رانا ابرار خالد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وزیراعظم عمران خان نے فرمایا ہے کہ اب ہسپتال نہیں بنیں گے بلکہ ہیلتھ کارڈ بٹے گا، اسے عوام کے لئے خوشخبری جانیں یا پھر بد خبری پہ محمول کریں۔
کیونکہ عمران خان نے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے سے اب تک جو بھی فرمایا بظاہر تو خوش نما تھا لیکن اس کی تعبیر ہمیشہ الٹی نکلی، اگر ان کے اسی اعلان کو دیکھا جائے تو قبل ازیں عمران خان سابق حکومتوں پر دھواں دار تنقید کر چکے ہیں کہ چالیس سال کے دوران عالمی معیار کا ایک بھی ہسپتال نہیں بنایا گیا، اگر یاد ہو تو عمران خان یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ موٹروے اور انڈر پاسز بنانے کی بجائے ہسپتال، سکول، کالج اور یونیورسٹیاں بنانی چاہئیں۔ ’مجھے یاد ہے ذرا ذرا، تمھیں یاد ہو کے نہ ہو۔
وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ اس سے غریب لوگوں کو اعلیٰ معیار کی صحت کی سہولتیں میسر آئیں گی جو کہ انہیں سرکاری ہسپتالوں میں دستیاب نہیں۔ وزیراعظم کے صحت سہولت پروگرام یا ہیلتھ کارڈ پر ہم آگے چل کر تفصیل سے بات کریں گے، تاہم ان کی یہ منطق تو ہر لحاظ سے قابل تعریف ہے بلکہ 22 کروڑ پاکستانیوں کو 75 سال بعد ایک ایسا وزیراعظم میسر آیا ہے جو ان کے دکھ درد کو سمجھتا ہے اور اس کا علاج بھی کرنا چاہتا ہے۔ سچی بات ہے کہ عوام کا دکھ درد تو صرف وہی حکمران سمجھ سکتا ہے جس نے کبھی قطار میں کھڑے ہو کر سرکاری ہسپتال کی پرچی بنوائی ہو اور ڈاکٹر سے چیک اپ کے لئے درجہ چہارم کے اہلکار کی گھنٹوں منتیں کی ہوں، جو سرکاری ہسپتال کے بستر پر ساری ساری رات درد سے تڑپتا رہا ہو اور نرس کی جھڑکیاں سن کر بھی اسے دعائیں دینے کا حوصلہ رکھتا ہو یا پھر آپریشن کے نام پر قینچی پیٹ میں رکھوا کر گھر لوٹا ہو۔
اگر ہر پاکستانی کو ہیلتھ کارڈ کے ذریعے اس ملک کی پانچ فیصد اشرافیہ کی طرح آغا خان میڈیکل کمپلیکس، شفا انٹرنیشنل ہسپتال، علی میڈیکل سنٹر، قائداعظم ہسپتال، ڈاکٹرز ہسپتال، ایم ایچ ہسپتال، اے ایف آئی سی جیسے مہنگے شفا خانوں میں نزلہ زکام، بخار، سردرد سے لے کر دل کا بائی پاس، گردے میں پتھری، ذیابیطس، کینسر وغیرہ کا علاج کروانے کی سہولت مل جائے تو ہم جیسے صحافی جلتے رہ جائیں گے جبکہ کم ازکم اگلے بیس عام انتخابات عمران خان کے نام پر پکے ہوجائیں گے۔
کاش ایسا ہو جائے۔ کیا ایسا ہو سکتا ہے؟ آئیے اس کا تفصیل سے جائزہ لیتے ہیں، آج کے دور میں کمپیوٹر یا اینڈرائڈ (ٹچ والا) موبائل فون تقریباً ہر پڑھے لکھے شہری کے پاس موجود ہے، ایسا کریں کہ اپنے موبائل فون پر گوگل اوپن کریں اور اس میں (انگریزی میں ) ’پی ایم ہیلتھ پروگرام‘ لکھیں اور سب سے اوپر والے لنک پر کلک کریں۔ پی ایم ہیلتھ پروگرام/ صحت سہولت پروگرام کی ویب سائٹ آپ کے سامنے کھل جائے گی، جلدی نہ کریں اور صحت کارڈ کے لئے اپنی اہلیت جانچنے سے پہلے اوپر موجود ڈاؤن لوڈ کے آپشن پر کلک کریں اور صحت سہولت پروگرام کا ( 28 فروری 2021 کا) چارٹر ڈاؤن لوڈ کر لیں۔
چارٹر کے صفحہ نمبر 4 کے آخری پیراگراف میں بتایا گیا ہے، ”یعنی آج، وفاقی حکومت اور حکومت پنجاب قومی صحت کارڈ کے تحت ایک کروڑ سے زائد خاندانوں کو (صوبہ پنجاب میں ) ہیلتھ انشورنس کی مفت سہولت فراہم کر رہی ہیں۔ نیز دونوں حکومتیں صوبہ پنجاب کے اضلاع کی مزید اڑھائی کروڑ آبادی کو اس مد میں لانا چاہتی ہیں۔ مزید برآں، خیبر پختونخوا حکومت ’صحت انصاف پلس کارڈ‘ کے ذریعے 60 لاکھ خاندانوں کو ہیلتھ انشورنس کی لاگت ادا کرنے کے لئے سہولت فراہم کر رہی ہے“ ۔
’پی ایم ہیلتھ (صحت سہولت) پروگرام‘ کے چارٹر کے مطابق اس طرح صوبہ پنجاب کی گیارہ کروڑ آبادی میں سے تقریباً 9 کروڑ لوگوں (ایک کروڑ 39 لاکھ یعنی 80 فیصد خاندانوں ) کو ہیلتھ کارڈ کے ذریعے اعلیٰ معیار کی علاج معالجے کی سہولتیں دستیاب ہوں گی ، چارٹر کے مطابق قومی صحت کارڈ رکھنے والے ہر خاندان کے افراد (منظور شدہ پرائیویٹ یا سرکاری ہسپتالوں ) سے مجموعی طور پر 7 لاکھ 20 ہزار روپے کا علاج کروا سکیں گے۔ تاہم وزیراعظم عمران خان کے مطابق فی خاندان سالانہ 10 لاکھ روپے کی سہولت ملے گی۔
حالانکہ چارٹر میں دو ٹریٹمنٹ پیکیج دیے گئے ہیں، پہلے یعنی ’ترجیحی ڈیزیز ٹریٹمنٹ پیکیج‘ کے تحت ابتدائی علاج کی مد میں 3 لاکھ روپے سالانہ جبکہ اضافی علاج کے لئے مزید 3 لاکھ روپے کی گنجائش موجود ہوگی، اسی طرح دوسرے یعنی ’ثانوی کیئر ٹریٹمنٹ پیکیج‘ کے تحت ابتدائی علاج کے لئے 60 ہزار روپے سالانہ جبکہ اضافی علاج کے لئے مزید 60 ہزار روپے کی گنجائش ہو گی۔ دراصل صحت کارڈ کے لئے پہلے 7 لاکھ 20 ہزار روپے کی علاج معالجے کی حد مقرر کی گئی تھی تاہم جو بعد میں وفاقی حکومت نے بڑھا کر 10 لاکھ روپے کر دی، مگر ’پی ایم صحت سہولت پروگرام‘ کی ویب سائٹ پر ابھی تک پرانا چارٹر موجود ہے، یہ بات سوچنے لائق ہے کہ جو حکومت اپنی ویب سائٹ پر اتنا اہم چارٹر بروقت اپ ڈیٹ نہیں کر سکتی وہ صحت کارڈ میں بروقت رقم کیونکر ڈالتی رہے گی، تاکہ کارڈ ڈیفالٹ نہ کرے اور جب کروڑوں لوگ علاج کے لئے پرائیویٹ ہسپتالوں پر ٹوٹ پڑیں تو ہسپتال کے مالکان (نان پیمنٹ کی وجہ سے ) ڈی چوک اسلام آباد پہنچ کر مظاہرہ نہ کر رہے ہوں۔
خدا کرے، یہ نوبت نہ آئے! اب ذرا ’پی ایم ہیلتھ (صحت سہولت) پروگرام‘ کے اعداد و شمار بھی کریں، حکومت کا دعویٰ ہے کہ صوبہ پنجاب کے ایک کروڑ 39 لاکھ سے زائد خاندانوں کو قومی صحت کارڈ کے ذریعے (منظور شدہ پرائیویٹ و سرکاری ہسپتالوں ) میں سالانہ 10 لاکھ روپے کے علاج معالجے کی سہولیات ملیں گی اور یہ رقم براہ راست ان ہسپتالوں کو ادا کی جائے گی جہاں سے لوگ اپنا اپنا صحت کارڈ درج کروا کر علاج کرائیں گے، اسی طرح صوبہ خیبرپختونخوا کے 60 لاکھ خاندانوں (چار کروڑ 69 لاکھ 80 ہزار لوگوں ) کو یہ سہولت فراہم کی جا رہی ہے۔
پاکستانی عوام کی صحت کی صورتحال آپ بخوبی جانتے ہیں ہر گھر میں ایک فرد کو ہیپاٹائٹس، ایک کو شوگر (ذیابیطس) اور ایک کو ہائی ہائپرٹینشن، بلڈ پریشر یا دل کا عارضہ لاحق ہے جبکہ سالانہ ہر خاندان میں کم و بیش ایک زچگی لازمی ہوتی ہے۔ کیونکہ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق پاکستان میں ہر چوتھے فرد کو ہیپاٹائٹس، ہر تیسرے فرد کو ذیابیطس اور ہر ایک کو تھوڑا بہت بلڈ پریشر یا ہائپرٹینشن کا عارضہ ضرور لاحق ہے۔
لہٰذا اس بات کا امکان تو نہ ہونے کے برابر ہے کہ کوئی خاندان صحت کارڈ تو حاصل کرے اور اس سہولت سے فائدہ نہ اٹھائے! اس طرح صوبہ پنجاب میں قومی ہیلتھ کارڈ رکھنے والے ایک کروڑ 39 لاکھ 18 ہزار 495 خاندانوں کے علاج معالجے کی مد میں ( 10 لاکھ روپے فی ہیلتھ کارڈ کے حساب سے ) وفاقی و صوبائی حکومت کو سالانہ 13 ہزار 918 ارب روپے جبکہ اسی طرح وفاقی و صوبائی حکومت کو ’صحت انصاف کارڈ پلس‘ رکھنے والے خیبرپختونخوا کے 60 لاکھ خاندانوں کے علاج معالجے کے لئے ( ( 7 لاکھ 20 ہزار روپے فی ہیلتھ کارڈ کے حساب سے ) سالانہ 4320 ارب روپے پرائیویٹ ہسپتالوں کے مالکان کو ادا کرنا ہوں گے جو کہ مجموعی طور پر 18 ہزار 238 ارب روپے سالانہ بنتے ہیں۔ اس کے برعکس وفاقی حکومت اور پنجاب و خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومتوں کا صحت کا مجموعی بجٹ 409 ارب روپے سالانہ ہے۔
اہم سوال یہ ہے کہ 2017 میں ہونے والی چھٹی مردم شماری میں صوبہ خیبر پختونخوا کی آبادی 3 کروڑ 5 لاکھ 8 ہزار 920 نفوس بتائی گئی تھی جو کہ ( 7.83 افراد فی خاندان کے فارمولے کے مطابق) 38 لاکھ 96 ہزار 414 خاندان بنتے ہیں۔ اگر صوبہ خیبر پختونخوا کی آبادی میں سالانہ 2.89 فیصد اضافہ بھی شامل کیا جائے تب بھی صوبے کی آبادی 3 کروڑ 40 لاکھ 36 ہزار نفوس ( 43 لاکھ 46 ہزار 839 خاندان) سے زیادہ نہیں بنتی۔ اس کے برعکس ’پی ایم ہیلتھ (صحت سہولت) پروگرام‘ کے چارٹر کے مطابق صوبائی حکومت نے 28 فروری 2021 تک صوبہ خیبر پختونخوا کے (سابقہ فاٹا کے ضم شدہ اضلاع کے بغیر) 60 لاکھ خاندانوں کو ’صحت انصاف پلس کارڈ‘ دیدیا تھا۔
لہٰذا اب یہ کسی کو بھی نہیں معلوم کہ صوبہ خیبرپختونخوا میں ایک کروڑ 29 لاکھ 44 ہزار اضافی لوگ ( 16 لاکھ 53 ہزار خاندان) کہاں سے آ گئے جن کو صوبائی حکومت کی جانب سے ’صحت انصاف پلس کارڈ‘ جاری کیے گئے۔ اگر کوئی وفاقی انویسٹی گیشن ایجنسی یا نیب اس معاملے کی جانب توجہ دے اور درست طریقے سے چھان بین کرے تو یہ موجودہ حکومت کا ایک اور مالیاتی سکینڈل بلکہ سب سے بڑا مالیاتی سکینڈل ہو گا۔ کیونکہ یہ کوئی چھوٹا موٹا معاملہ نہیں بلکہ 16 لاکھ 53 ہزار اضافی (گھوسٹ) ہیلتھ کارڈز کا سکینڈل ہے جن کی مالیت 1190 ارب روپے بنتی ہے! ۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ