افتخار الحسن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب مہنگائی کی صورت حال اور کسانوں کو کھاد کی عدم دستیابی پر غور کرتے ہیں توجنوبی پنجاب میں بلدیاتی انتخابات حکومتی جماعت کیلئے خاصے مشکل نظر آتے ہیں ۔
بلدیاتی انتخابات کیلئے جوڑ توڑ شروع ہے۔ حکومتی جماعت کے بڑے کھلاڑی خاموش نظر آتے ہیں جبکہ عام ورکرز تحریک انصاف کا جھنڈا بلند کئے ہوئے ہیں ۔ حکومتی جماعت کے بڑے کھلاڑیوں کا مختلف سیاسی جماعتوں سے رابطوں کا سلسلہ جاری ہے۔ حکومتی جماعت کیلئے بلدیاتی انتخابات کسی امتحان سے کم نہ ہوں گے ۔ہوسکتا ہے زیادہ تر امیدوار آزاد حیثیت سے بلدیاتی انتخابات کے میدان میں اتریں یا آزاد امیدواروں کو سپورٹ کریں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے اپنے آبائی علاقے تونسہ شریف کی صورتحال ابتر ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار جہاں سے ایم پی اے منتخب ہوئے ہیں وہاں کے ایم این اے خواجہ شیراز جن کا تعلق بھی تحریک انصاف سے ہے ایک مدّت سے اپنی جماعت سے نالاں ہیں جن کو راضی کرنے میں حکومتی جماعت ناکام رہی ہے۔ وہ اپنے امیدوار آزاد حیثیت سے میدان میں اتار سکتے ہیں یا پھر کسی دوسری جماعت کے امیدواروں کو سپورٹ کر سکتے ہیں۔
اسی طرح ڈی جی خان شہر میں بھی تحریک انصاف کیلئے کافی مشکلات ہیں۔ اب تک کی صورت حال کے مطابق وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اپنے ہوم گراؤنڈ یعنی ڈی جی خان میں بھی اپنی پکڑ مضبوط کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ گزشتہ ماہ ڈی جی خان کے ایک مضبوط گروپ جس میں متعدد چیئر مین یونین کونسل اور کونسلرز نے سردار اویس لغاری کے گروپ میں شمولیت اختیار کی ہے جو تحریک انصاف کیلئے بڑا دھچکا ہے۔ ڈی جی خان کے میئر کیلئے تحریک انصاف کے پاس کوئی مضبوط امیدوار موجود ہی نہیں۔ البتہ ڈی جی خان شہر سے آزاد حیثیت سے منتخب ہونے والے حنیف پتافی جو بعد میں تحریک انصاف میں شامل ہوئے اور ان کو وزیر اعلیٰ پنجاب کا مشیر برائے صحت مقرر کیا گیا کے بھائی لطیف پتافی بھی میئر ڈی جی خان کے امیدوار ہیں۔ اگر تحریک انصاف نے ان کو ٹکٹ جاری کیا تو شاید مقابلہ بن سکتا ہے کیونکہ حنیف پتافی کا ذاتی طور پر ڈی جی خان شہر میں خاصا اثر و رسوخ ہے جس کی واضح مثال 2018 ء کے عام انتخابات ہیں جہاں انہوں نے تحریک انصاف سمیت مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی کے امیدوار کو شکست سے دوچار کیا ۔بہرحال چار سالہ اقتدار اور اربوں روپے کے منصوبے بھی وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو ڈیرہ غازی خان میں مضبوط نہ کر سکے ۔اسی طرح جنوبی پنجاب کے دیگر علاقوں میں وزیر اعلیٰ پنجاب کا اثر و رسوخ نہ ہونے کے برابر ہے۔ ملتان میں بھی بلدیاتی انتخابات کیلئے حکومتی جماعت کے پاس کوئی قابل ذکر امیدوار نہیں ہے اور یہ بھی عین ممکن ہے کہ ملتان میں مئیر کا مقابلہ بھی پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن)کے درمیان ہو اور حکومتی جماعت شاید تیسرے نمبر پر چلی جائے ۔
یہاں پیپلز پارٹی کے بجائے سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کا اپنا ایک حلقہ احباب ہے، اگر ان کے بیٹے علی موسیٰ گیلانی مئیر کیلئے میدان میں اترتے ہیں تو یقینی طور پر تگڑا میچ پڑے گا اور عوام سے براہ راست ووٹ کا فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ ملتان میں ووٹر سب سے زیادہ مسلم لیگ (ن)کا ہے اور المیہ یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن)کے پاس بھی کوئی قابل ذکر میئر کا امیدوار موجود نہیں۔ مسلم لیگ (ن)کو مئیر کے امیدوار کیلئے انتہائی محتاط فیصلہ کرنا ہوگا ورنہ سابق مئیر نوید الحق آرائیں کی جگ ہنسائی عوام بھولے نہیں بلکہ ملک بھر میں مسلم لیگ (ن)کیلئے شرمندگی کا باعث بنے۔
تحریک انصاف کی جانب سے اگر کسی ورکر کو ٹکٹ جاری کیا گیا تو شاید مقابلہ بن سکتا ہے۔ ورنہ ضلع بھر میں پہلے بھی تمام پارلیمنٹیر ینز کا تعلق حکومتی جماعت سے ہی ہے مگر کارکن شدید مایوسی کا شکار ہیں۔ سابق ضلعی صدر اعجاز جنجوعہ میئر ملتان کیلئے حکومتی جماعت کے امیدوار سامنے آئے ہیں ،جنہیں تحریک انصاف کے ورکرز عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ دوسرے ایم این اے تحریک انصاف ملک احمد حسین ڈیہڑ کے بھائی آصف ڈیہڑ ، ملک عامر ڈوگر معاون خصوصی وزیراعظم کے بھائی عدنان ڈوگر بھی تحریک انصاف کے امیدواروں میں شامل ہیں۔ حتمی فیصلہ ابھی تک کوئی جماعت نہیں کر سکی البتہ جوڑ توڑ جاری ہے ۔ اصل صورت حال بھی ٹکٹوں کے اجراء کے بعد ہی سامنے آئے گی۔
اسی طرح مئیر بہاولپور کیلئے بھی تمام سیاسی جماعتیں اپنی اپنی پلاننگ میں مصروف ہیں۔ بہاولپور میں بھی مسلم لیگ (ن)کا ووٹ بینک موجود ہے مگر اچھے امیدوار کا چناؤ مشکل ہے کیونکہ سب اپنے کسی بھائی یا کسی عزیز کو پارٹی ٹکٹ جاری کرانا چاہتے ہیں جو کسی بھی جماعت کیلئے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔
اسی بلدیاتی انتخابات میں جنوبی پنجاب کے سیاسی خانوادوں نے اپنی اگلی منزل کا تعین کرنا ہے ۔اس سے بہتر اور موقع شاید میسر نہ ہو جس میں وہ باآسانی کسی بھی سیاسی جماعت میں خاموشی سے شمولیت اختیار کریں اور آنے والے عام انتخابات میں اسی جماعت کے ٹکٹ پر میدان میں اتریں۔ جنوبی پنجاب کے سیاست دانوں نے سیاسی جماعت نہیں بلکہ حکومتی جماعت کو جوائن کرنا ہوتا ہے اور ان کی وفاداریاں بھی کسی سیاسی جماعت کی بجائے صرف حکومتی جماعت کے ساتھ ہوتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیے:
عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ