دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

روس یوکرائن تنازع، چند اہم پہلو||محمد عامر خاکوانی

دراصل یورپی یونین کے ممالک اس وقت بھی روس سے گیس لے کر اپنا کام چلا رہے ہیں، وہ یہ نہیں چاہتے کہ معاملات ان کے اپنے لئے پریشان کن ر ہوجائیں۔ روس نے ویسے اپنا معاشی نظام بنایا ہے، وہ ضرورت پڑنے پر چین کی مدد بھی لے سکتا ہے،

محمد عامر خاکوانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یوکرائن پر روسی حملے کے مضمرات پر بات کرتے ہوئے تین اہم سوال ذہن میں آتے ہیں۔روس نے یوکرائن پر حملہ کیوں کیا اور اسے کیا نتائج بھگتنا پڑیں گے؟حملہ کے بعد کا منظرنامہ کیا ہوگا؟ آخری سوال ہم پاکستانیوں کے لئے ہے کہ ہمیں اس ایشو پر کیا رائے بنانی چاہیے ؟ اپنے دو دن پچھلے کالم میں تفصیل سے روس یوکرائن تنازع کے پس منظر اور تاریخ پر بات کی تھی اور یہ بھی کہ یہ حملہ کیوں ہوا؟

یوں محسوس ہوتا ہے کہ یوکرائن کی اہمیت روسیوں کی نفسیات میں رچی بسی ہے، بہت سے تاریخی، ثقافتی، لسانی مشترک رشتے ہیں۔ آج کے صدر پوٹن کی بات نہیں بلکہ انقلاب روس کے سب سے اہم لیڈر لینن کا ستر سال پرانا فقرہ ہے کہ یوکرائن کی حیثیت روس کے سر جیسی ہے ۔ سوویت یونین کے آخری سربراہ گوربا چوف نے کہا تھا کہ یوکرائن کے بغیر سوویت یونین نہیں اور یونین کے بغیر یوکرائن کچھ نہیں۔ صدر پوٹن تو بار بار کہہ چکے ہیں کہ یوکرائنی اور روسی ایک ہیں، ان کی تاریخ، ثقافت سب کچھ ایک ہے۔ یوکرائن روس کے بعد مشرقی یورپ کا رقبے کے حساب سے دوسرا بڑاملک ہے۔

روس کے ساتھ اس کی ہزاروں میل لمبی سرحد ملتی ہے۔ یوکرائن پر روسی گرفت مضبوط ہو تو مشرقی یورپ کے دیگر اہم ممالک پولینڈ، ہنگری، رومانیہ وغیرہ تک رسائی آسان ہوجاتی ہے۔ یوکرائن کا نقشہ دیکھا جائے تو کئی باتیں سمجھ آ جاتی ہیں۔جنہیں نقشہ پڑھنے میں دلچسپی نہیں، وہ ایک سادہ نکتہ یاد رکھیں کہ نقشے میں اوپر کی طرف شمال اور نیچے کی طرف جنوب جبکہ دائیں طرف مشرق اور بائیں مغرب ہے۔

یوکرائن کے شمال میں بیلاروس واقع ہے۔ یوکرائن کے مشرق کی خاصی طویل سرحد جو کہ شمال مشرق سے جنوب مشرق تک چلی جاتی ہے، یہاں روس ہے۔ یوکرائن کے جنوب میں یعنی نقشہ کے حساب سے نچلی طرف کریمیا کا جزیرہ نما (Peninsula) ہے۔یاد رہے کہ جزیرہ نما تین اطراف سے پانی میں گھرا جبکہ چوتھی طرف زمینی علاقہ سے جڑا ہوتا ہے،روس آٹھ سال قبل کریمیا کو یوکرائن سے الگ کر کے اپنے ساتھ شامل کر چکا ہے، ویسے یہاں روسی اکثریتی آبادی تھی جسے کوئی اعتراض نہیں ہوا۔ یوکرائن کے مغرب میں سب سے بڑا ملک پولینڈ ہے، جبکہ ہنگری، رومانیہ، سلوواکیا کے ساتھ بھی یوکرائن کی سرحدیں ملتی ہیں۔روس کی سرحد ان ممالک کے ساتھ نہیں ملتی، درمیان میں یوکرائن آ جاتا ہے۔

البتہ یوکرائن کے شمال میں بیلاروس سے تھوڑا اوپرچھوٹی چھوٹی بالٹک ریاستیںاسٹونیا، لٹویا،لتھووینیا ہیں، ان کے ساتھ روس کی براہ راست سرحد ملتی ہے۔ روس اگر یوکرائن کو اپنا حصہ بنا لیتا ہے یا وہاں پر اس کی کنٹرولڈ /زیرنگیں حکومت ہو تو اس کے لئے پولینڈ، ہنگری، رومانیہ اور دیگر مشرقی یورپی ممالک پر دبائوڈالنا ،اپنی فوجی کارروائی سے ڈرانا دھمکانا آسان ہوجاتا ہے۔ یہ بھی ذہن میں رہے کہ یوکرائن سونے کا انڈہ دینے والی مرغی ہے، بے شمار معدنیات کے علاوہ بہت اہم زرعی مرکز۔ یہاں دریا، نہروں کا بہترین نظام ہونے اور زرخیز زمین کے باعث شاندار فصلیں ہوتی ہیں، جن میں گندم اور مکئی سرفہرست ہیں۔

یوکرائن پر کنٹرول ہر لحاظ سے منافع بخش سودا ہے۔ روس نے یوکرائن پر حملہ کرنے سے پہلے بہت کچھ سوچا اور پلان کیا ہوگا، یقینی طور پر یہ کیلکولیٹڈ اٹیک ہے کیونکہ روس یوکرائن تنازع آج کا نہیں بلکہ آٹھ سال سے چل رہا ہے۔ دراصل 2013میں پرو روسی یوکرائنی صدر کے خلاف عوامی احتجاجی تحریک کے بعد وہاں پر اینٹی روس اور پرو مغرب حکومتیں آئیں۔ روس نے 2014ء میں جوابی کارروائی کرتے ہوئے یوکرائن کے جنوبی جزیرہ نما علاقہ کریمیا کو الگ کر کے اپنے ساتھ ملا لیا۔ اس کے ساتھ یوکرائن کے مشرقی علاقہ میں جہاں روسی زبان بولنے والوں کی اکثریت ہے، وہاں بھی ڈونباس علاقہ کو ایک طرح سے الگ کرا دیا، جہاں دونتسک اور لوہانسک یا لوگانسک شہر موجود ہیں۔پچھلے آٹھ برسوں سے یہ عملاً آزاد ہیں اور روسی مدد کے ساتھ وہاں علیحدگی پسند معاملات چلا رہے تھے۔ روس نے پچھلے ایک دو برسوں میں ان علاقوں میں کئی لاکھ افراد کو روسی پاسپورٹ بھی تقسیم کئے ۔

اب حملہ کرنے سے پہلے صدر پوٹن نے دونتسک اور لوہانسک کو آزاد ملک تسلیم کر لیا ۔اس تفصیل کا مقصد یہ بتانا تھا کہ یہ آگ اچانک نہیں بھڑکی بلکہ کئی برسوں سے تنازع چلا آ رہا تھا جو رفتہ رفتہ بڑھتا گیا اور اب سوچے سمجھے منصوبے کے تحت حملے کا دھماکہ کر ڈالا۔ لگتا ایسے ہے کہ صدر پوٹن نے نیٹو کی عملی کمزوری اور موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن کا گہرا تجزیہ کرنے کے بعد یہ قدم اٹھایا۔ صدر پوٹن کو اندازہ ہوگیا کہ افغانستان سے بمشکل نکلنے کے بعد امریکہ اور نیٹو سردست کوئی عملی جنگ لڑنے کے قابل نہیں۔امریکی صدر بائیڈن بڑی شدت سے اس کے حامی ہیں کہ امریکی فوجی کسی اور ملک کی جنگ لڑتے ہوئے اپنی جانیں نہ دیں۔ اسی وجہ سے انہوں نے یوکرائن کے دفاع کے لئے فوج بھیجنے سے صاف انکار کر دیا ہے، یہی نیٹو کے ممالک نے کیا۔ دوسرا یوکرائن چونکہ ابھی تک نیٹو کا ممبر نہیں ہے، اس لئے اس کا دفاع کرنا نیٹو کی قانونی، اصولی، اخلاقی ذمہ داری نہیں بنتی۔

ہاں اگر روس لٹویا، استھونیا وغیر پر حملہ آور ہوا یا فرض کریں یوکرائن پر کنٹرول کرنے کے بعد پولینڈ، ہنگری، رومانیہ وغیرہ میں چھیڑ چھاڑ کی گئی تو معاملہ مختلف ہوگا کیونکہ نیٹو کے چارٹر کے مطابق اس کے ایک رکن ملک پر حملہ سب پر حملہ تصور ہوتا ہے۔عسکری اعتبار سے روس کے سامنے یوکرائن ترنوالہ تھا، جسے روس نے مزے سے منہ میں ڈال لیا۔ اس وقت امریکہ اور نیٹو صرف اقتصادی پابندیاں لگانے کی پوزیشن میں ہیں۔ امریکہ اور برطانیہ اس حوالے سے بہت جارحانہ رویہ اپنائے ہوئے ہیں، یورپی یونین کے ممالک بھی پابندیاں لگا رہے ہیں، مگر ان کا رویہ قدرے نرم ہے۔ برطانیہ نے مطالبہ کیا ہے کہ روس کو سوئفٹ بنکنگ سسٹم سے بھی نکال دیا جائے، مگر جرمنی وغیرہ اس کے مخالف ہیں۔

دراصل یورپی یونین کے ممالک اس وقت بھی روس سے گیس لے کر اپنا کام چلا رہے ہیں، وہ یہ نہیں چاہتے کہ معاملات ان کے اپنے لئے پریشان کن ر ہوجائیں۔ روس نے ویسے اپنا معاشی نظام بنایا ہے، وہ ضرورت پڑنے پر چین کی مدد بھی لے سکتا ہے، جس کا بڑی حد تک اپنا معاشی نظام موجود ہے۔ اس کے باوجود اگر پابندیاں لمبا عرصہ چلیں تو روس کے لئے خاصی مشکلات پیدا ہوجائیں گی۔ ملین ڈالر سوال یہ ہے کہ اس صورتحال کا نتیجہ کیا نکلے گا؟ اس کا جواب یوکرائنی عوام اوران کی فوجی مزاحمت پر ہے۔ روس کی تقریباً دو لاکھ فوج حملہ آور ہوئی ہے، یوکرائن کے پاس اس سے کم فوج ہے(تقریباً سوا لاکھ)، یہ ممکن ہے کہ دارالحکومت کیئو یا کیف پر جلدقبضہ ہوجائے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ملک کے قلب میں نہیں بلکہ روسی/بیلاروسی سرحد سے صرف ساٹھ میل کے فاصلے پر ہے ، اسی وجہ سے روسی فوجیں جلداس کے سر پر جا پہنچیں۔ عسکری ماہرین کے خیال میں اگر یوکرائنی حکومت اپنے ملک کے کچھ حصے پر حکومت قائم رکھے اور بڑے شہروں میں گوریلا جنگ اور عوامی بغاوت کے ذریعے مزاحمت جاری رکھے تو روس کے لئے مشکلات بڑھ جائیں گی۔

شہروں میںخاص کر گلی محلے کے اندر مزاحمت کچلنا آسان نہیں ہوتا۔ تب جانی نقصان زیادہ ہوگا اور جنگ بھی طویل ہوتی جائے گی۔ روس کی کوشش ہوگی کہ جلد از جلد یوکرائنی حکومت کو ختم کر کے اپنا کنٹرول قائم کرے اور پھر معاملات نارمل ہوجانے کا تاثر دے۔ اب یہ یوکرائنی فوج اور عوام پر ہے کہ وہ کس جذبے کے ساتھ اپنی سرزمین کا دفاع کرپاتے ہیں۔ یہ بات یقینی ہے کہ اگر یوکرائنی مزاحمت جاری رہی تو اسے امریکہ اور یورپ کی جانب سے اسلحہ، مالی مدد اور مکمل اخلاقی سپورٹ ملے گی۔ انہیں سب کچھ مل سکتا ہے، مگر جانیں یوکرائنی عوام کوخود دینا ہوں گی، ان کی لڑائی لڑنے کے لئے کوئی اور تیار نہیں۔ یوکرائنی عوام اور فوج کا ردعمل بتائے گا کہ ان کا مقدر ویت نام اور افغانستان جیسا ہے یا یہ ڈھیر ہوجانے والی قوم ہے۔

پاکستانی حکومت نے ابھی تک مثبت طرزعمل کا مظاہرہ کیا ہے، ہمیں اس جنگ میں غیر جانبدار رہنا چاہیے۔ روس کی باقاعدہ مذمت سے بچتے ہوئے جنگ ختم ہونے، امن کی خواہش کا اظہار۔ ہماری مجبوری ہے کہ ہمارا سب سے قریبی دوست چین اس وقت روس کے بہت قریب ہے۔ ہمیں سوچ سمجھ کر آگے بڑھنا چاہیے۔ البتہ انفرادی طور پر ہمیں ماننا چاہیے کہ روسی جارح ہیں۔ انہوں نے ایک آزاد خودمختار ملک پر حملہ کیا اور جو جواز روسی صدر پیوٹن نے پیش کئے ، وہ سب کمزور، ہلکے اور غیر معتبر ہیں۔یوکرائن جیسے ملک سے روس کی سالمیت کو کیا خطرہ لاحق ہوسکتا تھا؟

اگر وہ روسی سرحد کے ساتھ میزائل لگا دے ،تب بھی کئی ہزار ایٹمی ہتھیاروں کے مالک روس کا کیا بگاڑا جا سکتا ہے؟ پاکستان کو اپنے پڑوس میں ایک نہایت جارح، طاقتور ، ضدی اورکم وبیش اسی انداز کی انا اور عزائم رکھنے والے ملک کا سامنا ہے۔ روسی حکومت کے دلائل سن کر بھارتی شدت پسند ہندولیڈروں کے دلائل اور بیانیہ یاد آجاتا ہے۔ ان میں بہت کچھ مشترک ہے۔ ہم پاکستانیوں کو ہر معاملے میں مظلوم کا ساتھ دینا چاہیے کیونکہ ہماری اپنی حیثیت ہی ایسی ہے۔ اگر کسی مجبوری کے باعث ہم ظالم کی کھل کر مذمت نہیں کر سکتے تو کم از کم اس کے ساتھی تو نہ بنیں۔

 

یہ بھی پڑھیے:

عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی

سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی

محمد عامر خاکوانی کے مزید کالم پڑھیں

About The Author