دسمبر 19, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ارطغرلوں کی صدارتی نظام کے لیے ضِد||فضیل اشرف قیصرانی

اسی طرح پاکستان صرف پارلیمانی نظام پر مبنی وفاق نہیں بلکہ پاکستان کا یہ نظام صوبوں کے مابین اُن متفق الہیہ نظام ہاۓ میں سے ہے جس میں کسی بھی قسم کی تبدیلی بنا صوبوں کے اصل نمائیندگان کی رضا مندی کے ایک ایسا عمل ہو گا جو صوبوں کو وفاق سے بہت دور لے جاۓ گا۔سو تجربات سے اجتناب حضور کہ آپ کے تجربوں سے آپ کا جانا کچھ نہیں اور ہمارا رہنا کچھ نہیں۔

فضیل اشرف قیصرانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انسانی رویے کی تشکیل میں کئ عناصر کام آتے ہیں، جن میں سے ایک انسان کا سیاسی رویہ بھی ہے۔مذہب کے بعد یہ سیاسی رویہ ہی ایک ایسی چیز ہے جس سے فرد کا ایک نظریاتی اور جذباتی تعلق بھی استوار ہوتا ہے۔انسان اپنے سیاسی نظریات کو اس قدر عزیز رکھتا ہے کہ اپنے سیاسی نظریات کے دفاع کی خاطر وہ مباحثے اور مناظرے کے میدان میں اپنے نظریات کی ترویج اور انکی حقیقت کی بابت دیگر لوگوں کو اپنے نظریے کی جانب مائل کرنے کی کوشش میں مصروف رہتا ہے۔
اب چونکہ قلعہ بندی، جنگ و جدل، گھیراؤ، جلاؤ اور پتھراؤ کا دور جاتا رہا سو اب کے اپنے نظریات کی ترویج میڈیا، اعلانات اور سوشل میڈیا کے اصل اور چور راستوں سے کی جاتی ہے کہ اب کے اصل محاز بنام “پُشتِ پنجم کی جنگ” کا ہے اور مجاہدین کی بورڈ تھانے نھنے مُنے ارطغرل۔سو اب کے پشتِ پنجم کا پانی پت “پاکستان میں صدارتی نظام” ہے اور مجاہدین وہی کی بورڈ، یو ٹیوب چینل والے اور سیاسی تربیت سے عاری ہجوم۔
صدارتی نظام کی بحث میں جانے سے پہلے پاکستان کے زمینی حالات سے آشنائ ہونا بہت ضروری ہے جو کے صدارتی نظام کے نام لیواؤں میں سے بہتوں کو نہیں۔پارلیمانی نظام کے بر عکس جہاں مختلف نمائیندگان ووٹ لے کر ایک اسمبلی وجود میں لاتے ہیں وہاں صدارتی نظام میں ایک فرد تمام انتخابی کالج (عوام) سے ووٹ لینے کے بعد اپنی کابینہ کا انتخاب عمل میں لاتا ہے اور اسکے بعد تمام تر اقتدار و اختیار فردِ واحد میں تفویض ہو جاتا ہے۔کہنے کو تو یہ بھی ایک جمہوری عمل ہی ہے مگر ہمارے جیسے ملک میں جہاں جمہوریت ہر جانب سے دشمنوں میں گھری ہے وہاں صدارتی نظام اپنی روح کے تحت کام کرے گا، اسکی ذمہ داری کون لینے کو تیار ہے؟
دوئم، پاکستان صرف وفاق کا نام نہیں بلکہ وفاقی اکائیوں پر مشتمل ایک وفاق کا نام ہے۔وفاق کو صوبوں کے مابین معائدے کے نتیجے میں وجود میں لایا گیا۔یعنی وفاق صوبوں پر قائم ہے، وفاق پر صوبے نہیں۔اب کہنے سُننے کو تو یہ بات بھلی معلوم پڑتی ہے کہ ہم سب بھائ ہیں مگر بھائ بھی ایک معائدے کے تحت ساتھ رہتے ہیں اور معائدہ ہوتا ہے برابری کا۔سو وفاقی اکائیوں یعنی بھائیوں کی افرادی قوت میں زمین آسمان کا تفاوت ہے اور اس تفاوت کی گنتی اگر ووٹوں کی تعداد میں کی جاۓ تو شاید بلوچستان پنجاب سے ایک کروڑ سال چھوٹا بھائ کہلاۓ۔اب جب بھائیوں کی عمر میں ایک کروڑ سال کا فرق ہو تو کوئ بتاۓ کہ ایک کروڑ سال چھوٹا بھائ کب اس صدارتی نظام کے تحٹ صدر بنے گا؟
اسی طرح پاکستان صرف پارلیمانی نظام پر مبنی وفاق نہیں بلکہ پاکستان کا یہ نظام صوبوں کے مابین اُن متفق الہیہ نظام ہاۓ میں سے ہے جس میں کسی بھی قسم کی تبدیلی بنا صوبوں کے اصل نمائیندگان کی رضا مندی کے ایک ایسا عمل ہو گا جو صوبوں کو وفاق سے بہت دور لے جاۓ گا۔سو تجربات سے اجتناب حضور کہ آپ کے تجربوں سے آپ کا جانا کچھ نہیں اور ہمارا رہنا کچھ نہیں۔

فضیل اشرف قیصرانی کی مزید تحریرں پڑھیں

About The Author