محمد عامر خاکوانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج کل لاہور کا موسم صرف بھیگا بھیگا نہیں بلکہ دھواں دھار بارشوں سے پانی پانی ہوا پڑا ہے۔ ٹھنڈ کی شدید لہر ہے جو ہم پنجاب والوں کے لئے ناخوشگوار ہوتی جا رہی ہے۔چند دن پہلے بہاولپور میں ایک عزیزہ کی شادی کے لئے جانا ہوا تو وہاں دن میں کم ٹھنڈ تھی، مگر رات کو خون جما دینے والی سردی ۔ یہ میں پنجاب کے حساب سے بتا رہا ہوں ، جہاں چھ ، سات سینٹی گریڈ ٹمپریچر بھی خاصا ٹھنڈا سمجھا جاتا ہے اور جب کبھی درجہ حرارت ایک یا دو تک گر جائے تو ہم پنجابی، سرائیکی باقاعدہ چیخ اٹھتے ہیں۔ پاکستان کے وہ علاقے جہاں ٹمپریچر منفی پانچ سات یا اس سے بھی نیچے گر جاتا ہے،ان کے مکینوں کی برداشت کی داد دینا پڑے گی۔ بہرحال اس بھیگے ٹھنڈے موسم میں سیاسی درجہ حرارت بھی منجمد ہے ، سماجی سرگرمیاں بھی محدود۔
رہی سہی کسر کورونا کی نئی منحوس شکل اومیکروں نے پوری کر دی ہے۔بہرحال یہ ذائقے یاد کرانے،دہرانے کا موسم ہے۔ چند دن پہلے اسی موسم کے حوالے سے اپنی بچپن، لڑکپن کی یادیں تازہ کیں اور کچھ گرما گرم پکوانوں کا ذکر کیا تو بہت سے دوستوں، کرم فرمائوں نے پزیرائی کی۔ مزید لکھنے کی ترغیب ہوئی۔ میری نصف سے کچھ کم زندگی احمد پورشرقیہ، ضلع بہاولپور میں گزری، تعلیم کی غرض سے کچھ عرصہ کراچی اور پھر صحافت کے چھبیس سال لاہور میں گزرے ہیں۔ہر جگہ کے اپنے تجربات ہیں۔ احمد پورشرقیہ سے البتہ ناسٹلجیا وابستہ ہے اور اس سے بھی بڑھ کر ماں کی خوشبو، ان کے ہاتھ کا ذائقہ ۔
آپ اس سے اتفاق کریں گے کہ دنیا کا کوئی بھی ذائقہ ماں کے ہاتھ کے ذائقے کے برابر نہیں ہوسکتا۔ قابل ترین ماسٹر شیف بھی اس معاملے میں شکست کھا جائے گا۔ میرے بڑے تین بچے ماشااللہ سے بڑے ہوگئے ہیں، چھوٹا عبداللہ ابھی آٹھ سال کا ہے اور اس کے لاڈ ہمیں اٹھانے پڑتے ہیں۔ جن میں اسے کبھی کوئی خاص چیز اپنے ہاتھ سے کھلانا بھی شامل ہے۔ اگلے روز اہلیہ کہنے لگیں،’’ بچپن میں میرے دائیں ہاتھ میں چوٹ لگی تو چند دن تک میری اماں مجھے اپنے ہاتھ سے نوالے بنا کر کھلاتی رہیں، مجھے لگتا تھا کہ دنیا میں ان سے بہتر نوالہ بنا کر کوئی نہیں کھلا سکتا ، جس انداز سے وہ نوالے پر سالن لگاتیں ،ساتھ سلاد اور رائتہ شامل کرتیںاور پھر بڑے سلیقے سے میرے منہ میں ڈالتیں، وہ ناقابل فراموش ہے۔‘‘
میں یہ سن کر مسکراتا رہا کیونکہ اس میں مہارت سے زیادہ ماں کی محبت کارفرما ہوتی ہے ، ہم سب اپنی مائوں کے بارے میں ایسے ہی سوچتے ہیں اور مجھے لگتا ہے کہ سب سچے ہیں۔ ماں کے معاملے میں ہم منطقی نہیں ہوسکتے۔ ہونا بھی نہیں چاہیے۔ اپنے پچھلے کالم میں ذکر کیا تھا کہ سرائیکی خطے میں صرف پائے کا رواج نہیں، وہاںزیادہ (چھوٹے) سری پائے پکائے جاتے ہیں اور ان کی کٹنگ، بوٹیوں کا سٹائل سب کچھ مختلف ہوتا ہے۔ میری والدہ گوشت کھانے کا شوق نہیں رکھتی تھیں، مگر والد صاحب خوش خوراک تھے۔بھنا گوشت، سری پائے، اوجھڑی یا اوجری،کباب وغیرہ انہیں بے حد مرغوب تھے۔ وہ اہتمام سے سردیوں میں اکثر سری پائے بنواتے، اوجری بھی اکثر پکتی۔ ہمارے ہاں سری پائے میں اکثر مغز ساتھ ہی ڈال دیا جاتا ہے۔ سری یعنی بکرے کی کھوپڑی کا ایک خاص حصہ ایسا ہے جسے پکالیا جاتا اور پھر بعد میں اسے نکال کر ہاتھوں سے اس کی چھوٹی چھوٹی بوٹیاں توڑ کر کھائی جاتیں ، چمچ سے یا موگری سے کھوپڑی چٹخا کر بھیجا بھی نکال لیا جاتا۔کبھی وہ بھیجا الگ سے فرائی بھی کر لیا جاتا۔ اس وقت ہمیں علم نہیں تھا کہ یہ بدبخت کولیسٹرول کا خزانہ ہے۔
برسوں بعد جب لاہور آئے تو دوستوں کے ساتھ بڑے ذوق شوق سے نہاری کھانے نیوکیمپس سے آتے۔ میرا بچپن کا بہترین دوست ذوالفقار علی نقوی (پونم) جس کے ساتھ بہت سنہری دن گزرے ، کبھی نہیں بھول سکتا۔ ہم دونوں اکثر موٹر سائیکل پر رات کو مزنگ آلو کے پراٹھے اور لسی پینے آتے ۔ لاہور میں نہاری کے تین مشہور سپاٹ یا تین سکول آف فوڈ سمجھ لیں ہیں۔ مزنگ کی نہاری، اندرون لوہاری گیٹ اور پیسہ اخبار (اردو بازار )۔ نہاری کادہلوی ،کراچوی ذوق رکھنے والے شرفا آج بھی لوہاری والے بزرگ کو ترجیح دیتے ہوں گے۔ ہم نوجوان البتہ مزنگ چونگی کی نہاری کے اسیرہوگئے۔
اس کا آج بھی اچھوتا ذائقہ ہے۔ تب تو ہم پروا نہ کرتے، فرائی نہاری کے ساتھ مغز الگ سے فرائی کراتے اور کبھی نلی کا گودا(مخ )بھی خاص طور سے ڈلواتے۔ اس نہاری کی پلیٹ کے وسط میں نہایت نرم، خوب گلی ہوئی بڑی سی بیف کی لال بوٹی (بونگ)ہوتی جو منہ میں ڈالتے ہی گھل جاتی۔ ساتھ ہرا مسالہ ہوتا جس میں ادرک کی باریک قاشیں ،سبز دھنیا اور ہری مرچیں ہوتیں۔ ادرک کی قاشیں نہاری پر نچھاور کر دی جاتیں، تیکھے ذائقے کے لئے ہری مرچیں بھی شامل کرتے ، اوپر سے لیموں نچوڑ دیا جاتا۔ ساتھ ان کی کڑک خمیری روٹی ، جو ہماری بھوک کی طرح بے حد پھولی ہوتی اور اس کے نیچے کا خستہ پاپڑ اتنا لذیذ ہوتا کہ اسے توڑ کر دیوانہ وار کھانے کا جی چاہتا۔
ایسی نہاری کا اصل کمال ہے کہ کھاتے ہوئے آپ خمیری روٹیوں کی تعداد بھول جاتے ہیں۔ ضرورت پڑنے پر پلیٹ گرم کرا لی اور کچھ شوربہ بھی ڈلوا لیا۔یہاں پر شیرمال اور تافتان بھی ملتا ہے، کیا بات ہے ان کی بھی۔ کولا مشروبات میں ہم سبز بوتل کا انتخاب کرتے کہ ہاضمہ کرے گی، ساتھ چٹکی نمک بھی ڈال لیتے۔ یہ حربہ اکثر ناکام ہی ہوتا اور واپسی پر سانس لینا بھی مشکل ہوتا۔ اس وقت یہی سوچتے کہ کاش کوئی جادوئی طریقہ ہوتا جس سے پلک جھپکتے میں ہاسٹل کے کمرے میں پہنچ کر ڈھیر ہوجائیں۔ جب کبھی سانس لینے کی نوبت ہوتی تو پھر ہم وہ کسر گاجر کے حلوے سے پوری کرتے جو حکما اور دانا لوگوں کے مطابق نہاری کا دف مارتایعنی اس کی گرمی کو بیلنس کرتا ہے۔ یہ نسخہ خاکسار نے اپنے مطالعے سے حاصل کیاتھا اور ہاسٹل کے سب احباب اس سے متاثر اور قائل ہوئے ۔
لاہور کی ایک اور سوغات ہریسہ ہے۔ یہ خالص کشمیری ڈش ہے ، اس کا ذائقہ بتانا اور سمجھانا بہت مشکل ہے۔کھائے بغیر اندازہ نہیں ہوپاتا۔ حلیم کی طرح اس میں گوشت وغیرہ کئی گھنٹوں تک گھوٹا جاتا ہے، مگر ا سکا ذائقہ ہرگز حلیم کی طرح نہیں۔ہریسہ کی اپنی ایک دنیا ہے اور وہ بہت پرلطف، دلنشیں ہے۔ لاہور کی کشمیری فیملیز گھروں میںبھی ہریسہ بنایا کرتی ہیں، ہم جیسے البتہ ہریسہ کے لئے نسبت روڈ، گوالمنڈی کا رخ کرتے ۔ نسبت روڈ کے آخر میں دو تین دکانیں ہیں جن میں سے ہر ایک کا دعویٰ ہے کہ وہ ہریسہ کی اصلی اور قدیمی دکان ہے۔ شناخت کا ایک ہی طریقہ ہے کہ جہاں رش زیادہ ہو۔ لاہوریوں کی ایک بڑی خوبی ہے کہ یہ برے ذائقے پر کبھی جمع نہیں ہوسکتے۔ہریسہ مٹن یا بیف کا بنتا ہے اور مرغی کا بھی۔ ہم نے تو یہ بدذوقی کبھی نہیں کی کہ مرغی کا ہریسہ کھایا جائے۔ ہریسہ کے پیالہ میں چھوٹے چھوٹے کباب ہوتے ہیں جن کا ذائقہ حیران کن ہے۔ گرم گرم تلوں والے کلچوں کے ساتھ اسے کھائیں۔
اللہ توفیق دے تو قریب ہی گوالمنڈی چوک سے بہترین گجریلا کھیر کھائیں، اوپر ربڑی ضرور ڈلوائیں چاہیے اس کے لئے اضافی دینے پڑیں۔ ویسے جو ربڑی یا رابڑی احمد پور، بہاولپور میں ملتی ہے، ویسی لاہور میں نہیں کھائی۔ایسی گاڑھی ربڑی جس میں موٹے ربڑی کے ٹکڑے پڑے ہوں، اس کا حظ کھانے والے ہی اٹھا سکتے ہیں۔ کراچی میں دلی والوں کی ربڑی البتہ غیر معمولی ہے۔ ابھی بہاولپور گیا تو بڑی ہمشیرہ کے گھر ناشتہ کرنے گیا۔ اس میںچنے، دہی ، انڈے تو تھے ہی، مگر ساتھ ربڑی کا ڈونگا اور بھے کے کباب کے ساتھ کچے قیمے کی ٹکیاں بھی تھیں۔ آخری تینوں چیزیں لاہور میں نہیں ملتیں۔ بھے ہمارے سرائیکی، سندھی علاقوں کی مشہور سبزی ہے، یہ کنول کے پودے کی جڑ ہے۔ اسے کئی طریقوں سے پکایا جاتاہے۔
سادہ بھے کا سالن، قیمہ بھے،بھے کے پکوڑے اور ہمارے پٹھان گھرانوں میں بھے کے کباب بنتے ہیں۔ جس نے نہیں کھائے، وہ اچھوتے ذائقے سے محروم رہا۔سگھڑ خواتین اچار میں بھی بھے ڈال دیا کرتی ہیں۔اچار سے یاد آیا کہ سرائیکیوں میں پانی کا اچار بھی مرغوب ہے۔ میری والدہ پانی کا اچار بناتی تھیں،بغیر سرکے کے ۔شلجم ، گاجر وغیرہ میں رائی ڈال کر اچار بنایا جاتا ہے ۔کہتے ہیں بے حد ہاضم ہوتا ہے۔ پچھلے کالم میں ایک دلچسپ چیز رہ گئی تھی، سرائیکی وسیب سے کئی دوستوں نے اس کی نشاندہی کی۔ ہمارے ہاں گنے کے رس سے ایک بہت مزے دار چیز بنتی ہے اسے کَکو کہتے ہیں ۔یہ بے حد میٹھی ہوتی ہے۔
صبح پراٹھے کے ساتھ ککو میں مکھن یا ملائی ملا کر کھانا ایک شاندار تجربہ ہے۔ شائد ہی کوئی سرائیکی ہو جس نے اس سے حظ نہ اٹھایا ہو۔ لاہور اور سنٹرل پنجاب میں مکئی کی روٹی کا بہت رواج ہے، ساگ ،مکھن کے ساتھ مکئی کی روٹی۔ اب تو جنوبی پنجاب میں مکئی کی فصل عام ہوگئی ہے، ہمارے بچپن، لڑکپن میں مکئی کے بجائے باجرے کی روٹی بنا کرتی جسے ہم لوگ ڈھوڈا کہتے ، شائد اس کی گول ،قدرے موٹی شکل کی مناسبت سے۔ اس ڈھوڈے پر ساگ اور مکھن رکھ کر کھایا جاتا۔ سرگودھا، خوشاب میں ڈھوڈا ایک مشہور مٹھائی ہے،وہ بالکل ہی الگ چیز ہے۔ انہی بارشوں کے موسم میں چاول کی میٹھی روٹی جسے چلڑے یا چرڑے کہتے ہیں، وہ بھی عام بنا کرتی ۔
یہ بھی پڑھیے:
عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر