دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کوئی تو ہے، کہیں تو ہے||رضاعلی عابدی

تو تازہ خبر یہ ہے کہ وہ دوربین بن کر تیار ہوگئی ہے۔اسے خلا میں بھیج دیا گیا ہے۔ ویسے تو وہ سکڑ کر راکٹ کے اندر سما گئی تھی لیکن خلا میں جاکر اسے زمین سے ایک برقی اشارہ دیا گیا جس کو پاکر وہ چھتری کی طرح کھل کر ٹینس کے میدان کے برابر ہوگئی۔

رضاعلی عابدی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انسان دیوانہ ہے۔ قدرت کے راز جاننے کے پیچھے حیران و پریشان ہے۔ہمارا سورج کب بنا۔ ہماری دنیا کب وجود میں آئی۔ہماری کہکشاں دیکھنے میں کیسی ہے۔ اس کہکشاں میں کنچے کھیلنے والی گولی جیسی ہماری دنیا کس جگہ چکر پر چکر کھارہی ہے۔ہماری کہکشاں جیسی اور کتنی کہکشائیں ہیں۔کائنات میں جہاں تک نگاہ جاتی ہے، سورج ہی سورج ہیں جنہیں ہم ستارے کہتے ہیں۔ہم نے بڑی دوربینیں بنا کر بہت دور تک دیکھا ہے۔ ہم وہ جگہ دیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں جہاں ستار ے ختم ہوجاتے ہیں۔مگر کیا کائنات میں ایسی کوئی جگہ ہے جہاں جا کر ستار ے ختم ہو جاتے ہیں۔ اگر ایسا کوئی مقام ہے تو سوال یہ ہے کہ اس سے آگے کیا ہے۔اور اگر وہ جگہ خالی ہے تو اس سے باہر کیا ہے۔کیا کوئی ایسا علاقہ ہے جہاں کچھ بھی نہیں۔

ہم نے بڑی بڑی دور بینیں بنا کر دیکھ لیا۔مشکل یہ ہے کہ ہمیں صرف اور صرف وہ ستارے نظر آتے ہیں جن کی روشنی کائنات میں سے گزرتی ہوئی ہم تک پہنچ رہی ہے۔جو ستارے کھربوں میل دور ہیں،ان کی روشنی ابھی راہ میں ہے۔ روشنی زمین تک پہنچے گی تو وہ نظر آئیں گے۔مگر انسان کو اتنا قرار کہاں کہ روشنی کے زمین تک پہنچنے کا انتظار کرے۔انسان کے دماغ میں تجسس کا جو کیڑا رینگ رہا ہے۔ اسے اتنا قرار نہیں کہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کے بیٹھے اور سب سے دور واقع ستارے کی ایک ذرا سی کرن کے زمین تک پہنچنے کا انتظار کرے کیوں کہ اس میں تو شاید لاکھوں کروڑوں برس لگیں۔جستجو کی یہ آگ بجھانے کا ایک طریقہ سمجھ میں آتا ہے۔ وہ یہ کہ اگر کائنات میں چمکنے والے پہلے ستارے کی روشنی ہم تک پہنچنے میں دیر ہے تو کیوں نہ ہم آگے بڑھ کر اُس تک پہنچ جائیں اور اسے راستے ہی میں اچک لیں۔اس کے لئے ایک بہت بڑی، بہت ہی بڑی دوربین کی ضرورت ہوگی۔ جو زمین کی فضا سے نکل کے صاف و شفاف کائنات میں جائے اور خلا کے اندھیرے میں جھانک کر اس مقام کو دیکھے جہاں کائنات کا پہلا ستارا بنا تھا۔

تو تازہ خبر یہ ہے کہ وہ دوربین بن کر تیار ہوگئی ہے۔اسے خلا میں بھیج دیا گیا ہے۔ ویسے تو وہ سکڑ کر راکٹ کے اندر سما گئی تھی لیکن خلا میں جاکر اسے زمین سے ایک برقی اشارہ دیا گیا جس کو پاکر وہ چھتری کی طرح کھل کر ٹینس کے میدان کے برابر ہوگئی۔ اب تک بننے والی دنیا کی سب سے بڑی اس دوربین میں سونے کے پانچ آئینے لگے ہیں جو خلا کی گہرائی سے آنے والی روشنی کی موہوم سی کرن کا عکس اتار لیں گے۔پھر ہم اس عکس کو یوں دیکھ سکیں گے جیسے خورد بین میں ذرا سے ذرّے بھی دیکھ لئے جاتے ہیں۔

سائنس داں یہ تو مانتے ہیں کہ کائنات میں پہلے کچھ تھا جو ایک دھماکے کے ساتھ پھٹا۔ بہت ہی بڑا دھماکہ تھا جسے ِبِگ بینگ کہتے ہیں۔ وہ جو پھٹا تو ٹکڑے ٹکڑے ہوکر خالی پڑی ہوئی کائنات میں پھیلتے گئے ۔ ان کی کہکشائیں بن گئیں۔ ہر شے نے گھومنا اور مزید پھیلنا شروع کردیا۔ یہ عمل آج بھی جاری ہے۔ کائنات پھیلتی جارہی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کہاں تک پھیلے گی۔ اس کا جواب اس ستارے سے ملے گا جو سب سے پہلے وجود میں آیا تھا۔ اب خلائی دوربین بنا کر سائنس داں اسی پہلے ستارے کو دیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ ستارا کروڑوں سال پہلے اسی بگ بینگ کے ساتھ چمکا تھا ۔ اس کی روشنی خلا میں سفر کررہی ہے مگر ابھی ہماری زمین تک نہیں پہنچی ہے۔

اب شروع ہوتے ہیں وہ سوال جو انسان کے ذہن میں کلبلا رہے ہیں۔بڑے دھماکے سے پہلے جو شے تھی وہ کیسے بنی۔ کیا خود ہی بن گئی۔یا کوئی طاقت سرگرم عمل تھی۔وہ شے جس کائنات میں موجود تھی اس کی حدیں کہاں تک تھیں۔ اس سے باہر اور آگے کیا تھا۔ کیا یہ دھماکہ اتفاقیہ طور پر ہوگیا۔ تو اس میں اتنے انتشار کے باوجود اتنا نظم و ضبط کیسے ہے۔ساری کہکشائیں باہم ٹکرا کر پاش پاش کیوں نہیں ہو جاتیں۔کروڑوں سال سے سارے ستارے اور سیارے مقررہ وقت پر ایک طے شدہ راستے پر چلے جارہے ہیں۔اور جدید دوربینوں سے ہم دیکھ رہے ہیں،کچھ ستارے مر بھی رہے ہیں اور کچھ نئے ستارے پیدا بھی ہورہے ہیں۔تو یہ سارا نظا م کیسے چل رہا ہے۔ کسی نے چلایا ہے تو چل رہا ہے یا خود ہی چلے جارہا ہے۔ یہاں آکر سائنس دانوں کی عقل جواب دے جاتی ہے۔ بڑی چھان بین کے بعد وہ اتنا تو مانتے ہیں کہ قدرت کی اس نظم و ضبط کی زنجیر کی ساری کڑیاں سمجھ میں آتی ہیں ۔البتہ ایک کڑی لاپتہ ہے۔ ایک کڑی گُم ہے ۔ ایک کڑی درمیان سے غائب ہے یا دوسرے لفظوں میں نظر نہیں آرہی ہے۔

بہت دماغ کھپانے والے ماہرین اتنا تو ماننے لگے ہیں کہ یہ جو کچھ ہو رہا ہے اس میں کہیں نا کہیں عقل کو دخل ہے۔ کہیں کوئی طاقت ہے جو ریاضی کے ضابطوں سے بھی زیادہ علم رکھتی ہے۔ اور بس۔ سائنسداں اس سے آگے اس وقت تک کچھ نہیں کہیں گے جب تک کسی ٹھوس شہادت تک ان کی رسائی نہ ہوجائے۔ یا یوں کہئے کہ جب تک بڑے دھماکے کی کرن خلا سے گزرتی ہوئی ہم تک نہ پہنچ جائے اور اپنی داستان نہ کہہ سنائے۔

یوں لگتا ہے کہ وہ جو کوئی بھی ہے، جہاں بھی ہے اور جیسا بھی ہے، اپنا راز جان بوجھ کر چھپا رہا ہے اور انسان سے کہے جارہا ہے کہ میں کون ہوں، اس کا جواب پیش کرو تو جانوں۔آخر تمہیں شعور دیا ہے تو کس لئے۔ اب بولو۔

بشکریہ جنگ

مولانا مجھے نہ کہا جائے۔۔۔رضاعلی عابدی

کچھ لوگ ٹیکہ لگائیں گے۔۔۔رضاعلی عابدی

جمہوریت کا تجربہ بھی ناکام ہو رہا ہے؟۔۔۔رضاعلی عابدی

رضا علی عابدی کی دیگر تحریریں پڑھیے

About The Author