عفت حسن رضوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مختار مسعود اردو ادب میں نثر کے مخصوص انداز، پاکستانیت اور پاکستان کی سول بیوروکریسی میں خدمت کے لیے کئی حوالے رکھتے ہیں، ان کا ہر حوالہ بھرپور ہے۔ وہ تحریک قیام پاکستان کا حصہ رہے اور مینار پاکستان کی تعمیر کا قصہ ان کے بغیر ادھورا ہے۔
ان کی کتابیں ’آوازِ دوست،‘ ’سفر نصیب،‘’ لوحِ ایام‘ اور ’حرفِ شوق‘ اردو نثر کے خاص توشے ہیں۔
یہاں ناروے میں پاکستان کی پہچان سمجھے جانے والے محمد انور صوفی کی زبانی ان کا ذکر چل پڑا۔ میں بلوچستان میں حال ہی میں ہونے والے بڑے دہشت گرد حملوں پہ تشویش کے روایتی جملے ادا کر ہی رہی تھی کہ صوفی صاحب بولے ’مرحوم مختار مسعود سنہ 85 میں یہاں اوسلو میں ہمارے مہمان تھے، ایک رات کھانے کے بعد بیٹھک لگی تو کہنے لگے، ’میں رات سونے سے قبل یہ دعا کرتا ہوں کہ یااللہ پاکستان میں کبھی تیل نہ نکلے!‘
حاضرین محفل نے تعجب کیا کہ ایک انتہائی محب ِ وطن کی یہ دعا؟ مختار مسعود نے جواب دیا، ’سوئی کے علاقے سے گیس نکلی، اس کے جھگڑے آج تک نہیں نمٹے، تیل نکل آیا تو اختلافات کی کیا صورت ہوگی، واقفان حال خوب جانتے ہیں۔‘
صوفی صاحب بتاتے ہیں کہ اس کے بعد کافی دیر تک مختار مسعود ان ملکوں کے قصے سناتے رہے جہاں توانائی کے قدرتی ذرائع بے تحاشا مگر وسائل کی تقسیم غیر منصفانہ بلکہ بعض ملکوں میں تو سرے سے تھی ہی نہیں۔ اندرونی کمزوری کا یہ نتیجہ کہ اسی خزانے کی وجہ سے عالمی طاقتیں اور علاقائی طاقتیں ان ممالک کو کچا چبا گئیں۔ عراق، لیبیا، نائجیریا ایسے ممالک کی فہرست طویل ہے جہاں قدرت کے خزانے ہیں مگر مقامی لوگ مفلوک حال۔
بلوچستان بھی اس گنتی میں سے ایک ہے جس کی تجوری فطرت و قدرت نے زمینی خزانوں سے بھر رکھی ہے مگر زمین زادے اس نعمت سے اپنی اور ملک بھر کی جیب اور پیٹ بھرنے کے بجائے آپس میں ہی کٹ مر رہے ہیں۔
بلوچستان کے پاس کیا کیا خزانے ہیں اب ذرا پڑھتے جائیں اور سر دھنتے جائیں، اس صوبے میں مستقل بے امنی، صوبے کی نظر انداز ترقی، وفاق کی عدم دلچسپی، ڈمی حکومت، ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی موجودگی اور اندرونی، بیرونی، علاقائی اور عالمی سازشوں کی کچھ کچھ سمجھ آنے لگے گی۔
دنیا میں تانبے اور سونے کے بڑے ذخائر میں سے ایک بلوچستان کے علاقے چاغی میں ہے جس کا نام ریکوڈک ہے۔ 90 کی دہائی میں اس منصوبے کو غیر ملکی کمپنی سے سانجھے داری میں شروع کیا گیا، منصوبے میں پاکستان اور بلوچستان کے حق کا خیال نہیں رکھا گیا اور نتیجہ یہ کہ آج 30 برس بعد بھی یہ منصوبہ عدالتوں اور بند کمرہ اجلاسوں میں ہی طے ہو رہا ہے۔
ریکوڈک سے کچھ ہی دور سینڈک ہے۔ کچھ برس قبل جب بذریعہ سڑک ایران جانا ہوا تھا تب تفتان بارڈر سے پہلے سینڈک چوک سے نکلتی سینڈک شاہراہ کو دور سے دیکھنے کا موقع ملا تھا۔ اندازہ نہ تھا کہ یہ سڑک سونے کے پہاڑ کی جانب جاتی ہے کیونکہ اس وقت بلوچستان کی سڑکوں پہ سفر ایسا ہی تھا جیسے قرون اولیٰ کے زمانے میں چلے گئے ہوں۔
تو سینڈک کے پہاڑ بھی سونے اور تانبے کا ذخیرہ لیے ہوئے ہیں۔ اس کی کان کنی بھی 90 کی دہائی میں ایک چینی کمپنی کو دی گئی جو مختلف وقفوں سے جاری ہے، آج تیس برس سے بھی زیادہ ہوگئے مگر اس سونے چاندی نے کیا بلوچستان کے حالات بدلے؟ جواب ڈھونڈنا اتنا مشکل بھی نہیں۔
چلیں سونا چاندی کھود کر نکالنے کے لیے تو ہم غیر ملکی کمپنیوں اور ماہرین کے آگے مجبور ہیں مگر بلوچستان کے پاس قدرت کا دیا ایک اور خزانہ بھی ہے جسے ڈھونڈنے کے لیے چینی یا آسٹریلوی ماہرین کی ضرورت نہیں اور وہ ہے بلوچستان کی ساحلی پٹی اوڑماڑہ، قلات، پسنی، چھور، گوادر اور جیونی سے لگا گہرا سمندر۔ جس کی آبی حیات نقد مال ہے۔
بلوچستان کے سمندر سے فائدہ بلوچستان والے تب اٹھاتے جب یہاں کسی فیصلہ ساز کی نظر کرم جاتی، کوئی سی فوڈ انڈسٹری بنتی۔ اس نمکین پانی میں تیرتا رزق بلوچستان والوں سے ٹرالر مافیا کیسے چھین رہا ہے، اس کی کہانی گوادر کے مزاحمتی رہنما مولانا ہدایت الرحمٰن بلوچ کی زبانی سنیں۔
ایک خزانے کا نام ہے گوادر کہ جس کی ترقی کی مثالیں ہم اپنے اردگرد ایسے سنتے ہیں کہ ’اگلی نسل دعا دے گی گوادر میں ایک پلاٹ لے کر ڈال دو۔‘
جہاں عالمی معیار کا پورٹ، صنعتی زون، چار ستارہ ہوٹلز، شاندار ساحل، رہائشی سوسائٹیاں، سب بن رہا ہے اور بہت کچھ بن چکا ہے۔
لیکن حال ہی میں گوادر کے مقامی افراد کی شروع کی گئی تحریک ’گوادر کو حق دو‘ نے تصویر کا دوسرا رخ دکھایا ہے۔ وہ رخ جسے ہم نہ دیکھنا چاہتے ہیں نہ دنیا کو دکھانا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ذکر بلوچستان کے اس خزانے کا جس کی کوئی قیمت ہی ممکن نہیں۔ وہ ہیں اس صوبے کے محنتی لوگ، ذہین نوجوان، بہادر بیٹے، نڈر مائیں بہنیں۔ یہ پڑھنا چاہیں تو اعلیٰ تعلیمی ادارے کرفیو زدہ، یہ باعزت روزگارکرنا چاہیں تو ملازمت کے ذرائع نہایت محدود، یہ کھلاڑی بننا چاہیں تو سہولیات سرے سے نہیں، یہ ٹیکنالوجی میں آگے تب بڑھیں جب رابطے اور مواصلات کے ذرائع ان کی دسترس میں ہوں۔ یہ سماجی اور سیاسی شعور کی آواز اٹھائیں تو غدار وطن کہلائیں۔
اب خود ہی بتائیں ایسے خزانوں کا کیا اچار ڈالیں جس سے عام آدمی کی زندگی پہ رتی برابر بھی فائدہ نہ ہو؟
سی پیک آئے یا جائے، چاغی سونا اگلے، گوادر دبئی بن جائے، کچلاک کے باغ سیب اور انگور سے لد جائیں، یا کوئٹہ کے مضافات میں زیتون کی شاندار فصل تیل کی پیداوار بڑھا دے، ان خزانوں کا فائدہ جب تک مقامی افراد تک نہیں پہنچتا محرومیوں کا یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا۔
یہ بلاگ انڈیپینڈنٹ اردو پر شائع ہوچکاہے
یہ بھی پڑھیے:
کامریڈ خدا حافظ۔۔۔عفت حسن رضوی
ابا جان کی نصیحت لے ڈوبی۔۔۔عفت حسن رضوی
ہزارہ: میں اسی قبیلے کا آدمی ہوں۔۔۔عفت حسن رضوی
خاں صاحب! آپ کو گمراہ کیا جارہا ہے۔۔۔عفت حسن رضوی
فحاشی (وہ مضمون جسے کئی بار لکھا اور مٹایا گیا)۔۔۔عفت حسن رضوی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر