وسعت اللہ خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ جو کہتے ہیں کہ عجلت میں گر یہ سمجھ میں نہ آئے کہ کون سے رنگ کی قمیض اور پتلون پہنوں تو سیاہ قمیض پہن کر جینز چڑھا لو۔ اسی اصول کے تحت جب وقت کم ہو اور سمجھ میں نہ آ رہا ہو کہ جو وعدے کئے تھے ان کا کیا کریں تو فوراً صدارتی و پارلیمانی کی پیراشوٹی بحث زمین پر اتار دو۔
ویسے بھی یہ سوشل میڈیا ہو کہ روایتی میڈیا دونوں اتنے ویہلے ہیں کہ ہر طرح کا سودا خریدنے بیچنے پر آمادہ رہتے ہیں اور انھیں گاہک بھی وافر میسر ہیں۔
چنانچہ ایک بار پھر دو ہزار پانچ سو اکیسویں مرتبہ صدارتی بمقابلہ پارلیمانی نظام کے مباحثی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
گویا کل ہی پارلیمانی کی جگہ صدارتی نظام آ گیا تو اگلے 24 گھنٹے میں پٹرول 147 روپے سے 107 پر اور ڈالر178 روپے سے 120 پر آ جائے گا، اٹھارویں آئینی ترمیم اڑن چھو ہو جائے گی۔ عسکری اسٹیبلشمنٹ ہفتے بھر میں مشرف بہ سویلینز ہو جائے گی، بائیڈن اپنے ہم پلہ کو پہلی فرصت میں کال کر دے گا، مودی سوچ کے پریشان ہو جائے گا کہ میں تو ٹھہرا صرف وزیرِ اعظم اور اب میرا سابقہ پڑے گا منتخب و بااختیار صدرِ پاکستان سے۔ تو پھر میرے پروٹوکول کا کیا ہو گا۔باپ رے باپ۔
جنھیں نہیں معلوم انھیں نہیں معلوم کہ پر چند ماہ بعد اٹھارویں آئینی ترمیم کو مضبوط وفاق کی راہ میں بنیادی رکاوٹ قرار دے کر اسے ختم کروانے کی درفنتنی اور ہر ناکام وزیرِ اعظم کے اقتدار کے چوتھے برس کمزور پارلیمانی نظام کو طاقتور صدارتی نظام سے بدلنے کی بھیرویں بجانے کا عملاً کوئی مطلب نہیں۔
اس کے لیے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں الگ الگ دو تہائی اکثریت سے ترمیم درکار ہے۔ یہ نہ تو سنہ 1950 کی دبی دبی دہائی ہے اور نہ ہی اپنے ہی گلے پر ون یونٹ کا خنجر رکھنے والی پارلیمان۔
یہ ٹھیک ہے کہ موجودہ پارلیمان میں بھلے حزبِ اقتدار ہو کہ حزبِ اختلاف دونوں میں یہ غیر معمولی صلاحیت ہے کہ کہیں اوپر سے بیٹھنے کا حکم ملے تو لیٹ بھی سکتے ہیں۔ مگر حالات اتنے گئے گزرے بھی نہیں کہ اپنے ہی دائیں ہاتھ سے گلے میں صدارتی نظام کا پھندہ ڈال کر بائیں ہاتھ سے اٹھارویں ترمیم کا لیور کھینچ کر خود ہی معلق ہو جائیں۔
انھیں خدا اور رسول کو منھ دکھانا ہے یا نہیں مگر اپنے حلقوں اور گھروں کو شاید ضرور منھ دکھانا پسند کریں؟ ورنہ بقیہ زندگی آواران، لاڑکانہ، راجن پور اور مردان کے بجائے اسلام آباد میں گزار پائیں گے کیا؟
کہا جا رہا ہے کہ پارلیمانی نظام کی چیچھا لیدر میں جو قیمتی وقت ضائع ہوتا ہے اس کے بجائے اگر صدارتی نظام ہو اور ساڑھے تین سو پارلیمانی ارکان کی خوشنودی کے محتاج وزیرِ اعظم کے بجائے براہ راست منتخب صدرِ مملکت کو فیصلہ سازی کا اختیار مل جائے تو ملک کو تیزرفتار ترقی دی جا سکتی ہے۔
یہ تجویز سوشل میڈیا اور سوشل میڈیا نما چینلز کے ذریعے کچھ اس انداز میں پھیلائی جا رہی ہے گویا پاکستان نے کبھی صدارتی نظام کو آزمایا ہی نہیں۔
یہ وہ ملک ہے جہاں آج تک کسی وزیرِ اعظم نے پانچ برس کی مدت پوری نہیں کی اور یہی وہ ملک ہے جہاں پانچ میں سے تین بااختیار و طاقتور صدور اپنی طے شدہ مدت سے دوگنی مدت تک بلا رکاوٹ اقتدار میں رہے۔ انھیں مضبوط فیصلہ سازی کی سہولت بھی حاصل رہی مگر ملک کو کیا فائدہ ہوا؟
کسی وزیرِ اعظم نے کسی اور وزیرِ اعظم کو نہیں بلکہ پہلے صدر سکندر مرزا کو دوسرے صدر ایوب خان نے کنپٹی پر پستول رکھ کے چلتا کیا۔ اپنی مرضی کے دستور میں اپنے لیے مرضی کے اختیارات ڈلوانے والے سوا چھ فٹ کے فیلڈ مارشل کو اپنے ہی آئین کے تحت ہونے والے پہلے صدارتی انتخاب میں ایک پارلیمان نواز عورت کو ہرانے کے لیے جھرلو پھیرنا پڑا۔ اسے پتہ بھی نہ چلا کہ یہ جھرلو فاطمہ جناح پر نہیں دراصل قومی یکجہتی پر پھر گیا ہے۔
کسی کمزور وزیرِ اعظم نے نہیں بلکہ طاقتور ترین صدر نے ملک کو پینسٹھ کی جنگ میں نہ صرف جھونکا بلکہ اس کے بعد تاشقند میں انڈیا کے سامنے پرانی تنخواہ پر کام کرنے پر آمادگی بھی دکھائی۔
دو برس بعد جب اس طاقتور ترین صدر کو عوامی غیض و غضب کا سامنا کرنا پڑا تو کسی اور نے نہیں اسی صدر نے حزبِ اختلاف سے وعدہ کیا کہ ملک میں پارلیمانی نظام بحال کر دیا جائے گا اور میں اپنی مدتِ صدارت پوری ہونے پر سیاست سے ہی ریٹائر ہو جاؤں گا۔
اس طاقتور صدر کو کسی سیاستداں نے نہیں بلکہ اسی کے نامزد کردہ سالار نے یہ کہہ کر اترنے پر مجبور کر دیا کہ سر ہم بہت دیر تک ایجی ٹیشن کا سامنا نہیں کر پائیں گے۔ آگے جیسے آپ مناسب سمجھیں۔
کسی وزیرِ اعظم کے دور میں نہیں بلکہ ایک طاقتور صدر کے ہوتے ملک کا ایک حصہ ٹک سے ٹوٹ گیا۔ اس کے ساتھ ہی صدارتی نظام کا دبدبہ بھی دبدبا گیا۔ پاکستان کسی منتخب وزیرِ اعظم کے دور میں نہیں بلکہ اپنی ادارہ جاتی طاقت کے بل پر اپنے تئیں مننتخب ریفرینڈمی صدر کے دور میں افغان خانہ جنگی کو نیوتا دے کر ملک کے اندر بلایا گیا۔
اس دعوت سے قبل پاکستان کو جو تھوڑا بہت فرقہ وارانہ و نسلی و سماجی چین میسر بھی تھا وہ پتلی گلی سے ایسا نکلا کہ آج تک لوٹ کے نہیں آیا۔ پاکستان کسی منتخب وزیرِ اعظم کے ہوتے نہیں بلکہ ایک خود منتخب صدر کی موجودگی میں پتھر کے دور میں واپسی کی دھمکی وصول ہوتے ہی دھشت گردی کے خلاف جنگ میں دم چھلا بنا دیا گیا۔
اس تھوپی جنگ کا جوش تو کب کا ٹھنڈا پڑ چکا مگر پاکستان آج تک اس کی قیمت ہر طرح سے چکا رہا ہے۔
چلیے میرے تعصبات اور جانبداری کو ہرگز خاطر میں نہ لائیں۔ ذرا تصور کریں کہ ملک میں صدارتی نظام نافذ ہو چکا ہے اور ہمارے دیسی ولادیمیر پوتن براہ راست عوامی ووٹوں سے پاکستان کے پہلے بااختیار سویلین صدر منتخب ہو چکے ہیں۔ مبارک سلامت جے جے کار۔۔۔
پر میں سوچ رہا ہوں کہ کرولا پر مرسڈیز کی ٹکلی لگانے سے کرولا کے اوصاف بدل سکتے ہیں؟ یا گھوڑے پر سیاہ و سفید دھاریاں کھینچ دی جائیں تو وہ زیبرا برادری میں ایڈجسٹ ہو جائے گا؟
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)
یہ بھی پڑھیں:
قصور خان صاحب کا بھی نہیں۔۔۔وسعت اللہ خان
اس جملے کو اب بخش دیجئے ۔۔۔وسعت اللہ خان
کیا آیندہ کو پھانسی دی جا سکتی ہے ؟۔۔۔وسعت اللہ خان
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر