وسعت اللہ خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس طرح کا ماحول ہے اس میں اگر کوئی گوشہِ عافیت اب تک باقی ہے تو میرا کمرہ ہے۔
شہر میں کس کی خبر رکھیے کدھر کو چلیے
اتنی تنہائی تو گھر میں بھی ہے گھر کو چلیے
(نصیر ترابی)
میں اور میرا کمرہ پرامن بقائے باہمی کی بنیاد پر ایک دوسرے کو برداشت کرنا سیکھ گئے ہیں۔ وہ میرے شب و روز کا نظام الاوقات اب پہلے سے بہتر جانتا ہے۔ شروع شروع میں کچھ ایڈجسٹمنٹ پرابلمز آئے۔ مثلاً میری یہ شکایت کہ وہ مجھ سے بات کیوں نہیں کرتا۔ بس سنتا ہی کیوں رہتا ہے۔ پھر مجھ پر آہستہ آہستہ کھلنے لگا کہ مجھے اس کی زبان سیکھنا پڑے گی اور اس کے احساسات کو اسی کے اشاروں کی مدد سے سمجھنا پڑے گا۔
شروع شروع میں یہ بہت مشکل سا لگا۔ لیکن اب مجھے معلوم ہے کہ اس کے کس اشارے کا کیا مفہوم ہے۔ مثلاً جب میں کھڑکی اور دروازہ بند کر کے بھی باہر جاتا ہوں تو دو دن بعد کمرے کے فرش اور آزو بازو پڑی اشیا پر گرد کی ایک ہلکی سی تہہ جم جاتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ کمرہ صفائی پسند ہے اور میرے برعکس روزانہ کی ڈسٹنگ اور ڈریسنگ کا طالب ہے۔
مجھے اپنے روزمرہ کے کپڑے الماری کے پٹ سے لٹکانے کی عادت ہے،لیکن کمرے کے لیے جب یہ پھوہڑ پن برداشت سے باہر ہوجاتا ہے تو وہ الماری کے پٹ کو اشارہ کرتا ہے اور میری قمیضیں اور جینز جانے کیسے پٹ پر سے پھسل کر فرش پر پھیل جاتی ہیں۔ اور پھر میں ان سب کو کمرے کی خوشنودی کی خاطر الماری کے اندر ٹانگ دیتا ہوں۔ اگلے دن پھر کوئی قمیض جانے کیسے پٹ سے لٹک جاتی ہے۔
اس کمرے کی دیوار پر کب سے ایک ٹی وی سیٹ نصب ہے۔ مجھے یاد نہیں کہ آخری بار اس ٹی وی سیٹ پر میں نے کیا دیکھا۔ بیرونی دنیا سے رابطے کا مرغوب ذریعہ لیپ ٹاپ اور موبائل فون ہے۔ کیونکہ ٹی وی آپ کو اپنی تحویل میں لے لیتا ہے۔ آپ کو اندازہ بھی نہیں ہوتا کہ اس ایڈیٹ باکس کو تکتے تکتے کتنا وقت بیت گیا اور جب آف کیا تو کچھ یاد نہیں رہتا کہ کیا سنا،کیا دیکھا ، کیوں سنا اور دیکھا۔
جب کہ لیپ ٹاپ اور موبائل پر آپ کا نسبتاً کنٹرول رہتا ہے۔ کون سا مباحثہ یا ریلیٹی شو کب دیکھنا ہے ، کتنا دیکھنا ہے۔ کس کال کا فوری اور کس کا ٹھہر کے جواب دینا ہے۔ یہ سب آپ کی دسترس میں ہے،مگر یہ دسترس خودبخود پیدا نہیں ہوتی۔ اسے اپنے آپ پر نافذ کرنا پڑتا ہے۔ ذرا سی ڈھیل ملی نہیں اور یہ آلات سر پر چڑھے نہیں۔
کمرے میں میرا بستر ہی میرا دفتر بھی ہے۔ اس کے نصف حصے پر میں سوتا ہوں اور باقی نصف پر چند خالی کاغذات، کچھ کچے پکے مسودے اور دو تین ادھ پڑہی کتابیں نیم وا آنکھوں کے ساتھ سوتی جاگتی ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے تک آدھے سے زیادہ کمرے پر کتابوں کا تسلط تھا۔ مگر میں نے ایک روز انھیں زبردستی ڈرائنگ روم میں ان کی الماری رہائش گاہیں بنا کر منتقل ہونے پر آمادہ کر لیا۔ شاید وہ اس ہجرت سے خوش نہیں۔ جب تک یہ کتابیں میرے کمرے میں تھیں تو آسانی سے دکھائی دے جاتی تھیں۔ اب ڈرائنگ روم میں جا کے تلاش کرتا ہوں تو ایک دوسرے کے پیچھے چھپ جاتی ہیں اور دکھائی دے بھی جائیں تو انھیں پکڑتے ہی انگلیوں پر گرد اپنے نشانات چھوڑ دیتی ہے۔ مگر میں ان کتابوں کی فطرت سے واقف ہوں۔ ان کی جذباتی بلیک میلنگ میں آ کر پھر سے اپنے کمرے میں منتقل نہیں کروں گا۔
جب سے کتابیں منتقل ہوئی ہیں۔ کمرے کی دیواروں پر بھی بشاشت کی ہلکی سی لہر محسوس ہوتی ہے۔ دو ماہ پہلے جانے کیا دماغ میں آیا کہ میں نے اپنے اس دوست کی دیواروں اور چھت پر تازہ پینٹ کروا دیا۔ مگر پھولوں والی دیواری پینٹنگ کو نہیں چھیڑا تاکہ ماضی کا حال سے کچھ تو رشتہ برقرار رہے۔ کمرہ پہلے سے زیادہ بڑا لگنے لگا۔ شاید دیواروں کو نیا پہناوا اچھا لگا تب ہی ان سے فراخی چھلک رہی ہے۔
ایسا نہیں کہ میں دوسرے کمرے یا لاؤنج کا خیال نہیں رکھتا۔ ان کی بھی ویسے ہی دیکھ بھال کی کوشش کرتا ہوں جتنی اپنے کمرے کی۔ مگر کبھی کبھی جب میں دوسرے کمرے یا لاؤنج کی تشفی کے لیے ان کے درمیان جا کے بیٹھتا ہوں تو وہاں کی دیواریں طنزیہ مسکراہٹ سے استقبال کرتی ہیں ’’کہیے کیسے زحمت کی۔ آج ہماری یاد کیونکر آ گئی۔ سب خیریت تو ہے‘‘۔ ایک بار میں نے جھنجلا کر ان سے کہا کہ شکر کرو میں تمہارے ساتھ رہتا ہوں۔ تصور کرو جون ایلیا کے ساتھ تمہیں رہنا پڑ جاتا تو کیا ہوتا۔
فرش پے کاغذ اڑتے پھرتے ہیں
میز پر گرد جمتی جاتی ہے
کون اس گھر کی دیکھ بھال کرے
روز اک چیز ٹوٹ جاتی ہے
میری اس طرح کی جھنجلاہٹ دیکھ کر کبھی کبھی دیواریں سہم جاتی ہیں۔ پھر ان کا موڈ درست کرنے کے لیے مجھے اپنے دوست فاضل جمیلی کی ایک اکتائی ہوئی نظم سنانا پڑتی ہے اور یقین دلانا پڑتا ہے کہ میں تمہیں تنہا نہیں چھوڑوں گا نہ اکتاؤں گا۔ تم جیسے بھی ہو بہت اچھے ہو۔ میں ایسی نظمیں نہیں کہوں گا کہ ،
مجھے کمرہ بدلنا ہے
یہ سیلنگ فین بوڑھا ہو چکا ہے ، کھانستا رہتا ہے راتوں کو
مجھے گھڑیال کی یہ بے تکی ٹک ٹک بھی اب اچھی نہیں لگتی
یہ دیواریں ادھڑتی جا رہی ہیں ، جس طرح بنیان ادھڑتی ہے
یہ دروازے یہ روشن دان اک دوجے سے لڑتے ہیں
چٹائی اور تکیے کی بھی آپس میں نہیں بنتی
ہواؤں سے لرزتی کھڑکیوں کو اور کتنے دن تسلی دوں
سجی ہیں شیلف میں یا جا بجا بکھری ہوئی ہیں اب
نہیں ہے ان کتابوں سے کوئی بھی گفتگو میری
یہ آئینہ کمینا مجھ سے کہتا ہے
تمہارا عکس دھندلا ہے
وجودِ نامکمل ہو
تمہاری ذات اب ٹوٹے ہوئے اس فرش جیسی ہے
یہ استرکاریاں کر کے جو تم گھر سے نکلتے ہو
اداکاری تو کرتے ہو
کہوں کیا اس کمینے سے کہ میں ایسا نہیں تھا ، ہو گیا ہوں
مجھے اس بے یقینی سے نکلنا ہے
مجھے کمرہ بدلنے دو مجھے کمرہ بدلنا ہے
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)
یہ بھی پڑھیں:
قصور خان صاحب کا بھی نہیں۔۔۔وسعت اللہ خان
اس جملے کو اب بخش دیجئے ۔۔۔وسعت اللہ خان
کیا آیندہ کو پھانسی دی جا سکتی ہے ؟۔۔۔وسعت اللہ خان
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر