دسمبر 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

‎ماہواری اور مرینہ!||ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

جب ماہواری کا خون پرنالے سے تیز رفتار گرتے پانی کی طرح ہو جائے، جب بچوں کی پیدائش میں وقفہ کرنا ہو، جب ماہواری کا درد (Dysmenorrhea ) زندگی عذاب بنا دے اور جب مینوپاز کے بعد زندگی بے رنگ ہو جائے، یقین کیجئے ان تمام مواقع پہ ماٰئیرینا آپ کی ایسی سہیلی بن جائے گی جس کے بنا آپ ایک پل بھی نہیں گزار سکیں گی۔

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج پھر دو باتیں ہوئیں، معاف کیجئے گا دو نہیں تین ! واللہ, ہمیں وہ جادوگر ہر گز نہ سمجھیے جو ہیٹ سےکبھی کبوتر نکالتا ہے اور کبھی ریشمی رومال! ہم تو بس یونہی کچھ نہ کچھ سنانے کے شوق میں اور آپ کی محبت میں!

دہلی سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر پونم پڑوسی ہسپتال میں میڈیکل سپیشلسٹ ہیں۔ وہ اپنے چیک آپ کے لئے آئیں اور ہماری ٹرینی ڈاکٹر کو انہوں نے داستان حمزہ کی طرح اپنی کہانی بیان کر دی کہ کیسے ماہواری انہیں موت کے دہانے تک لے گئی تھی اور انہیں مرینہ نے بچا لیا۔

ابھی پونم کی کہانی جاری تھی کہ یار غار ہما کوکب بخاری کا پیغام آن پہنچا، وہ جو تم نے مرینہ کا کہا تھا نا اس کی بات میں نے کر لی۔

کچھ دیر بعد ہی ایک اور خاتون ہانپتی کانپتی ہوئی تشریف لے آئیں جو ماہواری کی تباہ کاریوں سے تنگ آ کر اب مرینہ کی پناہ میں آنا چاہتی تھیں۔

پریشان ہو گئے نا کہ کون ہیں یہ مرینہ بی بی جن کا ذکر چہار سو پھیلا ہے۔ اداکارہ مرینہ خان کا تو کسی ایسی این جی او سے کوئی تعلق نہیں۔ ویسے ہم بھی ایسے ہی حیران ہوئے تھے جب ہمارے گائناکالوجسٹ پروفیسر عطا اللہ خان نے ایک صبح مرینہ کا ذکر خیر چھیڑا۔

پروفیسر عطا اللہ خان انگلینڈ سے جب لوٹے تو قابلیت اور تجربہ تو لائے ہی، جونئیر ڈاکٹرز کو دنیا میں ہونے والی نئی نئی ریسرچ سے متعارف کروانے کا شوق بھی عروج پر تھا۔ صبح صبح نشتر ہسپتال کے وارڈ نمبر سولہ پہنچتے، میٹنگ روم میں سرخ رنگ کا پروجیکٹر کھولتے، سلائیڈز لگاتے اور یہ پروا کیے بغیر پڑھانا شروع کر دیتے کہ کون آیا، کون نہیں!

دنیا میں جو بھی میڈیکل جرنل شائع ہوتا، اس میں لکھی ہوئی ہر بات ہمیں فورا بتائی جاتی۔ ڈیڑھ دو گھنٹے کی مغز کھپائی کے بعد وہ فورا چائے کے کمرے میں پہنچتے جہاں انگلینڈ کے قصوں کی محفل جمتی اور قہقہے چھت پھاڑنے کی کوشش کرتے۔

نوے کی دہائی کے آخری برس چل رہے تھے کہ ایک دن اپنے مخصوص انداز میں بولے، بھئی وہ مرینہ آ گئی ہے اب بہت سے مسئلے حل ہو جائیں گے۔ سر، مرینہ تو پچھلے دس برس سے آئی ہوئی ہے، ہم بولے۔ نہیں بھئی، ابھی آئی ہے ایک دو برس پہلے۔ نہیں سر آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے وہ تو تب آئی تھی جب ہم سٹوڈنٹ تھے۔ سر نے فورا سر ہلاتے ہوئے کہا نہیں بھئی نہیں، اتنی پرانی نہیں ۔ سر اتنی ہی پرانی ہے۔ ہم بھی ہار ماننے والوں میں سے نہیں تھے اور یہ تو مرینہ کا سوال تھا۔

اب عالم یہ تھا کہ ہم دونوں اس بحث میں الجھ کر زمین جنبد نہ جنبد گل محمد کی تصویر بنے بیٹھے تھے۔ آخر جھنجھلا کر ہم نے کہا، سر اس کا پہلا ڈرامہ ان کہی تھا اور ہم تب ایف ایس سی کر رہے تھے۔ سر چونک کر بولے، کون؟ سر وہی مرینہ خان جس کی آپ بات کر رہے تھے۔ مگر میں تو مرینہ خان کی بات نہیں کررہا، میں تو مائیرینا کے متعلق بتا رہا ہوں، وہ اپنی چندیا کھجاتے ہوئے بولے۔ یہ مائیرینا کون ہے سر؟ اب آنکھیں پھاڑے ہم پوچھ رہے تھے۔

ارے بھئی، میڈیکل سائنس نے زبردست چیز بنائی ہے۔ اب یہ جو ماہواری عورتوں کی جان عذاب میں کئے رکھتی ہے نا، اس میں تو کچھ کمی ہو گی، سر مسکرا کر بولے۔ دیکھو پاکستان میں کب تک پہنچے گی؟

یہ تھا مائیرینا عرف مرینہ سے ہمارا پہلا تعارف۔ اب جب بھی مائیرینا کی بات ہوتی، یار لوگ مسکرا کر ہماری طرف ضرور دیکھتے اور ہم بھی ڈھیٹ بن کر دانت نکوس لیتے۔

ویسے بھی ہمیں مرینہ خان بہت اچھی لگتی تھیں، کچھ عمر بھی ان کے قریب تھی اور کچھ وہ ہوسٹل کے اس دور کی یاد دلاتی تھیں جب سو دو سو لڑکیاں چھوٹے سے ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر پرچھائیاں اور دھوپ کنارے دیکھتیں۔ بیچ میں اگر کوئی بھی کھسر پھسر کرتی تو فوراً کئی سر اس طرف مڑتے جن پہ لگی شعلہ بار آنکھیں یوں گویا ہوتیں کہ بی بی باتیں کرنی ہیں تو باہر جاؤ، دیکھتی نہیں ہو ابھی مرینہ اور ڈاکٹر احمر کا سین چل رہا ہے۔

ویسے ہم سب اس بات پہ کافی حیران ہوتے کہ میڈیکل وارڈز میں تو ہم بھی گھومتے پھرتے ہیں، رنگ برنگے کپڑے بھی جنریشن سے لے کر پہن لیتے ہیں، شوخ و چنچل ہونے میں بھی کوئی شک نہیں، لیکن یہ ڈاکٹر احمر جیسے سینئیر ہمیں نظر کیوں نہیں آتے؟

آپس کی بات ہے ہماری تو شاید قسمت ہی خراب تھی کہ زیادہ تر ماتھے پہ تیوریاں ڈالے، گنج اور توند میں خود کفیل اور مزاج میں ہری مرچ جیسے سینئرز سے ہی ہمیشہ پالا پڑا۔ کچھ صوم و صلواۃ کے پابند بھی ملے جن کی نظر یا تو وارڈ کی چھت سے لٹکتے بلب پہ جمی رہتی، یا بستر کے نیچے پڑی کوڑے کی بالٹی پر۔ سو ہماری حسرتوں کے غنچے تو کھلے ہی نہیں۔ پچھلے برس حسینہ معین (اب مرحومہ) سے ملاقات ہوئی تو شکوہ لبوں پہ رکھا ہی رہ گیا کہ اے چارہ گر، راحت کاظمی کو سینئر کا رول دینا ضروری تھا کیا؟ کیا بگڑتا آپ کا اگر وہ رول منصور بلوچ کر لیتے؟ ہمارے دلوں پر یوں مونگ تو نہ دلی جاتی۔

دیکھ لیا نا آپ نے، آج بھی ہم مائیرینا بھول کر مرینہ میں گم ہیں۔

مائیرینا (Mirena) کی پیدائش انیس سو نوے میں فن لینڈ میں ہوئی۔ ہماری قیاس آرائی ہے کہ شاید فن لینڈ والے بھی دھوپ کنارے دیکھ کر مرینہ خان کے چاہنے والے بن چکے تھے اسی لئے خواتین کے لئے اس قدر زبردست ایجاد کو یہ نام دیا گیا۔

مائیرینا ایک پتلی سی تار ہے جو رحم میں ویجائنا کے راستے رکھی جاتی ہے۔ اس میں ایک ہارمون پروجیسٹرون progesterone  ڈالا گیا ہے جو ہر روز معین مقدار خارج کرتا ہے۔ یہ تار پانچ سے چھ برس تک کام آتی ہے۔

اس تار کو کب استعمال کرنا چاہئے ؟

جب ماہواری کا خون پرنالے سے تیز رفتار گرتے پانی کی طرح ہو جائے، جب بچوں کی پیدائش میں وقفہ کرنا ہو، جب ماہواری کا درد (Dysmenorrhea ) زندگی عذاب بنا دے اور جب مینوپاز کے بعد زندگی بے رنگ ہو جائے، یقین کیجئے ان تمام مواقع پہ ماٰئیرینا آپ کی ایسی سہیلی بن جائے گی جس کے بنا آپ ایک پل بھی نہیں گزار سکیں گی۔

مرینہ خان اسی کی دہائی میں آئیں جبکہ مائیرینا نوے کی دہائی میں لیکن نہ صرف بیسویں صدی ان کی آمد کو ہمیشہ یاد رکھے گی بلکہ ہم بھی !

بشکریہ: ڈی ڈبلیو اردو

یہ بھی پڑھیے

ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے

About The Author