جا رہا ہے، ذرا سی دیر انھیں طوفان کے سامنے کھڑا کر دے گی۔ یہی وجہ ہے کہ متحرک شخصیتیں سیاسی حل کو ترجیح دے رہی ہیں۔
ترین گروپ ہو یا اتحادی جماعتیں، تحریک انصاف کے اندر ناراض اراکین ہوں یا مقتدر حلقے مہنگائی اور بدانتظامی کے باعث عوام کا دباؤ آپشنز کم کرتا چلا جا رہا ہے جبکہ اپوزیشن جماعتوں کے پاس بھی وقت محدود ہے۔
پنجاب میں سیاسی محاذ کسی بھی وقت گرم ہو سکتا ہے تاہم ن لیگ اسمبلیوں کی مدت کے معاملے پر اور پنجاب کی وزارت اعلٰی پرویز الہی کو دینے میں قدرے ہچکچا رہی ہے۔ ایسے میں ن لیگ کا حلقہ اثر حکومت کو گھر بھیجنے کے لیے غیر مقبول فیصلوں کی حمایت میں ہے۔ وفاق میں اہم تعیناتیوں سے قبل ’بروقت تبدیلی‘ جبکہ بدلے میں شفاف انتخابات کے آپشن کے درمیان بھی بہت کچھ طے ہونا باقی ہے۔
ہر گزرتا لمحہ طاقت کے ہر کردار کے گرد گھیرا تنگ کر رہا ہے اور اعصاب کی اس لڑائی میں دیکھیں وقت کس کی طرف آ کھڑا ہو۔
یہ بھی پڑھیے:
جناب! عوام کو ہلکا نہ لیں۔۔۔عاصمہ شیرازی
’لگے رہو مُنا بھائی‘۔۔۔عاصمہ شیرازی
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ