رانا ابرار خالد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس سے پہلے کہ نجی ٹی وی چینلوں کے عقابی نگاہ رکھنے والے رپورٹر حضرات بریکنگ نیوز کے چکر میں یہ خبر اچک لیں، آج میں ڈیلی سویل ڈاٹ کام کے (اپنے ) قارئین کو سب سے پہلے یہ اطلاع فراہم کرنے جا رہا ہوں کہ ’وزیراعظم عمران خان غیرملکی تحائف کیس‘ میں بالآخر میرے وکیل رانا عابد نذیر خاں کی ڈیڑھ ماہ کی محنت رنگ لائی، جبکہ انفارمیشن کمشنر زاہد عبداللہ (پاکستان انفارمیشن کمیشن) نے کمال جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے نوٹس جاری کر کے ڈپٹی سیکرٹری (کوآرڈی نیشن) کابینہ ڈویژن جو کہ توشہ خانے کے انچارج بھی ہیں، کو 3 فروری 2022 کو طلب کر لیا ہے۔
انفارمیشن کمشنر زاہد عبداللہ جن کی رائٹ ٹو انفارمیشن کے حوالے سے جدوجہد قابل قدر ہے، انہوں نے پاکستان میں جاننے کا حق منوانے کے لئے چودہ سال تک ’مور انفارمیشن مور ٹرانسپیرنسی‘ کی کیمپین چلائے رکھی اور معلومات تک رسائی کے ایکٹ 2017 کی پارلیمنٹ سے منظوری میں بھی ان کا کردار انتہائی اہم رہا، اس حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر کے کردار کو بھی سراہنا ہو گا، جس طرح انہوں نے ’رائٹ آف ایکسیس ٹو انفارمیشن ایکٹ 2017‘ میں درجن سے زائد ترامیم منظور کروا کر عوام کو نسبتاً ایک مضبوط اور متوازن قانون کا تحفہ دیا، وہ لائق تحسین ہے۔
یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان کے بائیس کروڑ عوام کے ہاتھ میں ایک ایسا قانونی ہتھیار موجود ہے کہ وہ حکمرانوں کے ’کارنامے‘ جاننے کے لئے سفید کاغذ پر ہاتھ سے سوالات لکھ کر کسی بھی محکمے کو اپنے سوالات بھجوا سکتے ہیں جبکہ تمام سرکاری محکمے دس روز کے اندر جواب دینے کے پابند ہیں، اگر کسی سرکاری محکمے کا پبلک انفارمیشن افسر مقرر مدت میں جواب نہیں دیتا تو پاکستان انفارمیشن کمیشن میں سادہ کاغذ پر بغیر کورٹ فیس اور بنا وکیل کے اپیل کی جا سکتی ہے، جبکہ پاکستان انفارمیشن کمیشن ساٹھ دنوں میں اپیل کا فیصلہ سنانے کا پابند ہے۔ یہ الگ بات کہ سینیٹر فرحت اللہ باربر کی ترامیم کے باوجود اب بھی معلومات تک رسائی کے ایکٹ 2017 کے لئے کئی نو گو ایریاز موجود ہیں۔ تاہم، اگر پاکستان کے پڑھے لکھے عوام معلومات تک رسائی کے موجودہ قانون کا ہی موثر استعمال کرنا شروع کر دیں تو حکمرانوں اور اصل حکمرانوں کا حقہ پانی بند ہو جائے۔
ہاں تو بات ہو رہی تھی کہ گزشتہ روز زاہد عبداللہ انفارمیشن کمشنر (پاکستان انفارمیشن کمیشن) نے ’وزیراعظم عمران خان غیر ملکی تحائف کیس‘ کے سلسلے میں نوٹس جاری کیا ہے جس میں اپیلینٹ رانا ابرار خالد (فدوی) اور ڈپٹی سیکرٹری کابینہ ڈویژن/انچارج توشہ خانہ کو 3 فروری 2022 کو کمیشن کے روبرو پیش طلب کیا گیا ہے۔ انفارمیشن کمشنر زاہد عبداللہ نے ڈپٹی سیکرٹری کابینہ ڈویژن/انچارج توشہ خانہ کو یہ بھی ہدایت کی ہے کہ 3 فروری 2022 کو وزیراعظم عمران خان کو غیرملکی سربراہان سے ملنے والے تحائف کا دستیاب ریکارڈ اور اس کے ساتھ ساتھ اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر التوا رٹ پٹیشن کا ریکارڈ بھی پیش کیا جائے۔
واضح رہے کہ ڈپٹی سیکرٹری کابینہ ڈویژن/انچارج توشہ خانہ کے خلاف (پاکستان انفارمیشن کمیشن کے فیصلہ، جس میں سات روز کے اندر وزیراعظم عمران خان کے غیر ملکی تحائف کی تفصیل فراہم کرنے کا حکم دیا گیا گیا تھا، پر عملدرآمد نہ کرنے پر توہین عدالت کی درخواست پہلے ہی زیرالتوا ہے ) ، اس صورت میں یہ امر واضح ہے، اگر ڈپٹی سیکرٹری کابینہ ڈویژن 3 فروری کو کمیشن کے روبرو اسلام آباد ہائی کورٹ کے سٹے آرڈر/حکم امتناعی کی کاپی پیش نہ کرپائے تو انہیں توہین عدالت کی سزا کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے!
یاد رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ پہلے ہی واضح کرچکی ہے کہ وزیراعظم عمران خان غیر ملکی تحائف کیس میں کوئی سٹے آرڈر موجود نہیں، 8 دسمبر 2021 کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں وزیراعظم عمران خان غیر ملکی تحائف کیس کی آخری سماعت کے دوران جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے (میرے وکیل رانا عابد نذیر خاں کے استفسار پر) ریمارکس جاری کرتے ہوئے کہا تھا ”عدالت عالیہ نے کوئی سٹے آرڈر جاری نہیں کر رکھا، پاکستان انفارمیشن کمیشن وزیراعظم عمران خان کے غیر ملکی تحائف کی تفصیلات کی فراہمی کے لئے اپنے (سابقہ) فیصلے پر عملدرآمد کے لئے معلومات تک رسائی کے ایکٹ 2017 کے تحت کوئی بھی ایکشن لے سکتا ہے، کمیشن اس سلسلے میں مکمل طور پر با اختیار ہے“ ۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ ڈپٹی سیکرٹری کابینہ ڈویژن صاحب 3 فروری 2022 کو اپنے لیے کون سی راہ کا انتخاب کرتے ہیں، آیا وہ قانون کی پاسداری کرتے ہوئے بطور سول سرونٹ اپنا فرض نبھاتے ہیں اور وزیراعظم عمران خان کو غیرملکی دوروں کے دوران ملنے والے تحائف کی تفصیل پیش کرتے ہیں یا پھر شاہ کی وفاداری کا دم بھرتے ہوئے اپنے لیے توہین عدالت کی فرد جرم کا انتخاب کرتے ہیں!
یاد رہے کہ یہ وہی ڈپٹی سیکرٹری (کابینہ ڈویژن) محمد احد صاحب ہیں، جنہوں نے فدوی سے کہا تھا ’اگر آپ محب وطن پاکستانی ہیں تو یہ سوالات آپ کو نہیں پوچھنے چاہئیں‘ ، یہ بات انہوں نے اس وقت کہی تھی جب میں توشہ خانہ کے رولز اینڈ پروسیجر سے آگاہی کے لئے ان کے دفتر میں حاضر ہوا تھا۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ سرکار نے موصوف کو معلومات تک رسائی کے ایکٹ 2017 کے تحت کابینہ ڈویژن میں پبلک انفارمیشن افسر مقرر کر رکھا ہے۔
اب آپ خود سوچیں کہ جو افسر یہ سوال پوچھنے والے شہری کی حب الوطنی کو شک کی نگاہ سے دیکھنا جائز سمجھتا ہو کہ وزیر اعظم پاکستان کو غیرملکی دوروں میں دیگر سربراہان مملکت کی طرف سے کتنے اور کیا کیا تحفے ملے، ان میں کتنے تحفے وزیراعظم نے خود اپنے پاس رکھے اور کتنے توشہ خانے میں جمع کروائے گئے، جو تحفے وزیراعظم نے اپنے پاس رکھے ان کی (رولز کے مطابق) انہوں نے کتنی قیمت ادا کی اور ادائیگی کس بینک کے کس اکاؤنٹ سے کی گئی، ایسا شخص بطور پبلک انفارمیشن افسر معلومات تک رسائی کے ایکٹ 2017 کے تحت عوام کے جاننے کے حق کی خاک رکھوالی کرے گا۔ ہمارے دوست (سینیئر صحافی) رؤف کلاسرا شاید ایسے ہی افسرز کے لئے زکوٹا جن کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں!
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ