رانا ابرار خالد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنے گزشتہ کالم کے اندر میں نے انکشاف کی تھا کہ وفاقی سیکرٹری برائے کابینہ ڈویژن سردار احمد نواز سکھیرا نے توشہ خانہ کیس (وزیر اعظم عمران خان غیرملکی تحائف کیس) سے جڑے خود مختار ریاستی ادارے کے ایک اہم رکن کو دھمکی دی کہ ’وفاقی حکومت سے بڑا بدمعاش کوئی نہیں ہو سکتا‘، یہ الگ بات کہ انہوں نے اس دھمکی کو سنجیدہ نہیں لیا اور 20 جنوری 2022 کو پاکستان انفارمیشن کمیشن نے نوٹس جاری کر کے ڈپٹی سیکرٹری کابینہ ڈویژن/ انچارج توشہ خانہ کو 3 فروری کے لئے مع ریکارڈ طلب کر لیا تھا۔
گزشتہ روز پاکستان انفارمیشن کمیشن میں کیس کی سماعت کے دوران کیا ہوا، اس کا احوال میں آپ کو آگے چل کر بتاؤں گا۔ اس سے پہلے یہ بتانا ضروری ہے کہ 20 جنوری کے بعد توشہ خانہ کیس کے حوالے سے دو اہم واقعات رونما ہوئے، اول یہ کہ وفاقی حکومت نے اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے محمد احد صاحب کو ڈپٹی سیکرٹری (کوآرڈی نیشن) کابینہ ڈویژن/ انچارج توشہ خانہ کے عہدے سے ہٹا کر ان کا تبادلہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن میں کر دیا اور ان کی جگہ عامر انصاری کو ڈپٹی سیکرٹری (کوآرڈی نیشن) کابینہ ڈویژن/ انچارج توشہ خانہ تعینات کیا گیا، دوسرا یہ کہ پاکستان انفارمیشن کمیشن میں توشہ خانہ کیس (وزیراعظم عمران خان غیرملکی تحائف کیس) کی فائل اچانک غائب ہو گئی، چیف انفارمیشن کمشنر محمد اعظم خان نے اتنے اہم کیس کی فائل اچانک غائب ہونے پر سٹاف کی دوڑیں لگوا دیں مگر فائل کہیں نہ ملی۔
بالآخر کمیشن نے فیصلہ کیا کہ اپیل کنندہ (رانا ابرار خالد) اور مسؤل علیہم (کابینہ ڈویژن) کی معاونت سے مقدمے کی فائل دوبارہ تیار (ری کنسٹرکٹ) کی جائے۔ یہ الگ بات کہ کمیشن کی طرف سے رابطہ کیے جانے پر میں نے اپنے پاس موجود فائل کی کاپی بروقت پاکستان انفارمیشن کمیشن کو فراہم کردی، تاہم یہ سوال اب بھی موجود ہے کہ کمیشن میں فائل واقعی گم ہوئی تھی یا پھر چوری کروائی گئی؟
خیال رہے یہ وہی فائل تھی جسے چوری کرنے کے لئے 28 ستمبر 2021 کو تین خواتین لیڈی ہیلتھ ورکرز بن کر ڈینگی سروے کی آڑ میں میرے گھر پہ وارد ہوئی تھیں، میں اس وقت سویا ہوا تھا اور میری بوڑھی والدہ کو باتوں میں لگا کر انہوں نے گھر کی تلاشی لینے کی حتی الامکان کوشش کی تھی، اچھا ہوا کہ ان کی آواز کانوں میں پڑتے ہی میری آنکھ کھل گئی اور میری جانب سے شناختی کارڈ طلب کرنے پر وہ رفو چکر ہو گئی تھیں۔ ان کے گھر سے باہر جاتے ہی مجھے پہلا خٰیال یہی آیا تھا کہ توشہ خانہ کیس کی فائل اپنی جگہ پر موجود ہے یا نہیں، شکر ہے کہ الماری کو تالہ لگا ہوا تھا اور فائل اپنی جگہ موجود تھی۔
بعد ازاں موقر ویب سائٹ ’انڈیپنڈنٹ اردو ڈاٹ کام‘ کے سینئر صحافی عبداللہ جان نے اور ایجنسیاں فرانس پریس (اے ایف پی) نے اپنی خبر میں سینئر ایگزیکٹو ڈائریکٹر نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ کا حوالہ دیتے ہوئے انکشاف کیا کہ ستمبر 2021 میں نہ صرف اسلام آباد بلکہ پورے پاکستان میں کوئی ڈینگی سروے نہیں کروا گیا تھا۔
اس کے بعد میں نے توشہ خانہ کیس کی فائل کی ایک سے زائد کاپیاں بنوا کر مختلف مقامات محفوظ کر دیں اور سافٹ کاپی بیرون ملک مقیم اپنے ایک دوست کو بھجوا دی تاکہ بوقت ضرورت کام آ سکے۔ آج میں سوچتا ہوں اگر 28 ستمبر 2021 کو مذکورہ بالا مشکوک خواتین توشہ خانہ کیس کی فائل اڑانے میں کامیاب رہتی تو ہم بے دست و پا ہوچکے ہوتے اور وزیراعظم عمران خان نے اپنے دور حکومت کے دوران غیرملکی میں کتنے تحائف وصول کیے، کتنے خود رکھے اور کتنے توشہ خانہ میں جمع کروائے، جو تحائف عمران خان نے خود رکھے ان کی کتنی قیمت ادا کی اور کس بینک اکاؤنٹ سے رقم کی ادائیگی ہوئی، یہ ساری معلومات ملنے کی امیدیں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دم توڑ جاتیں۔
گزشتہ روز ( 3 فروری 2022 کو ) پاکستان انفارمیشن کمیشن میں توشہ خانہ کیس (وزیراعظم عمران خان غیرملکی تحائف کیس) کی سماعت ہوئی، میرے وکیل رانا عابد نذیر خاں مکمل تیاری کے ساتھ وقت سے پہلے موجود تھے، انہوں نے بھرپور انداز میں تینوں کمشنر صاحبان (محمد اعظم خان، چیف انفارمیشن کمشنر، زاہد عبداللہ انفارمیشن کمشنر اور فواد ملک انفارمیشن کمشنر) کے روبرو اپنے دلائل بھرپور انداز میں پیش کیے کہ 8 دسمبر 2021 کو حکومتی پٹیشن کی سماعت کے دوران اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب واضح ریمارکس دے چکے ہیں کہ عدالت عالیہ نے توشہ خانہ کیس (وزیراعظم عمران خان غیرملکی تحائف کیس) کے حوالے سے کوئی سٹے آرڈر جاری نہیں کر رکھا جبکہ پاکستان انفارمیشن کمیشن اپنے (وزیراعظم عمران خان کے غیرملکی تحائف کی تفصیل فراہم کرنے کے 27 جنوری 2021 کے ) فیصلے پر عملدرآمد کے لئے مکمل طور پر با اختیار ہے۔
رانا عابد نذیر خاں ایڈووکیٹ نے مزید کہا کہ حکومت معلومات کی فراہمی میں مسلسل تاخیری حربے استعمال کر رہی ہے، کمیشن کو فیصلے پر عملدرآمد نہ کرنے پر (معلومات تک رسائی کے ایکٹ 2017 کے تحت) کابینہ ڈویژن کے خلاف راست اقدام میں مزید تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ اس کے برعکس وفاقی حکومت کی نمائندگی کرنے والے نئے تعینات شدہ ڈپٹی سیکرٹری (کوآرڈی نیشن) کابینہ ڈویژن/ انچارج توشہ خانہ عامر انصاری نے وہی رٹا رٹایا بیان دیا کیونکہ حکومت کی رٹ پٹیشن اسلام آباد ہائیکورٹ میں زیر التوا ہے لہٰذا ہائیکورٹ کے فیصلے کا انتظار کیا جائے، رانا عابد نذیر خاں ایڈووکیٹ نے جوابی دلیل پیش کی، اگر ہائیکورٹ کا فیصلہ پانچ سال تک نہ آئے تو کیا یہ کمیشن پانچ سال تک انتظار کرے گا جبکہ وفاقی حکومت یہی چاہتی ہے کہ جب تک وزیراعظم عمران خان کی آئینی مدت پوری نہیں ہوتی انہیں ملنے والے غیرملکی تحائف کی معلومات فراہم نہ کی جائے۔
اس موقع پر انفارمیشن کمشنر فواد ملک نے ریمارکس دیے کہ اگر معلومات تک رسائی کے ایکٹ 2017 میں مزید اپیل کی گنجائش ہوتی اور وفاقی حکومت ہائیکورٹ میں اپیل لے کر گئی ہوتی تو صورتحال دوسری ہوتی، اس کے برعکس رٹ پٹیشن کا معاملہ یکسر مختلف ہے اور رٹ پٹیشن کا دائرہ کار بھی کافی مختصر ہوتا ہے، ہائیکورٹ (پاکستان انفارمیشن کمیشن کے) فیصلے میں قائم کی گئی رائے کو اور میرٹ کو غلط قرار نہیں دے سکتی، ہائیکورٹ صرف اس بات کا جائزہ لے سکتی ہے کہ کہیں پٹیشنر کا قانونی حق تو سلب تو نہیں ہوا ہے۔
لہٰذا جب تک ہائیکورٹ واضح سٹے آرڈر جاری نہ کرے اس وقت تک ہمارے لیے کوئی قدغن نہیں ہو سکتی۔ دوران سماعت میری طرف سے نکتہ اٹھایا گیا کہ وفاقی حکومت کی طرف سے اسلام آباد ہائیکورٹ میں جو رٹ پٹیشن دائر کی گئی ہے اس میں پاکستان انفارمیشن کمیشن کے (وزیراعظم عمران خان کے غیرملکی تحائف کی تفصیل فراہم کرنے کے 27 جنوری 2021 کے ) فیصلے کو چیلنج کیا گیا، جبکہ پاکستان انفارمیشن کمیشن اس سے قبل ہی میری طرف سے 24 فروری 2021 کو دائر کی گئی توہین عدالت کی درخواست پر 8 جون 2021 کے لئے ڈپٹی سیکرٹری (کوآرڈی نیشن) کابینہ ڈویژن/ انچارج توشہ خانہ کو شوکاز نوٹس جاری کر چکا تھا اور مذکورہ تاریخ کو توہین عدالت کی درخواست پر سماعت بھی ہوئی تھی (جس میں مذکورہ افسر نے ایک اور پینترا کھیلتے ہوئے وقت سے پہلے پہنچ کر ایک غیر متعلقہ کاغذ کمیشن کے حوالے کیا اور کہا کہ اس میں وزیراعظم عمران خان کے غیرملکی تحائف کی مانگی گئی ساری معلومات موجود ہیں)، اس کے برعکس وفاقی حکومت نے 15 ستمبر 2021 کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں دائر کی جانے والی اپنی رٹ پٹیشن میں توہین عدالت کے اس شوکاز نوٹس کو معطل کرنے کی کوئی استدعا ہی نہیں کی، لہٰذا کمیشن اپنے فیصلے پر عدم عملدرآمد پر ڈپٹی سیکرٹری (کوآرڈی نیشن) کابینہ ڈویژن/ انچارج توشہ خانہ کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی جاری رکھ سکتا ہے اور جاری رکھنی بھی چاہیے۔
میری طرف سے کمیشن کے روبرو یہ بھی استدعا کی گئی کہ معلومات تک رسائی کا ایکٹ 2017 واضح طور پر کہتا ہے کہ تمام سرکاری محکمے کسی بھی شہری کی طرف سے مانگی گئی معلومات کم سے کم دس روز اور زیادہ سے زیادہ بیس روز کے اندر فراہم کرنے کے پابند ہیں جبکہ مجھے کابینہ ڈویژن نے پچھلے پندرہ ماہ سے قانونی موشگافیوں میں پھنسا رکھا ہے، کبھی وزیراعظم نواز شریف کے پرنسپل سیکرٹری فواد حسین فواد کا 2015 کا خط سامنے لے آتے ہیں تو کبھی ہائیکورٹ کے پیچھے چھپنے کی کوشش کرتے ہیں، جس کی وجہ سے معلومات تک رسائی کے میری حق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے، براہ مہربانی کمیشن اس کا ازالہ کرے۔
تقریباً ایک گھنٹے کی سماعت کے بعد پاکستان انفارمیشن کمیشن نے اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا اور آئندہ چند روز میں جاری کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ مگر توشہ خانہ کیس کے کئی اہم پہلو اب بھی اندھیرے میں ہیں، کیونکہ پاکستان انفارمیشن کمیشن نے بروقت فیصلہ کر کے مقدمے کی فائل تو دوبارہ تیار (ری کنسٹرکٹ) کر لی، تاہم خیال رہے کہ جو حکومت ایک خود مختار ریاستی ادارے سے اہم ترین اور حساس مقدمے کی فائل چوری کروا سکتی ہے وہ کمیشن کو دباؤ میں لانے کے لئے کیا کچھ نہیں کر سکتی، بحیثیت صحافی ہمارے پاس کئی ایسی خفیہ معلومات ہوتی ہیں جو آف دی ریکارڈ ہمیں مل تو جاتی ہیں لیکن معلومات دینے والے کی زندگی کو محفوظ رکھنے یا اسے دیگر نقصان پہنچنے کے اندیشے کے پیش نظر ہماری زبانوں پر تالے اور ہاتھوں میں زنجیریں پڑ جاتی ہیں۔ جبکہ وفاقی سیکرٹری کابینہ ڈویژن سردار احمد نواز سکھیرا تو پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ وفاقی حکومت سے بڑا بدمعاش کوئی نہیں ہو سکتا ۔ مگر اچنبھے کی بات یہ ہے کہ موجودہ حکومت بدمعاش نہیں بلکہ چور نکلی!
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر