ملک کے طاقتور دو طبقوں، بیوروکریسی اور جاگیرداروں کے گٹھ جوڑ نے میری آنکھوں سے خواب چھین لیے۔
سنہ 2010 میں سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے صوبہ پنجاب کے زرعی گریجوئیٹس کو زرعی اراضی فراہم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ ضلع راجن پور کے زرعی گریجویٹ شہزاد نسیم بھی ان میں شامل تھے۔
سنہ 2019 سے سرکاری کاغذوں میں زمین ان کے نام پر ہے۔ وہ سرکار کے خزانے میں سالانہ پانچ سو روپے فی ایکڑ کے حساب سے لیز کی رقم جمع بھی کراتے ہیں۔ لیکن ریاست کی طرف سے الاٹ کی گئی 197 کنال زمین پر کوئی اور قابض ہے۔
ڈپٹی کمشنر راجن پور احمر نائیک کے مطابق راجن پور میں سات زرعی گریجویٹس کو زمینیں الاٹ کی گئی تھیں مگر پرانے قابضین عدالت چلے گئے تھے۔ احمر نائیک کے مطابق ’جب تک عدالت اس معاملے میں فیصلہ نہ کر دے انتظامیہ پرانے قابضین سے قبضہ واپس نہیں لے سکتی۔ اگر کوئی ہائی کورٹ کا حکم لے آئے تو ہم فوری طور پر قبضہ دلا دیں گے۔‘
بیوروکریسی اور جاگیرداروں کے گٹھ جوڑ نے میرے خواب چھیں لیے
شہزاد نسیم کہتے ہیں کہ جب مجھے پتہ چلا کہ حکومت پنجاب مجھے 197 کنال زرعی اراضی کاشتکاری کی غرض سے لیز پر فراہم کر رہی ہے تو میرے آنکھوں کے سامنے لہلہاتی فصلیں تھیں، ہرے بھرے کھیت تھے اور ہر سو ہریالی ہی ہریالی تھی۔
اپنے خواب و خیال میں، میں بنجر زمین کا سینہ چیر کر کپاس، گندم اور گنے کی فصلیں اُگا رہا تھا اور منصوبہ بندی کر رہا تھا کہ کیسے میں روایتی زمینداروں کے برعکس جدید سائنسی تقاضوں کے مطابق کاشتکاری کروں گا اور میری فصلوں کی اوسط پیداوار دوسرے کسانوں کی نسبت کتنی زیادہ ہو گی۔
میں یہ خواب بھی دیکھنے لگا تھا کہ صدیوں پرانے روایتی طریقوں سے کھیتی باڑی کرنے والے کسان مجھے رشک بھری نظروں سے دیکھیں گے اور اپنی زمینوں کی اوسط پیداوار بڑھانے کے لیے مجھ سے مشورے طلب کریں گے۔
یہ وہ سہانے خواب تھے جو میں نے اپنی آنکھوں میں اس وقت سجانے شروع کیے تھے جب سنہ 2010 میں سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے صوبہ پنجاب کے زرعی گریجوئیٹس کو زرعی اراضی فراہم کرنے کا اعلان کیا تھا۔
مگر پھر یکایک منظر بدلا اور وہی ہوا جو ہمیشہ سے اس زرعی ملک میں ہوتا چلا آ رہا ہے۔ خوشی کی جو کونپلیں میرے دل و دماغ میں کھلیں تھیں وہ مرجھانے لگیں۔
ملک کے طاقتور دو طبقوں، نوکرشاہی اور جاگیرداروں کے گٹھ جوڑ نے میری آنکھوں سے خواب چھیں لیے۔
وزیر اعلیٰ کی طرف سے اعلان کے باوجود مجھے زمین نہیں دی گئی۔ اپنا حق لینے کے لیے میں کبھی ڈی سی آفس راجن پور تو کبھی ریونیو بورڈ پنجاب لاہور کے چکر کاٹتا رہا۔ میرے شہر سے لاہور کا 12 سے 14 گھنٹے کا سفر تھکا دینے والا ہوتا تھا۔
تھک ہار کے میں نے لاہور ہائی کورٹ ملتان بنچ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ کورٹ نے میرے حق میں فیصلہ دیا اور بلآخر مجھے 197 کنال زمین لیز پر الاٹ کر دی گئی۔
اب صورتحال یہ ہے کہ سنہ 2019 سے سرکاری کاغذوں میں زمین میرے نام پر ہے اور کاغذوں کی حد تک قبضہ بھی میرے ہی پاس ہے، لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ میں سرکار کے خزانے میں سالانہ پانچ سو روپے فی ایکڑ کے حساب سے لیز کی رقم جمع بھی کرا رہا ہوں، لیکن ریاست کی طرف سے الاٹ کی گئی میری 197 کنال زمین پر کوئی اور غیر قانونی طریقے سے قابض ہے۔
ضلع راجن پور کے زرعی گریجویٹ شہزاد نسیم کہتے ہیں ’مجھے اندازہ نہیں تھا کہ میرے خواب ایسے ٹوٹیں گے۔‘
’غیر قانونی قابضین سے قبضہ لینے کا مطلب موت کا دعوت دینا ہے‘
سنہ 2010 میں پنجاب کے اُس وقت کے وزیراعلیٰ شہباز شریف نے اعلان کیا تھا کہ صوبے بھر میں زرعی گریجویٹس، ویٹرنری گریجویٹس اور جنگلات میں گریجویشن کرنے والوں کو سرکاری زمینیں لیز پر دی جائیں گی تاکہ یہ پڑھے لکھے نوجوان جدید اور سائنسی طریقوں سے کھیتی باڑی کر کے صوبے میں زرعی ترقی کو فروغ دے سکیں۔
شہزاد نسیم بتاتے ہیں کہ تمام زرعی گریجویٹس کی طرح انھیں بھی زمین ملنی تھی کیونکہ وہ زرعی گریجویٹ تھے اور میرٹ پر پورا اُترتے تھے۔
شہزاد نسیم کے اس دعوے کہ (سنہ 2019 سے سرکاری کاغذوں میں زمین اُن کے نام پر ہے مگر قابضین اس پر قابض ہیں) پر بات کرتے ہوئے ڈپٹی کمشنر راجن پور احمر نائیک نے بتایا کہ راجن پور میں سات زرعی گریجویٹس کو زمینیں الاٹ کی گئی تھیں مگر ان نوجوانوں کو الاٹ کردہ زمینیں پہلے ہی کسی اور سکیم کے تحت دوسرے افراد کو الاٹ کی جا چکیں تھیں اور پرانے قابضین عدالت چلے گئے تھے۔
احمر نائیک کے مطابق ’جب تک عدالت اس معاملے میں فیصلہ نہ کر دے انتظامیہ پرانے قابضین سے قبضہ واپس نہیں لے سکتی۔ اگر کوئی ہائی کورٹ کا حکم لے آئے تو ہم فوری طور پر قبضہ دلا دیں گے۔‘
شہزاد نسیم کہتے ہیں ’میں ان غیرقانونی قابضین کی طاقت کو جانتا ہوں اور کمزور ہونے کی وجہ سے قبضہ نہیں لے سکتا۔ پنجاب حکومت بھی بے بس دکھائی دیتی ہے۔ جس پالیسی کے تحت مجھے زمین الاٹ کی گئی تھی اس کی معیاد سنہ 2025 تک ختم ہو جائے گی۔‘
شہزاد کہتے ہیں کہ ’غیر قانونی قابضین سے قبضہ لینے کا مطلب موت کا دعوت دینا ہے۔‘
ہالینڈ سے پاکستان آنے والا زرعی گریجویٹ جو قتل کر دیا گیا
پاکستان اگریرین ایسوسی ایشن ملک کے زرعی گریجویٹس کو ایک پلیٹ فارم مہیا کرتی ہے اور ان کے لیگل معاملات بھی دیکھتی ہے۔
پاکستان اگریرین ایسوسی ایشن کے کوآرڈینیٹر آصف نذیر نے ناصر عباس نامی ایک زرعی گریجویٹ کی کہانی سُنائی جنھیں سنہ 2017 میں کوٹ ادو کے چک نمبر ٹی ڈی اے 646 میں قتل کر دیا گیا تھا۔
ناصر عباس کے بھائی منور اقبال کا کہنا ہے کہ ان کے بھائی نے ہالینڈ سے زراعت میں پی ایچ ڈی کی تھی اور وہ وہیں نوکری بھی کرتے تھے مگر جب شہباز شریف نے گریجویٹس کو زرعی زمین الاٹ کرنے کی سکیم متعارف کرائی تو ناصر ہالینڈ چھوڑ کے وطن واپس آ گئے۔
اس قتل کی ایف آئی آر کے مطابق سکیم کے تحت ناصر عباس کو ساڑھے بارہ ایکڑ زمین لیز پر الاٹ ہوئی تھی جس پر کچھ لوگ غیرقانونی طور پر قابض تھے۔ بعد ازاں انتظامیہ نے حکومت پنجاب کے حکم پر زمین واگزار کروا لی۔
مگر وہ لوگ جو پہلے اس زمین پر قابض تھے انھوں نے ناصر عباس کو اُس وقت مبینہ طور پر گولیاں مار کر ہلاک کر دیا جب وہ اپنی زمین دیکھنے جا رہے تھے۔
آصف نذیر کے مطابق یوں ہالینڈ پلٹ نوجوان ملک کی زراعت کے ترقی کی خواہش میں جان کی بازی ہار گیا۔
زرعی پالیسی تھی کیا؟
ڈپٹی سیکریٹری ایڈمن ایس اینڈ جی ا ے ڈی محمد اشرف کے مطابق پنجاب حکومت نے 2010 میں زراعت، جنگلات اور لائیوسٹاک کی ترقی کے لیے پنجاب کے زرعی، ویٹرنری اور فاریسٹری گریجوئیٹس کو سرکاری زمینیں الاٹ کرنے کی سکیم کا اجرا کیا تھا۔
وہ بتاتے ہیں کہ اس سکیم کے تحت پنجاب کے لگ بھگ دوہزار گریجویٹس کو قرعہ اندازی کے ذریعے ان کے متعلقہ ضلع اور تحصیل میں ساڑھے 12 ایکڑ نہری یا 25 ایکڑ بارانی سرکاری زمینیں الاٹ کی گئیں تھیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ جب وہ ضلع بھکر میں تعینات تھے تو انھوں نے طاقتور نوانی سرداروں سے زمین واگزار کروا کر الاٹ کردہ زمینیں ان زرعی گریجویٹس کے حوالے کی تھیں۔
راو محمد تسلیم اختر ڈپٹی سیکریٹری ویلفیئر ایس اینڈ جی ا ے ڈی حکومت پنجاب نے دعویٰ کیا کہ انھوں نے بہاولپور ضلع میں تعیناتی کے دوران تقریباً 10 زرعی گریجویٹس کو ان کی زمینوں کا قبضہ دلوایا تھا۔
’بہت سے گریجویٹس آج بھی الاٹ کردہ زمینوں پر کاشتکاری کر رہے ہیں اور کچھ ایسے بھی ہیں جنھوں نے پالیسی کے برعکس زمینیں ٹھیکے پر دے رکھی ہیں۔‘
’بہت سے ایسے گریجویٹس ہیں جنھوں نے اپنی زمینوں کو مزارعوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جو کچھ عرصے تک تو ٹھیکہ دیتے رہے مگر بعد میں قابض ہوگئے۔ زرعی گریجویٹس کو اپنی زمینوں کی حفاطت کرنی چاہیے تھی۔‘
’سردار اور سرکاری افسر زمین کی واگزاری میں رکاوٹ‘
پاکستان اگریرین ایسوسی ایشن کے کوآرڈینیٹر آصف نذیر الزام عائد کرتے ہیں کہ زیادہ تر گریجویٹس کو زمینوں کے قبضے نہیں ملے کیونکہ پنجاب خصوصا ڈیرہ غازی خان ڈویژن میں بسنے والے تمن سردار اس میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔
’یہ پالیسی سرداری نظام اور چودھراہٹ میں باقاعدہ دراڑ ڈالتی ہے۔ اس لیے سردار اور سرکاری افسران کی ملی بھگت سے الاٹ شدہ زمین کا قبضہ بھی نہیں مل رہا۔‘
وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ تحصیل تونسہ میں سابق نون لیگی ایم پی اے میر بادشاہ قیصرانی ایسی 2200 کنال زرعی اراضی پر قابض ہیں جو ماضی میں زرعی گریجویٹس کو الاٹ کی جا چکی ہے۔
میر بادشاہ قیصرانی نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے انھیں بے بنیاد قرار دیا ہے۔
تاہم آصف نذیر کہتے ہیں کہ زرعی اور ویٹرنری گریجویٹس نے وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار، بورڈ آف ریوینیو، ضلعی انتظامیہ اور اینٹی کرپشن پنجاب کو بھی درخواستیں دیں مگر کسی کے کان پر جوں بھی نہیں رینگی۔ ’ہماری طرح ریاست کے یہ ادارے بھی قابضین کے خلاف بے بس دکھائی دیتے ہیں۔‘
آصف نذیر کے مطابق زرعی گریجویٹس کے مطالبے پر وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے کمشنر ڈی جی خان سے رپورٹ بھی طلب کی تھی۔ دستاویزات کے مطابق 13 ستمبر 2019 کو وزیراعلیٰ پنجاب کی طرف سے کمشنر ڈی جی خان کو لکھا گیا کہ قانون کے مطابق غیرقانونی قابضین کے خلاف ایکشن لیں۔
ان دستاویزات کے مطابق 26 مارچ 2021 کو سردار میر بادشاہ قیصرانی کے خلاف ریاست کے 500 ایکٹر قبضہ میں لینے کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا اور ایف آئی آر نمبر 48/21 سرکار کی مدعیت میں تھانہ ریتڑہ تحصیل تونسہ ضلع ڈیرہ غازی خان میں درج کی گئی۔
آصف نذیر کہتے کہ تاحال وہ انصاف کے منتظر ہیں کیونکہ کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔
میں سردار ابن سردار ہوں
میر بادشاہ قیصرانی کہتے ہیں کہ ’میرے خلاف زمینوں پر قبضے کے حوالے سے جھوٹی ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔ میں ایک بلوچ سردار ہوں اور پنجاب کا وزیراعلیٰ بھی ایک بلوچ سردار ہیں۔ یہ میرے لیے حیرانی کی بات ہے کہ صوبے کا سربراہ بلوچ سردار ہو، اور دوسرے بلوچ سردار کے خلاف ایف آئی آر درج ہو جائے۔ میں ایف آئی آر کے خاتمے کے لیے عدالت نہیں جاؤں گا بلکہ اچھے وقت کا انتظار کروں گا۔‘
’میں سردار ابن سردار ہوں، میں زرعی گریجویٹس کی زمینوں پر قابض نہیں ہو سکتا۔ میں زرعی گریجویٹس کے تمام الزامات کو بے بنیاد قرار دیتا ہوں۔‘
ڈی جی خان کے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ریونیو احمد حسن رانجھا کا دعویٰ ہے کہ میر بادشاہ قیصرانی زرعی گریجویٹس کی زمین پر قابض نہیں ہیں، مگر ہو سکتا ہے کہ ان کی برادری کے کچھ لوگ قابض ہوں۔
بالائی پنجاب میں صورتحال قدرے مختلف
شیخوپورہ کے رہائشی ڈاکٹر ندیم زراعت میں پی ایچ ڈی ہیں اور پاکستان اگریرین ایسوسی ایشن کے صدر ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ اس سکیم کے تحت انھیں بھی زمین ملی تھی جس پر آج بھی وہ خود ہی کاشتکاری کر رہے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’بالائی پنجاب میں قانون کی حکمرانی بہتر ہے جس کی وجہ سے یہاں کے زرعی گریجویٹس کو کم مسائل کا سامنا ہے۔‘
اُن کے مطابق بالائی پنجاب کے 70 فیصد گریجویٹس کو زمین مل چکی ہے مگر 30 فیصد گریجویٹس کو زمینوں پر قبضے جیسے مسائل کا سامنا ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ فیصل آباد ڈویژن میں اُس وقت کے ڈپٹی کمشنر نسیم صادق نے ایک ہی دن میں بیشتر گریجویٹس کو زمینوں کو قبضے دلوا دیے تھے۔
مجموعی طور پر کتنی زمین الاٹ ہوئی
دستیاب دستاویزات اور پنجاب ریوینیو ریکارڈ 2019-20 کے مطابق مجموعی طور پر 21577 ایکڑ سرکاری زمین 1546 زرعی، ویٹرنری اور فاریسٹری گریجویٹس کے لیے مختص کی گئی تھی۔ ریکارڈ کے مطابق 19206 ایکٹر زمین الاٹ کر دی گئی ہے۔
اس ریکارڈ کے مطابق 1082 گریجوئیٹس کو قبضہ بھی دے دیا گیا ہے۔ مزید براں ریکارڈ یہ کہتا ہے کہ مختص کی گئی زمین میں سے4547 ایکڑ ابھی تک کسی کو الاٹ نہیں کیے گئے جبکہ 1009 ایکڑ پر مختلف عدالتوں میں 77 کیسز چل رہے ہیں۔
’زرعی گریجویٹس نے بہت مایوس کیا‘
سینیئر ممبر بورڈ آف ریونیو بابر حیات تارڑ کہتے ہیں کہ ’سچ پوچھیں تو ان سب گریجویٹس نے بہت مایوس کیا ہے۔‘ یاد رہے کہ سینیئر ممبر بورڈ آف ریونیو حکومت کی تمام زمینوں کا نگران ہوتا ہے۔
بابر حیات تارڑ کہتے ہیں کہ زرعی گریجویٹس نے جدید سائنسی انداز میں کاشتکاری کرنی تھی، مگر ان میں سے بیشتر نے زمینیں ٹھیکے پر دینا شروع کر دیں اور شہروں میں جا کر ملازمتیں شروع کر دیں جو پالیسی کی روح کے خلاف ہے۔
مزید پڑھیے
انھوں نے دعویٰ کیا کہ زمینوں پر قبضے تب ہوئے جب سالہا سال وہ اپنی زمینوں پر نہیں گئے۔ پالیسی کے مطابق وہ کوئی کاروبار یا ملازمت نہیں کر سکتے تھے مگر وہ کاروبار بھی کر رہے ہیں اور ملازمت بھی کرتے ہیں۔
’یہ سکیم صنفی تعصب سے بھری ہوئی ہے‘
یہ سکیم کامیاب ہو سکتی تھی اگر اس پدر شاہی سماج میں صنفی تعصب کوٹ کوٹ کے نہ بھرا ہوتا۔
نیشنل کمیشن آن سٹیٹس آف وومن کی ممبر شائستہ بخاری کہتی ہیں کہ ’انسانی تاریخ میں کھیتی باڑی کا آغاز عورت سے ہوا تھا۔ اس پالیسی میں اُن عورتوں کو بالکل ہی نظر انداز کیا گیا جنھوں نے زرعی، جنگلات اور ویٹرنری میں گریجویشن کی تھی۔’
وہ کہتی ہیں کہ ’آج بھی دیہی علاقوں میں عورتیں ٹریکٹر بھی چلاتی ہیں، زمین میں بیج بھی ڈالتی ہیں اور فصلوں میں کھاد ڈالنا بھی جانتی ہیں۔‘
شائستہ کہتی ہیں ’عورت زمین سے جڑی رہتی ہے۔ دفتروں میں نوکری کرنے کی نسبت ان کے لیے اپنی زمینوں پر کام کرنا زیادہ آسان ہے۔ اگر حکومت سپورٹ کرے تو خاتون سے بہتر کسان کون ہو سکتا ہے۔‘
بشکریہ : بی بی سی اردو ڈاٹ کام
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر