محمد حنیف
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وطن عزیز میں لاکھوں چیزوں کی کمی ہو گی۔ پانی گُم ہوتا جا رہا ہے، گیس کی کمی ہے، لیکن ایک چیز کے بارے میں ہم خود کفیل ہیں کہ پاکستان میں شاعروں کی کمی نہیں ہے۔ شاید ہی کوئی محلہ یا بستی ایسے ہو جس میں کوئی شاعر نہ ہوں، اچھے، بُرے، آزاد، پابند ہر طرح کے شاعر موجود ہیں۔
ہمیں چونکہ بچپن سے ہی غزلوں نظموں کو رٹا لگوایا جاتا تھا اس لیے اچھی بُری شاعری کا فرق کبھی نہیں معلوم ہوا، لیکن بہت ہی بُری شاعری پر کان ضرور کھڑے ہوتے ہیں۔ جب وکلا تحریک کے عین عروج پر اعتزاز احسن نے پوری قوم کو اپنی تازہ نظم ’ریاست ہو گی ماں کے جیسی‘ پڑھ کر سُنائی تھی تو لگا کہ حضور جیسی شاعری ہو گی ریاست بھی ویسی ہی ہو گی، اور بُری شاعری کے ساتھ اچھا انقلاب نہیں آ سکتا۔
تو پھر کسی سیانے نے سمجھایا کہ اگر اچھی شاعری سے اچھا انقلاب آ سکتا تو ہم ہر روز تخت گراتے، تاج اچھالتے، تھیں بہت بے مہر صبحیں، مہربان راتوں کے بعد، پر گزارہ نہ کرتے۔
پاکستان کے سیاست دانوں کی پرانی نسل میں کچھ لوگ موقع کی مناسبت سے شعر کہہ دیتے تھے، کچھ تو خود بھی پارٹ ٹائم شاعر تھے، لیکن خدا کا شکر ہے کہ سیاستدانوں کی موجودہ نسل ایسی بدعتوں سے پاک ہے۔
شہباز شریف کو تو کبھی کبھی حبیب جالب یاد آتا تھا لیکن وہ بھی اب بھولتا جا رہا ہے۔ عمران خان کے پاس مشرق و مغرب کا تمام علم موجود ہے لیکن میں نے آج تک ان کے منھ سے کوئی شعر نہیں سُنا۔ اس لیے تین سال پہلے بے نظیر بھٹو کی برسی پر جب بلاول بھٹو کو ایک طویل نظم پڑھتے دیکھا تو خوشگوار حیرت ہوئی۔
محترم حسن مجتبیٰ کی یہ نظم بے نظیر کی موت کے چند دن بعد اسی ویب سائٹ پر چھپی تھی۔ یہ کسی بھی خوبصورت سیاسی شاعری کی طرح رونگٹے کھڑے کر دینے والی نظم ہے۔ ایک نعرہ مستانہ ہے۔ ماتم ہے، اعلان جنگ ہے۔
بلاول بھٹو جن کی اُردو کا ناجائز مذاق اڑایا جاتا ہے انھوں نے بغیر کسی تلفظ کی غلطی کے اور اتنی موسیقیت کے ساتھ یہ نظم پڑھی کہ شاعر نے خود بھی نہیں پڑھی ہو گی۔
پھر گذشتہ سال یہ نظم پاکستانی صحافت کے تمام ستاروں نے اور چند سماجی کارکنوں نے مل کر اور دل سے پڑھی۔ اس کی ویڈیو بھی موجود ہے۔ دوبارہ نظم سُننے کے بعد میں مجھے تھوڑا مختلف سا احساس ہوا۔
بلاول بھٹو والا ورژن پھر سُنا تو پتہ چلا کہ انھوں نے بلکہ غالباً جس نے انھیں یہ نظم دی، اس نے نظم میں ایک لفط بدل دیا تھا۔ اصلی نظم کا بند یوں ہے
وہ قیدی تھی زرداروں کی
عیاروں کی سرداروں کی
جرنیلوں کی، غداروں کی
وہ ایک نہتی لڑکی تھی
اور پیشی تھی درباروں کی
صحافتی برادری والی ویڈیو میں اس کو یوں ہی پڑھا گیا، لیکن بلاول بھٹو نے پڑھتے ہوئے بہت چابکدستی سے اسے یوں بدل دیا۔
وہ قیدی تھی زندانوں کی
عیاروں کی سرداروں کی
سندھ حکومت نے اس نظم کو ایک کتاب میں چھاپا ہے۔ اور وہاں بھی زرداروں کو زندانوں میں بدل دیا ہے۔
بلاول کے سیانے مشیروں نے یہی سمجھا ہو گا کہ زرداروں سے شاید لوگوں کا ذہن آصف علی کی طرف جائے۔ (عین ممکن ہے کہ شاعر کے ذہن میں شرارت موجود ہو) لیکن نظم کے پورے ماحول میں زرداروں کا مطلب سرمایہ دار، سیٹھ، ساہوکار بنتا ہے۔
مجھے حیرت ہوئی کہ جس نظم میں داڑھی والوں، جرنیلوں، سرداروں اور سب عیاروں کو للکارا جا سکتا ہے وہاں سرمایہ داروں، زرداروں کی پردہ پوشی کی ضرورت کیوں پڑی؟
نظم میں بے نظیر بھٹو کو مل مزدوروں اور کسانوں کی بیٹی کہا گیا ہے۔ تو یہ ’شہید‘ بیٹی اگر جرنیلوں، سرداروں اور زرداروں سے عوام کے حقوق مانگنے کے لیے نہیں نکلی تھی تو کیا ملک کے پراپرٹی ڈیلروں سے اپنا حصہ وصول کرنے کے لیے ’شہید‘ ہوئی۔
اگر بھٹو کی پارٹی سندھ کے گوٹھوں کو مسمار کرتے ہوئے ملک ریاض کے بلڈوزروں کو نہیں روک سکتی تھی تو کم ازکم وہ لڑکی لال قلندر تھی جیسی نظم لکھنے والے شاعروں کی چائنہ کٹنگ ہی بند کر دے۔
بے نظیر بھٹو کی برسی کی کوریج میں ایک پرانی تصویر دیکھی جس میں سینکڑوں لوگ اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر ٹرین کی چھت سے لٹکے بے نظیر کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بے تاب ہیں اور بے نظیر ٹرین کے ڈبے کے دروازے سے باہر جُھکی اُن کی طرف ہاتھ ہلا رہی ہیں۔ بے نظیر اور عوام کے بیچ میں کوئی زردار اور کوئی پراپرٹی ڈیلر نہیں ہے۔
ٹرین کا یہ منظر دیکھ کر منیر نیازی کا ایک مصرع یاد آ گیا ہے
ریل کی سیٹی بجی اور دل لہو سے بھر گیا۔
( بشکریہ : بی بی سی اردو )
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر