نومبر 19, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

لیکن بہت دیر ہو چکی ہو گی|| عمار مسعود

جب معاملات اس نہج پر پہنچ چکے ہوں گے کہ اس ملک میں تبدیلی بچے گی یا یہ ملک بچے گا تو اس طرح کی حکومتیں نہیں چل سکتیں۔ اس طرح کی حکومتیں عوام کے غیظ و غضب کا شکار ہوتی ہیں۔ ان کو عوامی نفرت کی لہر بہا کر لے جاتی ہے۔ ایسی حکومتوں کا سدباب عوام کے ہاتھوں ہی ہوتا ہے۔ وہی اس طرح کے مصائب سے جان چھڑوا سکتے ہیں۔

عمار مسعود

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جب کسی حکومت سے عوام اتنے تنگ آ جائیں کہ جھولیاں اٹھا اٹھا کر بد دعائیں دینے لگیں، جب مسجدوں میں حکومت سے نجات کی دعائیں ہونے لگیں، جب لوگ غربت سے خود کشیاں کرنے لگیں، جب بھوک اور افلاس لوگوں کے سروں پر عفریت بن کر ناچنے لگے، جب آئین، قانون، آزادی اظہار، انصاف کی دھجیاں اڑنے لگیں تو وہ حکومت قائم نہیں رہ سکتی۔ ایسے حکمران مسند اقتدار پر فائز نہیں رہ سکتے۔

یہ الگ بحث ہے کہ نواز شریف کب واپس آ رہے ہیں، پی ڈی ایم عوامی احتجاج کو منظم کیوں نہیں کر رہا، کے پی کے میں بلدیاتی انتخابات کے نتائج کیا ہوئے، کس کی آڈیو لیک ہوئی کس کی وڈیو منظر عام پر آئی، کس پارٹی کے کتنے ارکان نادیدہ فون کالز کے سامنے بے بس ہیں، ایوان میں کون سی قرارداد منظور ہوئی، کون سی ریجکٹ ہوئی، کس نے کس ٹھیکے میں کتنے کمائے، بات اب اس عمومی گفتگو سے ماورا ہو گئی ہے۔

اب وقت بہت بدل گیا ہے۔ اب بہت تباہی ہو چکی ہے۔ اب سرکاری ترجمانوں کے بیانات اور عوام کے حالات میں اتنا فرق آ گیا ہے کہ عام آدمی کو نادیدہ ترقی کے شادیانے بجانے والوں کی تقاریر سن کر گھن آنے لگی ہے۔ اب ملک کو گروی رکھ کر فتح کا جشن منانے والوں سے لوگوں کو نفرت ہونے لگی ہے۔ اب معاملہ کسی سیاسی جماعت کی سیاست کا تو رہا ہی نہیں اب مسئلہ وطن عزیز کی بقا کا ہے۔

گزشتہ تین سال میں پاکستان کو ہر شعبے میں جتنا نقصان پہنچا ہے اس کا بیان تاریخ کی کتابوں میں ملے گا مگر میڈیا اس تنزلی کی داستان بیان کرنے سے ابھی بھی قاصر ہے۔ ابھی بھی چند زر خرید لوگ یہ کہنے پر مامور ہیں کہ ”عمران خان کرپٹ نہیں ہے“ ابھی بھی چند بے ضمیر لوگ یہ چورن بیچنے پر مجبور ہیں کہ ”پاکستان دنیا کا سستا ترین ملک ہے“ ۔

یہ سوال کہ یہ حکومت اپنی مدت پوری کرے گے کہ نہیں اب بے معنی ہے۔ اس حکومت کے ذمے جو کام لگایا گیا تھا وہ اس نے بحسن و خوبی سر انجام دے دیا ہے۔ اب معیشت کی وہ حالت ہے کہ چاہے کوئی بھی آ جائے ہم آئی ایم ایف کے چنگل سے نہیں نکل سکتے۔ اب یہ ملک دنیا کی طاقتوں کے ہاتھوں گروی رکھا جا چکا ہے۔

آج ہمیں ادراک ہو رہا ہے کہ اس حکومت کے قیام کا مقصد نہ نواز شریف کی سیاست ختم کرنا تھا نہ پی ڈی ایم کی تحریک کو تباہ کرنا تھا۔ اس کا بنیادی مقصد اس ملک کو معاشی طور پر برباد کرنا تھا جس میں یہ کامیاب ہوئی ہے۔ اس تباہی کی مدت دس سال مقرر کی گئی تھی لیکن اس تباہی کو حکومت نے اپنی عبرت ناک کارکردگی کی بنا پر صرف تین سال کے قلیل عرصے میں مکمل کیا۔

کون کون سے کارنامے گنوائے جائیں، کس کس شعبے پر بات کی جائے۔ سی پیک اب پیک ہو چکا۔ گیم چینجر منصوبہ اب چینج ہو چکا۔ سعودی عرب خیرات واپس لینے پر تلا ہوا۔ آئی ایم ایف کا غلبہ سٹیٹ بینک کے ذریعے ہو چکا۔ معیشت کے اشاریے زمیں بوس ہو چکے۔ روزگار کے ذرائع ختم ہو چکے، عام آدمی کے کاروبار تباہ ہو چکے۔ میڈیا زیر تسلط آ چکا۔ صحافیوں کا سرعام معاشی قتل ہو چکا۔ مہنگائی عفریت بن چکی۔ بجلی گیس کے بلوں میں سو گنا سے زیادہ اضافہ ہو چکا۔

پٹرول، ڈالر، آٹا، چینی میں عوام کو اربوں کا ”ٹیکہ“ لگ چکا۔ اخلاقیات کا جنازہ اٹھ چکا۔ اسمبلی اور پارلیمنٹ ربڑ سٹمپ بن چکی۔ ہر مخالف آواز خاموش ہو چکی۔ ہر شعبہ تنزلی کے پاتال میں جا چکا۔ بے روزگاری میں حیران کن اضافہ ہو گیا۔ خط ناداری سے نیچے جانے والوں کی تعداد میں عبرتناک اضافہ ہو چکا۔ ریاست مدینہ کے مبارک نام پر جی بھر کر جھوٹ بولا جا چکا۔ سیاسی اقدار پامال ہو چکیں۔ نفرت پورے سماج کے انگ انگ میں سما چکی۔

یہ نہیں کہ اس ابتری کے عالم میں سب ہی خالی ہاتھ رہے۔ اس دور میں کچھ ایسے بھی ہیں جنہوں نے تبدیلی کے نام پر بہت لوٹا بھی ہے۔ وزراء ہوں، مشیر ہوں، اس حکومت کے ترجمان ہوں، تبدیلی کا چورن بیچنے والے صحافی ہوں، سب کے ہاتھ رنگے ہوئے ہیں انہوں نے اس تین سالہ مدت میں ملک کی فروخت کا کاروبار جاری رکھا۔ انہوں نے اپنے اثاثوں کو ترقی دی۔ انہوں نے اپنے ملک کی تباہی سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ جب کبھی یہ حکومت ختم ہو گی۔

یہ دور پر آشوب گزر جائے گا تو آپ کو تب پتہ چلے گا کہ یہ تبدیلی لانے والے خود ساختہ ریاست مدینہ سے ہجرت فرما چکے۔ اپنے بچوں، اہل خانہ کے نام پر اربوں کے اثاثے بنا چکے۔ ملکی مفاد کے نام پر ذاتی مفاد کو ترجیح دے چکے۔ جب ہمیں اس دھوکے کا ادراک ہو گا اس وقت تک بہت دیر ہو چکی ہو گی۔ ہم لکیر پیٹتے رہ جائیں گے اور تب تک تبدیلی کا سانپ ہمیں ڈس کر جا چکا ہو گا۔

جب معاملات اس نہج پر پہنچ چکے ہوں گے کہ اس ملک میں تبدیلی بچے گی یا یہ ملک بچے گا تو اس طرح کی حکومتیں نہیں چل سکتیں۔ اس طرح کی حکومتیں عوام کے غیظ و غضب کا شکار ہوتی ہیں۔ ان کو عوامی نفرت کی لہر بہا کر لے جاتی ہے۔ ایسی حکومتوں کا سدباب عوام کے ہاتھوں ہی ہوتا ہے۔ وہی اس طرح کے مصائب سے جان چھڑوا سکتے ہیں۔

اب وقت آ گیا ہے جب ہمیں مل کر یہ سوچنا ہو گا کہ ہم نے گزشتہ تین سال کی مدت میں قومی عزت، ملکی غیرت، حمیت، آزادی کے علاوہ بھی کس کس بات پر سمجھوتہ کیا۔ کس، کس چیز کو فروخت کیا۔ کس، کس چیز کی قیمت لگائی، کس، کس چیز کو نیلام کیا۔

خبریں یہ ہیں کہ اب جلد ہی ہم دیکھیں گے کہ یہ دور اذیت ختم ہو گا۔ یہ عہد ساز تنزلی ختم ہو گی۔ تبدیلی کا نعرہ دفن ہو جائے گا۔ نئے لوگ سامنے آئیں گے۔ نیا سیٹ اپ تشکیل ہو گا۔ چہرے بھی بدلیں گے، ممکن ہوا تو الیکشن بھی ہوں گے۔ الیکشن آزادانہ اور شفاف ہونے کا امکان بھی ہے۔ سوچنے کی بات صرف یہ ہے کہ اس وقت تک بہت دیر ہو چکی ہو گی۔ اب ملک کا ناقابل تلافی نقصان ہو چکا۔

یہ بھی پڑھیے:

بندہ ایماندار ہے ۔۔۔عمار مسعود

حکومت کی عجلت اور غفلت ۔۔۔عمار مسعود

پانچ دن، سات دن یا دس دن؟ ۔۔۔عمار مسعود

نواز شریف کی اگلی تقریر سے بات کہاں جائے گی؟ ۔۔۔ عمار مسعود

عمار مسعود کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author