ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”بہن میں نے رشتے کروانے والی سے کہہ دیا کہ لڑکی خوبصورت ہو، اچھے خاندان سے تعلق ہو، پڑھی لکھی بھی ہو، بس ایک بات کا خیال رکھنا“
”وہ کیا؟“
”فلاں کالج سے پڑھی ہوئی نہ ہو۔ وہاں کی لڑکیاں بہت تیز، بہت پٹاخہ ہوتی ہیں، پروں پہ پانی ہی نہیں پڑنے دیتیں۔ نہ بابا نہ ہمیں ایسی تیز لڑکی نہیں چاہیے“
اماں اور ان کی سہیلی کے بیچ ہونے والی گفتگو میں ہمیں یہ سمجھ نہ آیا کہ تیز لڑکی سے کیا مراد ہے؟ اس وقت تک تو یہی خبر تھی کہ ٹپال چائے تیز دم ہو کر سب کی چاہ بن جاتی ہے۔ تیز لڑکی۔ تیز۔ کیا بھاگنے میں تیز؟
”اماں یہ تیز لڑکی کا کیا مطلب؟“
”تم ہماری باتیں سن رہی تھیں کیا؟ ہزار بار کہا کہ بڑوں کی باتیں یوں چھپ چھپ کر نہ سنا کرو“ اماں گھرک کر بولیں،
”اچھا بتائیے نا، یہ تیز لڑکی کیا ہوتی ہے؟“ ہم نے ٹھنک کر کہا۔
اماں تاؤ میں آ کر بولیں،
”تمہارے جیسی جو ہر وقت سوال و جواب کر کے جان کو آ جائے۔ جو ہر بات ماننے سے پہلے ثبوت مانگے، جو من مانی کرے“
ہائے ہائے، یہ اماں نے کیا کہہ دیا؟ ابھی تو ہم کالج بھی نہیں گئے، کہاں سے ایسے ویسے تیز ہو گئے؟ اوہو اب تو شادی کے لئے ہمیں بھی لوگ پسند نہیں کریں گے۔ ہم نے افسردگی سے سوچا۔
یقین جانیے، ہم کئی دن تیز ہونے کی کیٹیگری میں رکھے جانے کی تاویلات گھڑتے رہے۔ بھئی سوال و جواب تو ہم اس لئے کرتے ہیں کہ بہت سی باتیں سر کے اوپر سے گزر جاتی ہیں سو سمجھنے کی کوشش تو کرنی چاہیے نا۔ اور رہی بات ثبوت مانگنے کی تو کوئی بھی بات اندھا دھند کیوں مانی جائے بھلا؟ پوچھنے میں کیا حرج؟ اور من مانی۔ کیا دل کی چھوٹی چھوٹی باتیں ماننا بری بات ہے؟ نہیں بالکل نہیں۔
بہت سر پٹخا مگر تیز لڑکی کی کہانی سمجھ میں نہ آئی۔ دل تھا کہ ماننے کو تیار ہی نہیں تھا۔ پھر ایک اور خیال آ گیا کیا یہ کیٹیگریز لڑکوں کے لئے بھی ہوتی ہیں؟ لڑکا ڈھونڈتے ہوئے کیا ان کے متعلق بھی ایسے ہی کہا جاتا ہے کہ تیز نہیں بدھو لڑکا چاہیے؟ فلاں فلاں کالج کا نہ ہو۔
آپا سے پوچھنے بیٹھے تو وہ ہنس دیں، بھئی تیز نہ ہونے کا مطلب یہ کہ لڑکی ہر بات میں سر جھکا دے اور بغیر کسی آنا کانی بات مانے۔
”مگر کیوں؟ بہو اور بیوی چاہیے یا نوکرانی؟ کیا ڈمی گھر لانی ہے جس کو جو کہیں جب کہیں مان کر سر جھکا لے“
”بس ایسا ہی ہے ہمارے معاشرے کا رواج، ایسی عورت ہی پسندیدہ ہوتی ہے“ آپا دھیرے سے بولیں۔
آہستہ آہستہ ہم بڑے ہوتے گئے اور اماں کی بات سمجھ آتی گئی۔ ارے واہ ہم تو سچ مچ تیز لڑکیوں کی فہرست میں گنے جا رہے تھے۔ اکثر کوئی نہ کوئی بات اڑتے اڑتے کان میں پڑ جاتی، عظمت دی درمیان والی تے بڑی تیز اے وئی، توبہ توبہ۔
اب یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ جو لڑکی سارا سال سٹیج پہ چڑھ کے تقریریں کرے وہ گھر اور خاندان میں گونگے کا گڑ کھا کر بیٹھی رہے۔ جو ڈھیروں کتابیں پڑھتی ہو، وہ کسی بھی مبہم بات پر سر تسلیم خم کر دے۔ جو ساری دنیا سے باخبر ہو اور سامنے والے کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کرے وہ ضرورت پڑنے پہ اپنوں کے سامنے چھوئی موئی بن جائے۔
اور اس وقت تو ہمیں بہت ہنسی آئی کہ جب تیز لڑکی کا تصور ابا کے اس گھر تک پہنچ گیا جہاں اعلی تعلیم یافتہ اور ملازمت پیشہ لڑکیاں ہمارے ابا کی نظر کو تو خیرہ کرتی تھیں مگر ہماری بھابھیاں نہ بن سکیں کہ بھائی تیز نامی لفظ کے فسوں کا شکار ہو چکے تھے۔ کیا ہی ستم ظریفی تھی۔
ہماری تیزی کے چرچے چہار سو کچھ اس طور پھیلے کہ خاندان میں مداحوں کی فہرست کافی لمبی ہوتے ہوئے بھی لوگ کنی کترا جاتے۔ بھئی تیز لڑکی سے سمبندھ تو نہیں جوڑا جا سکتا نا چاہے آئینہ دل کیسا ہی شفاف کیوں نہ ہو۔ اپنے مزاج کا ہم کیا علاج کرتے جس کو گھنا پن چھو کے بھی نہیں گزرا تھا۔ ببانگ دہل اور ڈنکے کی چوٹ پہ بات کہہ دینے کا جو لطف ہے وہ وہی سمجھ سکتا ہے جو اس میدان کا کھلاڑی ہو۔
تیز لڑکی کا حوالہ آج کچھ یوں یاد آیا کہ ایک دوست نے باتوں ہی باتوں میں دولہا بننے کے ایک شوقین صاحب کی کہانی سنائی جنہوں نے یہ شق اپنے فرمائشی پروگرام میں شامل کر رکھی تھی۔
تب ہم نے سنجیدگی سے سوچا کہ تیز لڑکی ہونے یا نہ ہونے کی جملہ خصوصیات پہ پھر سے کچھ روشنی ڈالی جائے۔ خدا اماں کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے کہ پردے کی اوٹ سے وہی کچھ نکلا جو وہ کہا کرتی تھیں۔
”نہ منہ میں زبان ہو اور نہ کھوپڑی میں دماغ! نہ کوئی خواہش ہو اور نہ کوئی شوق!“
ہر بات پہ سر کو جھکا کر آمنا و صدقنا کہے۔ جانتی ہی نہ ہو کہ بحث کس چڑیا کا نام ہے، اپنے حقوق سے بے نیاز ہو، فرائض کی فہرست ازبر یاد ہو، خدمت گزاری گھٹی میں پڑی ہو، ڈولی میں آ کر ڈولے میں نکلنے پہ ایمان رکھتی ہو۔ بچوں اور شوہر کے گرد پروانہ وار گھومتی ہو، سسرال کی جوتیاں سیدھی کرنے میں طاق ہو۔ سیدھی، بھولی بھالی، فرمانبردار، سگھڑ، بنی بنائی ڈپٹی نذیر احمد کی کتاب مراۃ العروس کی جیتی جاگتی ہیروئن۔
ہم بہت سی ایسی خواتین کو جانتے ہیں جن کے شوہر اور سسرال انہیں آئیڈیل عورت کے سبق یاد کروا کر زندگی میں ہی ستی کر دیتے ہیں۔ وہ میکے کا منہ دیکھنے کو ترس جاتی ہیں، سب تہوار سسرال کے آنگن میں گزرتے ہیں کہ نیک بہوؤں کا یہی چلن ہوتا ہے۔ ان کی ڈگری تمام عمر طاق میں سجا کر رکھی جاتی ہے، نوکری کرنے کی خواہش کو ایک حقارت سے رد کر دیا جاتا ہے اور ذاتی دلچسپیوں کا تو نام ہی نہ لیجئیے وہ تو تیز لڑکیوں کے چونچلے ہوتے ہیں۔
المیہ یہ ہے کہ تیز لڑکی کے علاوہ ہمیں بقیہ کائنات تیز ہی چاہیے۔ تیز رو، تیز گام، تیز پات، تیز رفتار۔ اور نہ جانے کیا کیا۔ تیز تیز!
تیز یا سیدھی سادھی کی خواہش کرنے سے پہلے یہ ضرور سوچ لیجیے گا کہ گھر کے آنگن میں کھیلنے والی اگلی نسل زمانے سے نبرد آزما ہونے والی چاہیے یا سختیوں سے ہار ماننے والی؟
جیسی زمین ہو گی، ویسا ہی پھل اگلے گی نا!
یہ بھی پڑھیے
ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے
یہ بھی پڑھیے:
اسقاط حمل میں عورت پر کیا گزرتی ہے؟۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
کاظمی اینڈ سنز عرف سترہ برس کا بیٹا۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر