نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ڈیل تو ہوئی ھے لیکن کس کی ؟ || آصف احمدانی

ساریں گالہیں دی ہکا گال ۔ جب تحریک انصاف کا اہم رہنما اسد عمر یہ کہے کہ نواز شریف کو سو فیصد عمران خان کے کہنے پر علاج کے لیے لندن جانے دیا گیا ھے تو سمجھو نہیں بلکہ یقین کر لو ڈیل ہوئی ھے ۔

آصف احمدانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

ڈیل ڈیل ڈیل بہت دنوں سے یہ شور آپ سن رہے ہوں گے ۔ کہ پیپلز پارٹی نے ڈیل کر لی ھے ۔ یہ الزام پیپلز پارٹی پر ان حلقوں کی طرف سے لگایا گیا ھے ۔ جن کی اپنی کوئی کریڈبیلٹی نہیں ھے ۔
مثلا ن لیگ اور میڈیا کی طرف سے ۔

نمبر ایک ہم میڈیا پر بات کر لیتے ہیں ۔ اگر آپ بظاہر غور اور مطالعہ کریں تو میڈیا ہاؤسز اور ان میں بیٹھے اینکر پرسن اور تجزیہ نگار دو حصوں میں بٹے ہوئے ہیں ۔
ایک حصہ مکمل طور پر ن لیگ کی فیور کرتا ھے ۔
اور دوسرا حصہ عمران خان کی فیور کرتا ھے ۔
دو بڑے چینل اے آر وائی اور سما نیوز عمران نیازی اور اسٹیبلشمنٹ کی فیور کرتے ہیں ۔
جیوو اور دنیا نیوز نواز شریف کی فیور کرتے ہیں ۔
ان میڈیا ہاؤسز میں بیٹھے تجزیہ نگار اور اینکر پرسن کے آپ سوشل میڈیا کے اکاؤنٹ دیکھیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ یہ صحافی کم اور ن لیگی عمرانی دلال زیادہ لگیں گے ۔
یہ ایک دوسرے پر تو کیچڑ اچھالتے رہتے ہیں ۔ لیکن ان دونوں کا کامن نشانہ پیپلز پارٹی ہوتی ھے اور یہ پیپلز پارٹی پر خوب پروپگنڈا کرتے ہیں ۔
اس کا تازہ ثبوت میں آپ کو صرف ایک دو دن پہلے ہونے والے دو واقعات میں پیش کرتا ہوں ۔
ڈیرہ غازی خان کے ایک سکول میں ساتویں کلاس کے ایک بچے پر آوارہ کتوں نے حملہ کیا جب اسے ہسپتال میں لایا گیا تو وہاں ویکسین موجود نہیں تھی اور بچہ فوت ہو گیا ۔
سوشل میڈیا پر خبر ویرل ہوئی تو مجبوراً میڈیا کو خبر بریک کرنی پڑی اور یہ جھوٹ بولا گیا کہ بچہ راستے میں ہی فوت ھو گیا ۔ لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ ہسپتال میں ویکسین نہیں تھی ۔ اور ایمبولینس کے لیٹ پہنچنے کی وجہ سے بچہ فوت ہوگیا ۔
وزیر اعلی پنجاب نے واقع کا نوٹس لیا بات ختم ہو گی ۔ اگر خدانخوستہ یہی واقعہ سندھ کے کسی شہر میں ہوتا تو میڈیا کا ردعمل کیسا ہوتا یہ آپ نے ماضی میں دیکھا ہوگا ۔
سندھ کے کسی شہر میں اگر کتا کاٹتا ھے تو وہاں کا مقامی ایم پی اے معطل ہوتا ھے ۔
میڈیا پر ایسے سنسنی پھیلائی جاتی ھے جیسا کہ سندھ تباہ و برباد ہو گیا ھے ۔ وہاں وزیر اعلی سمیت تمام وزراء جوابدہ ہوتے ہیں ۔ اور اس واقع کا زمہ دار سیدھا زولفقار علی بھٹو ہوتا ھے ۔
پنجاب میں یا دوسرے صوبوں میں ایسا نہیں ہوتا
پہلے تو پنجاب کے پی کے میں اگر ایسے واقعات ہوتے ہیں تو وہاں خبر ہی نہیں بنتی ۔ ہاں اگر کوئی خبر سوشل میڈیا پر ویرل ہو جائے تو بطور مجبوری اس کو چلا دیتے ہیں ۔
دو ایسے واقعات کا میں یہاں زکر کرنا چاہتا ہوں کہ اگر وہ سندھ میں ہوتے اس وقت چیف جسٹس صہب سو موٹو ایکشن لے چکے ہوتے اور میڈیا وزیر اعلی کا استعفی طلب کر رھا ہوتا ۔
سرگودھا میں ایک بچہ کی فٹ پاتھ پر ڈیلوری کا واقع پیش آیا جس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر بھی ویرل ہوئی ۔ چونکہ وہ واقعہ پنجاب کے ایک شہر کا تھا اور پنجاب میں پیپلز پارٹی کی حکومت نہیں ھے تو وہ مین سٹریم میڈیا پر جگہ نا بنا سکا اور ناہی ہی کسی جج کی غیرت جاگی کہ وہ اس پر کوئی نوٹس ہی لے لے ۔
دوسرا وقعہ ڈیرہ غازی خان میں ہوا جہاں ایک لاش کو اٹھانے کے سٹریچر تک مہیا نہیں کی گئی ۔
ورثہ نے لاش کو اپنے کندھوں پر اٹھایا ہوا تھا ۔ اور نا ہی ان کو ایمبولینس مہیا کی گئی ۔ لاش کو پھٹہ رکشہ پر لے جایا گیا ۔
یہ واقعہ بھی پنجاب کے ایک شہر میں پیش آیا تو یہ بھی مین سٹریم میڈیا میں اپنی جگہ نا بنا پایا ۔
ہا البتہ پنجاب میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہوتی تو ضرور مین سٹریم میڈیا کا حصہ بنتی اور اس پر ایکشن بھی ہوتا ۔
آپ سمجھ رہے ہوں گے کہ میڈیا کو سندھ کی عوام کا درد ھے تو آپ بلکل غلط سمجھ رہے ہیں ۔
آج وہاں پیپلز پارٹی کی حکومت ختم ہو جاے تو آپ کو پنجاب کی طرح سب اچھا ھے دکھایا جائے گا ۔
نمبر دو ان لوگوں کی بات کرتے ہیں جو پیپلز پارٹی پر ڈیل کا الزام لگاتے ہیں ۔ پہلے ہم ن لیگ کی بات کرتے ہیں جن کی جانب سے پیپلز پارٹی پر ڈیل کا الزام لگایا جاتا ھے اور مریم باجی کے میڈیا سیل سے پیپلز پارٹی کے خلاف بھر پور پروپکنڈا کیا جاتا ھے ۔
آپ کو یاد ہوگا کہ میاں نواز شریف کے لندن جانے کے بعد پوری ن لیگ خاموش تھی اور مریم باجی کو تو جیسے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ کا پاسورڈ ہی بھول گیا تھا ۔
جب مولانا فضل الرحمٰن اپنا لانگ مارچ چوہدری برادران کے کہنے پر ختم کر کے بیٹھا تھا ان کی واعدہ خلافی پر خالی ہاتھ مل رھا تھا ۔
تب چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اے پی سی بلائی ساری اپوزیشن کو اکٹھا کیا ۔ اور پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ PDM بنائی ۔
ایک طرف مولانا اور مریم باجی کی پالیسی تو دوسری طرف پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی پالیسی تھی ۔
جب مولانا اور مریم نواز نے ضمنی الیکشن کے بائکاٹ کی بات کی تو بلاول بھٹو زرداری نے ضمنی الیکشن میں بھر پور حصہ لینے کے لیے پوری پی ڈی ایم کو قائل کیا ۔ اور سب نے دیکھا کہ جتنے بھی ضمنی الیکشن ہوے سب الیکشن حکومت ہار گئی ۔
پھر سینٹ کا الیکشن آیا تب بھی مولانا اور مریم نواز نے بائکاٹ کرنے کا کہا لیکن پیپلز پارٹی نے سب کو سینٹ الیکشن حصہ لینے کے لیے قائل کیا ۔ اور پھر سب نے دیکھا کہ حکومت کو سینٹ میں تاریخی شکست کا سامنہ کرنا پڑھا ۔
اور وزیراعظم کو اپنے فی ایم این اے کو پچاس کروڑ کے فنڈ دے کر اعتماد کا ووٹ لینا پڑھا ۔
جب پیپلز پارٹی پی ڈی ایم کا حصہ تھی تو ہر صوبہ میں تاریخی جلسے ہوے ۔
پھر پی ڈی ایم کی ایک میٹنگ میں صدر زرداری نے میاں نواز شریف کو واپس آنے کا کہا اور کہ اگر جنگ لڑنی ھے تو جیل جانا پڑے گا ۔
بس اس کے بعد پوری ن لیگ پیپلز پارٹی کے خلاف ہو گئی ۔ مریم باجی اپنے پاپا کی جان کی ضمانت مانگنے لگی ۔
پی ڈی ایم کے ایجنڈے میں اسمبلیوں سے استعفیٰ دینا لاسٹ آپشن تھا ۔ اس سے پہلے لانگ مارچ اور تحریک عدم اعتماد کے آپشن موجود تھے ۔
پیپلز پارٹی نے لانگ اور تحریک عدم اعتماد پر زور دیا لیکن مریم نواز اور مولانا کا اصرار تھا کہ استعفی دیے جائیں پھر اسی چیز کو جواز بنا کہ پیپلز پارٹی او اے این پی کو پی ڈی ایم سے الگ کیا گیا ۔
جب پیپلز پارٹی کو پی ڈی ایم سے الگ کیا گیا تو سمجھو ڈیل تو ہوئی ھے ۔
جب لاہور ہائی کورٹ کہے کہ مریم نواز کو نیب پیشی پر بلانے سے دس دن پہلے عدالت کو انفارم کرے پھر سمجھو ڈیل تو ہوئی ھے ۔
جب ن لیگ کا صدر رات کو گیٹ نمبر 4 کے چکر لگائے تو سمجھو ڈیل تو ہوئی ھے ۔
جب مریم نواز یہ کہے کہ عثمان بزدار ہمیں سوٹ کرتا ھے تو سمجھو ڈیل تو ہوئی ھے ۔
جب پارلیمنٹ کے اہم اجلاسوں میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف غیر حاضر ہو تو سمجھو ڈیل تو ہوئی ھے ۔
جب شہباز شریف بلاول بھٹو زرداری زرداری کو عشائیہ پر بلا کر خود گیٹ نمبر چار کے بلاوے پر چلا جائے تو سمجھو ڈیل تو ہوئی ھے ۔
جب سینٹ میں منی بجٹ اور سٹیٹ بنک کا پیش کرنے کا ایجنڈا اچانک اور رات کو پیش کیا جائے ۔
جب سب کو پتہ ہو کہ پیپلز پارٹی کے دو ایم این ایز حنا ربانی کھر اور رضا ربانی کھر کے والد نور ربانی کھر کی رسم قل خوانی ھے اور اپوزیشن لیڈر اس میں شرکت کے لیے گیا ہوا ھے ۔ اور دوسری طرف پی ڈی ایم کے سات ارکان بغیر کسی وجہ کے غیر حاضر ہیں ۔ جب حکومت کی طرف سے ایسا ملک دشمن بل پاس کرانے پر تنقید کرنے بجائے اور اپنے سات ارکان سے پوچھ گچھ کرنے کی بجائے سارا کا سارا الزام یوسف رضا گیلانی پر ڈال دیا جائے اور اس کا میڈیا ٹرائل کیا جائے تو سمجھو ڈیل تو ہوئی ھے ۔
ساریں گالہیں دی ہکا گال ۔ جب تحریک انصاف کا اہم رہنما اسد عمر یہ کہے کہ نواز شریف کو سو فیصد عمران خان کے کہنے پر علاج کے لیے لندن جانے دیا گیا ھے تو سمجھو نہیں بلکہ یقین کر لو ڈیل ہوئی ھے ۔

یہ بھی پڑھیے

About The Author