محمود جان بابر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’وہ میری زندگی کا سب سے بھیانک دور تھا۔ ساری ساری رات آنکھوں میں کٹ جاتی۔ دھمکی دینے والے فون کر کے کہتے کہ آج رات انتظار کرنا، تم پورے خاندان سمیت مارے جاؤ گے اور یہ بھی کہ آج کی رات بارود بھری گاڑی تمہارے گھر کی بنیادوں تک کو بیٹھا دے گی۔‘
پشاور کے نوجوان تاجر ہاشم (فرضی نام) نے اپنی کہانی کا آغاز کچھ اس طرح سے کیا۔
’یہی دھمکی آمیز فون کالز تھیں جنھوں نے میری زندگی سے نیند کو رخصت کر دیا۔ میں راتوں کو جاگنے لگا تھا اور دن کو حالت یہ ہوتی کہ میں ہر کسی کو شک کی نگاہ سے دیکھتا، چاہے وہ گلی میں سبزی فروخت کرنے والا ہو، میری دکان میں کام کرنے والے کاریگر یا رشتہ دار۔‘
’مجھے اپنے ارد گرد موجود افراد بھی مشکوک اور بُرے لگنے لگے تھے اور وجہ یہ تھی کہ میری دن بھر کی مصروفیات کی تمام تر تفصیل ان افراد کو معلوم ہوتی تھی جو اکثر رات کو کال کر کے بھتہ طلب کرتے اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں انتہائی سنگین نتائج کی دھمکیاں دیتے۔‘
ہاشم کے مطابق یہ رت جگے اور پورا دن رہنے والے ذہنی دباؤ کا نتیجہ تھا کہ وہ نوجوانی ہی میں ذیابیطس جیسے مرض میں مبتلا ہو گئے۔
ہاشم پشاور کے ان درجنوں تاجروں، صنعتکاروں، ڈاکٹروں اور پراپرٹی ڈیلرز میں سے ایک ہیں جنھیں بھتے کی کالز اور سنگین نتائج کی دھمکیاں ماضی میں بھی آتی تھیں اور آج کل پھر آ رہی ہیں۔
ہاشم اگرچہ نوجوان ہیں مگر کاروباری دنیا میں انھوں نے بہت جلد ایک اونچا مقام حاصل کر لیا تھا اور اُن کی اس ترقی کی خبر کسی نہ کسی طرح بھتہ لینے والوں کو بھی ہو چکی تھی۔ پھر ان جرائم پیشہ افراد نے یہ معمول بنا لیا کہ وہ روزانہ کی بنیاد پر انھیں کال کرتے۔
ہاشم کے مطابق اُن کا ابتدائی مطالبہ ایک کروڑ روپے کی ادائیگی کا تھا مگر پھر یہ رقم ایک لاکھ ڈالر تک کے مطالبے تک پہنچ گئی۔
ہاشم کہتے ہیں کہ اُن کے مطالبے بدلتے رہتے اور ان مطالبوں کو پورا کرنے کے لیے وہ انھیں اچھے کاموں میں مدد کے عوض ثواب ملنے کے حوالے بھی دیتے تھے۔
’جب وہ کال کرتے تو پیسے مانگنے کے لیے ہمیں اسلامی تاریخ سے حوالے بھی دیتے تھے کہ کب کب اور کس کس نے جہاد کے لیے اپنے پورے پورے گھر کا سامان فروخت کر دیا۔ وہ کہتے کہ پیسے دینے سے ہمیں ثواب ملے گا۔ وہ کہتے کہ ہمارے ساتھیوں کی بیوائیں اور یتیم بُرے حال میں ہیں جبکہ تم کروڑوں میں کھیل رہے ہو۔‘
پشاور میں ایک کارخانے کے مالک کو جب ایسی کالز آنا شروع ہوئیں تو وہ بالکل ہی خاموش ہو گئے۔
ان کے جوان بیٹے نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اپنے والد کی ذہنی حالت اور اس کے ان کے گھر پر اثرات کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ بھتہ کالز کے بعد ان کے والد اچانک خاموش رہنے لگے۔
’انھوں نے مجھے بھی تاکید کی کہ اپنے آپ کو بدلنے کی تیاری کرو۔ مجھے پڑھنے جانے کی اجازت بھی کم کم ہی ملتی، جن لڑکوں کے ساتھ دوستی تھی ان پر بھی شک ہونا شروع ہوا۔ ابا جی مجھے کچھ سمجھانا چاہ رہے تھے لیکن وہ کہنا بھی نہیں چاہ رہے تھے۔‘
ہاشم ایسی کالز وصول کرنے والے اکیلی کاروباری شخصیت نہیں اور حالیہ دنوں میں صوبہ خیبرپختونخوا میں بھتہ موصول ہونے کی کالز تواتر سے آنے کی شکایات بڑھی ہیں۔
جان کے خوف کی وجہ سے ایسی کالیں وصول کرنے والے افراد کی بڑی تعداد تو پولیس سے رابطہ ہی نہیں کرتی لیکن اس کے باوجود بھی 2021 کے دوران ایسے 36 معاملات کی ایف آئی آر درج کروائی گئی ہیں جن میں سے زیادہ تر میں پولیس کے مطابق قانونی کارروائی کے بعد مجرمان کو گرفتار بھی کیا گیا ہے اور کچھ کو سزا بھی ہو چکی ہے۔
کاروبار سمیٹ کر پشاور کو خدا حافظ
پشاور میں صنعتوں کی سب سے بڑی انڈسٹریل سٹیٹ حیات آباد کے صدر کا دعویٰ ہے کہ امن و امان کی بنتی بگڑتی صورتحال کے باعث اب تک ان سے منسلک 30 کے قریب کاروباری لوگ اپنا کاروبار سمیٹ کر دوسرے شہروں کو منتقل ہو چکے ہیں جبکہ ان کے ریکارڈ کے مطابق حیات آباد انڈسٹریل سٹیٹ میں چلنے والے کل 530 میں سے تقریباً 250 کارخانے یا تو بند ہو چکے ہیں یا انھوں نے اپنی پیداوار آدھی کر لی ہے اور اس کی وجوہات میں ایک امن و امان کی صورتحال بھی ہے۔
حیات آباد انڈسٹریل کمپلیکس کے صدر ملک عمران اسحاق کہتے ہیں کہ امن و امان کی صورتحال سے نمٹنے کی غرض سے اُن کی ایسوسی ایشن نے پولیس کو گشت کے لیے درکار چھ موٹرسائیکلیں اور ایک کار کے ساتھ ساتھ مزید نفری بھرتی کرنے میں بھی مدد فراہم کی ہے تاکہ تاجر برادری کو محفوظ کیا جا سکے۔
تاہم ان کے مطابق ان اقدامات کے باوجود صورتحال میں زیادہ بہتری نہیں آ سکی۔
‘ہم نے آئی جی پولیس کو بھی اس حوالے سے تمام تفصیلات مہیا کی ہیں لیکن معلوم نہیں کیوں صورتحال ہر گزرتے دن کے ساتھ خراب تر ہوتی جا رہی ہے۔’
عمران اسحاق کہتے ہیں کہ بھتہ طلب کرنے والے یہ سمجھتے ہیں کہ کارخانوں کے مالک بہت مالدار لوگ ہیں، مگر ایسا بالکل بھی نہیں کیونکہ زیادہ تر کارخانہ دار اپنی سفید پوشی کا بھرم قائم رکھے ہوئے ہیں اور ان کے پاس بھتہ خوروں کو دینے کے لیے رقم بالکل نہیں ہوتی۔
عمران اسحاق کہتے ہیں کہ ان کے ریکارڈ کے مطابق حیات آباد انڈسٹریل سٹیٹ سے منسلک تیس سے پینتیس کارروباری شخصیات اپنے کارخانے بند کر کے پنجاب کے شہروں یا بیرون ممالک منتقل ہو چکے ہیں۔
‘وجہ یہ ہے کہ ایک طرف یہ بھتہ خور تنگ کرتے ہیں اور دوسری جانب حکومت بھی ٹیکس دینے والے کارروباری طبقے کو شک ہی کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔’
بھتہ کون مانگ رہا ہے اور پولیس کیا کر رہی ہے؟
کسی بھی منظم گروہ کی جانب سے لوگوں سے دھونس اور دھمکی کے ذریعے ماہانہ یا سالانہ بنیادوں پر رقم کی وصولی کو بھتہ کہتے ہیں۔
آئی جی معظم جاہ انصاری کا کہنا ہے کہ بھتہ دہشت گرد تنظیموں کی جانب سے معاشرے کے ان لوگوں سے پیسہ لینا ہے جن کے بارے میں ان کا خیال ہو کہ وہ منافع کما رہے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ پہلے جنوبی وزیرستان، بنوں وغیرہ سے اس نوعیت کی رپورٹس آتی تھیں اور پشاور اورگردونواح کے علاقوں میں بھی لوگوں کو افغانستان سے بھتے کے لیے کالز موصول ہوتی ہیں جس کے لیے افغانستان کے کوڈ والے نمبرز استعمال کیے جاتے ہیں۔
‘مجھے خیبر پختونخوا کے آئی جی کے طور پر کام کرتے ہوئے ساڑھے چار ماہ ہوگئے ہیں، اس عرصے میں ایسا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا کہ بھتہ نہ دینے پر کسی کو نقصان پہنچایا گیا ہو۔ سی ٹی ڈی نے بہت سارے لوگوں کو گرفتار کیا ہے جن کو عدالت سے سزائیں دلوانے کی کوششیں کی جاری ہے۔ حالات اتنے برے بھی نہیں جتنا لوگ سمجھ رہے تھے۔’
یہ بھی پڑھیے
انھوں نے کہا کہ یہ ضرور ہے کہ جنوبی اضلاع سے اس قسم کی شکایات آئی ہیں کہ ادائیگی نہ کرنے والوں کی کسی بلڈنگ یا گاڑی کو نقصان پہنچایا گیا۔ ‘جنوبی وزیرستان اور ٹانک میں اس قسم کے ایک دو واقعات ہوئے ہیں لیکن ہم نے بھی ان واقعات پر ایکشن لیا ہے اور بہت سے لوگ گرفتار بھی ہوئے ہیں۔’
خیبرپختونخوا میں خصوصی فورس سی ٹی ڈی یعنی کاونٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ ڈی آئی جی جاوید اقبال کا کہنا ہے کہ بھتہ خور یا تو افغان سم استعمال کرتے ہیں اور یا ان کالز کے لیے گیٹ وے استعمال کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن میں حکومت سے چھٹکارے کیلئے تمام آپشن استعمال کرنے پر اتفاق
ڈی آئی جی جاوید اقبال کا کہنا ہے کہ پہلے بھتہ مانگنے والے کالز کرتے تھے اب وہ واٹس ایپ کے نمبر بھی استعمال کرتے ہیں جس کی وجہ سے ان تک پہنچنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ تاہم انھوں نے دعویٰ کیا کہ اس کے باوجود گذشتہ سال یعنی 2020 میں اپریل سے لے کر رواں سال فروری تک ہونے والے بھتہ خوری کے تمام وقوعے ٹریس ہو چکے ہیں جن میں ٹی ٹی پی اور داعش ملوث پائے گئے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ البتہ ایسا ہے کہ داعش کا نام تحریک طالبان سوات کے لوگ استعمال کرتے ہیں۔
خیبرپختونخوا کے کارروباری طبقے کے نمائندوں کے مطابق پشاور اورگردونواح میں اب تک بھتہ خوروں کی جانب سے جن افراد کو کالز کی گئی ہیں ان کی جانب سے مطالبہ پورا نہ ہونے پر ان میں سے چند کے گھروں، کارخانوں، کاروباری جگہوں اور دفاتر پر بموں کے حملے اور فائرنگ کی گئی ہے۔
اس بارے میں ڈی آئی جی جاوید اقبال کہتے ہیں کہ ماضی میں بھتہ خوروں کی جانب سے سابق ایم این اے ناصر خان کے گھر، سی این جی پمپ اور پشاور میں گھر میں حملے کیے گئے جبکہ سکولوں اور یونیورسٹیوں کے مالکان کو بھی دھمکیاں ملیں جن میں استعمال ہونے والی ایک ہزار سے زائد افغان سمیں اور 130 پاکستانی فون نمبر شامل رہے۔
تحریک طالبان پاکستان اور بھتہ وصولی
پاکستان میں ٹی ٹی پی کے ترجمان محمد خراسانی سے اس جرم میں ان کی تنظیم کا نام آنے کی بابت رائے مانگی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ ان کی تنظیم عام لوگوں سے بھتہ لینے کے عمل کو مکمل طور پر غیرشرعی سمجھتی ہے اور شکایات موصول ہونے پر کچھ لوگوں کو تنظیم کی عدالتوں سے سزائیں بھی دلوائی جا چکی ہیں۔
محمد خراسانی پاکستان میں خصوصاً خیبرپختونخوا اورسابقہ فاٹا میں فورسز اور حکومتی اہلکاروں پر حملوں میں ملوث تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان ہیں اور ان کی تنظیم کی جانب سے ستمبر کے مہینے میں ایسے 37 حملے کیے جا چکے ہیں۔
محمد خراسانی کا کہنا ہے کہ بھتے کے اس کاروبار میں ان کا نام پاکستانی سکیورٹی اور انٹیلیجنس اداروں کی وجہ سے آ رہا ہے جو ان کو بدنام کر کے ان کے اور عام لوگوں کے مابین دوریاں پیدا کرنا چاہتی ہیں۔
مقامی لوگوں کی خاموشی اور خفیہ ادائیگیاں
ڈی آئی جی جاوید اقبال کا کہنا ہے کہ بھتے کے طور پر ادا ہونے والی رقوم کی وصولی پاک افغان سرحد طورخم اور دبئی میں ہوتی تھی لیکن آج کل اس نوعیت کی کوئی ادائیگی نہیں ہوتی۔
تاہم بھتے کی کالیں وصول کرنے والے افراد پولیس کے اس موقف سے اتفاق کرتے دکھائی نہیں دیتے اور ان میں سے بہت سے افراد کا یہی موقف ہے کہ شہر کے کچھ تاجر پولیس اور کسی اور کو بتائے بغیر ماہانہ یا سالانہ یہ رقم ادا کرنے کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔
دشمنیوں اور کاروباری رقابتوں کا بھتے میں کردار
کیا بھتے کے لیے موصول ہونے والی تمام کالز کالعدم تنظیموں کے نمائندے کرتے ہیں، اس سوال کے جواب میں ڈی آئی جی جاوید اقبال کا کہنا تھا کہ ساری کالز بھتے کی ہوتی تو ہیں لیکن بعض کالز کرنے والوں کو گرفتار کر کے جب تفتیش کی گئی انھوں نے انکشاف کیا کہ انھوں نے ایسا کارروباری مخالفین کے کہنے پر کیا اور اکثر اس کے پیچھے کاروبار ی رقابت بھی ہوتی تھی۔
انھوں نے کہا خصوصاً موجودہ ضلع مہمند اور سابقہ مہمند ایجنسی کے ساتھ ساتھ باجوڑ میں بھی معدنیات کے کچھ بیوپاریوں نے اپنے کاروباری مخالفین کے ساتھ ایسا کیا تھا۔
‘وفاقی وزارتوں کو خیبر پختونخوا کی مدد کرنی چاہیے’
گذشتہ دو دہائیوں کے دوران پشاور میں دہشت گردی اور جرائم کی رپورٹنگ و تجزیہ کرنے والے سینیئر صحافی جاوید عزیز خان کہتے ہیں کہ اس علاقے میں بھتہ دہشت گردی کے ساتھ ہی وارد ہوا تھا اور اس کی شدت سب سے زیادہ سنہ 2009 سے سنہ 2012 تک بہت زیادہ تھی اور اس دوران نہ صرف گھروں کو بموں سے اڑایا گیا بلکہ بہت سے لوگوں کی جانیں بھی گئیں۔
انھوں نے کہا کہ اب پھر ان کالز کا سلسلہ شروع ہوا ہے اور اس نوعیت کی بہت ساری شکایات آ رہی ہیں۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ گذشتہ دنوں بم ڈسپوزل سکواڈ نے پشاور میں ایک کار شو روم کے باہر نصب کیے گئے دو کلوگرام وزنی بم کو ناکارہ بنایا گیا تھا اور اس کے متعلق کہا جا رہا ہے کہ اس کار سینٹر کے مالک سے بھتہ مانگا تھا۔
انھوں نے کہا کہ اس جرم کی موجودہ لہر پہلے کی طرح بہت زیادہ پُرتشدد تو نہیں ہے لیکن کالز کی تعداد بہت زیادہ ہے اور بہت لوگ شکایت کر رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ پولیس خصوصاً سی ٹی ڈی کے پاس بہت ساری شکایات آئی ہیں جن کو روزنامچہ رپورٹ کے طرز پر درج کیا گیا ہے حالانکہ بہتر تفتیش اورنتائج کے لیے ان کی ایف آئی آرز درج ہونی چاہییں۔
انھوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا کے بیشتر پولیس افسران بتاتے ہیں کہ بیرون ملک سے آنے والی بھتے کی کالز کے لیے وزارت داخلہ اور وزارت خارجہ سے مدد ملنی چاہیے تاکہ ان ممالک سے بھی بات کی جا سکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بشکریہ : بی بی سی اردو ڈاٹ کام
یہ بھی پڑھیے:
افغانستان، جنگ کے پلٹتے سائے۔۔۔ محمود جان بابر
کانچ کا وجود اور پتھر سے دشمنی۔۔۔ محمود جان بابر
پاکستان میں افغانوں کے چالیس سال ۔۔۔ محمود جان بابر
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ