ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دو ہزار اکیس بھی گزر گیا! بالکل اسی طرح جیسے دو ہزار بیس گزرا، اور دو ہزار انیس اور دو ہزار اٹھارہ۔ دو ہزار دس۔ دو ہزار اور شاید سب ہی برس!
سب برس یونہی آتے ہیں، ہم سے پوچھے بنا، ہمارے ساتھ رہتے ہیں یا شاید ہم ان کے ساتھ رہتے ہیں خواہش ہو یا نہ ہو اور پھر وہ چل دیتے ہیں، اجازت لئے بنا!
کیا کبھی ایسا ہوا کہ کسی ایک برس سے ہم نے کہا ہو کہ ٹھہر جاؤ ابھی مت جاؤ کہ دل ابھی بھرا نہیں۔ فرض کریں کہ اگر کہہ بھی دیتے تو کیا وہ ہماری بات مان کر اپنی آخری شام کو آخری نہ بننے دیتا۔ کہہ دیتا اگلے برس سے کہ بھیا ابھی ٹھہرو، میں جن کا ہمدم و رفیق ہوں بہت سے دنوں سے، وہ چاہتے نہیں کہ ابھی جدائی ہو۔ ابھی اداسی کے رنگ اوڑھے جائیں، فرقت کو ٹالنا چاہتے ہیں وہ۔ اور شاید میں بھی۔ ہاں میں بھی!
اور کیا ایسا ممکن تھا کہ اس کے جذبات کی قدر کرتے ہوئے آنے والا برس اس کی درخواست سن کر راضی ہو جاتا؟ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ دروازے پر بارہ بجنے کا منتظر بے زاری سے سر کھجاتے ہوئے وہ کہتا، کیا دماغ چل گیا ہے تمہارا، ازل سے چلتے ہوئے نظام میں رخنہ اندازی کرنا چاہتے ہو؟ وقت کو لگام ڈالنا چاہتے ہو؟ ماضی کو ماضی بننے سے روکنا اور مستقبل سے منہ موڑ کر بیٹھنا چاہتے ہو۔
مت بھولو کہ تم بھی اسی طرح آئے تھے پچھلے برس کو رخصت کر کے اس کی مسند پہ طمطراق سے آ بیٹھے تھے۔ تب وقت کی باگ تمہارے ہاتھوں میں تھما دی گئی تھی۔ اب سامان باندھو اپنا، وہ سب جو تم نے اس عرصے میں جمع کیا ہے وہی زاد راہ ہے تمہارا، اسی کے سہارے زندہ رہنا ہے تمہیں۔ چلو تمہاری شمع گل ہونے کو ہے، جام میں جو تلچھٹ باقی ہے، گھونٹ بھرو اور راستہ پکڑو اپنا۔ میری باری ہے اب!
آخری چند لمحوں کی زندگی جینے والا گڑگڑاتا، سنو ابھی جی نہیں چاہ رہا ان سے جدا ہونے کو، جن کے ساتھ میں اپنی زندگی جیا ہوں۔ وہ سب لمحات، اکٹھے ہنستے، کبھی روتے، کبھی اداسی، کبھی انبساط، کبھی جدائی اور کبھی ملاپ۔ ہم ساتھی تھے اک دوجے کے ہر پل، چاہتے نہ چاہتے ہوئے بھی ساتھ تھا خلوت میں بھی اور ہنگام میں بھی۔ کچھ محبت سی ہو گئی ہے ان سب سے، چھوڑ کر یوں رخصت ہونا اداس کیے دے رہا ہے سو کچھ اور وقت، کچھ اور دن۔
سنو بڑے میاں، یہ محبت اور الفت کی باتیں ہمارے ہاں نہیں چلتیں، تمہیں اب بقیہ کی زندگی ان تین سو پینسٹھ دنوں کی یادوں میں گزارنی ہے۔ ان سب کی زندگی کے جو لمحات جو تم نے گزارے یا انہوں نے، وہی تمہارے ہیں۔ ان میں زندہ رہنا یا ان کے سہارے جینا یہی ہر برس کی قسمت ہے۔ ہر برس اسی طرح آتا ہے، کرہ ارض پہ رہنے والوں کی زندگی کے تین سو پینسٹھ دن ان کے ساتھ گزارتا ہے اور پھر گوشہ گمنامی میں گم ہو جاتا ہے۔
لیکن یہ بھی تو دیکھو کہ ان دنوں میں تم نے کیا دیکھا، کیا سہا اور کیا کیا برتا؟ یہ تین سو پینسٹھ دن نہیں، ایک عہد ہے جس سے تم گزرتے ہو۔ تمہارے ہر دن کے ہر پل کے ساتھ لوگوں کی امیدیں اور خواہشات جنم لیتی ہیں، ہر رات کے بعد پھر سے جینے کی تمنا انگڑائی لیتی ہے، ہر صبح لوگوں کو نیا ولولہ اور حوصلہ دیتی ہے۔
اور یہ تو دیکھو کہ تم اس زمین پہ ہونے والے ہر لمحے کے عینی شاہد بنتے ہو یا یوں کہہ لو کہ ہر ہونی اور انہونی میں شریک ہوتے ہو۔ زمین پہ جو کچھ بھی ہوتا ہے، رہتی دنیا تک تمہارے حوالے سے یاد کیا جاتا ہے ۔ اب یہ تمہاری قسمت کہ نیک نامی کا سہرا بندھے یا بدنامی کا طوق گلے میں ڈالا جائے، یہ اس کھیل کا حصہ ہے۔
اب دیکھو، دو ہزار انیس کے ماتھے پہ کرونا کی تباہی کا داغ لگا، کون بھولے گا دو ہزار انیس کو کوئی جس میں کرونا نے اکیسویں صدی میں انسان کو اس کی حقیقت دکھا دی۔ سوچو دو ہزار انیس کو کس قدر دکھ ہے کہ اس کا نام تاریخ کا حصہ تو بنا لیکن ساتھ میں ہزاروں لاکھوں کی موت کا حوالہ بھی ہے۔ دوسری طرف تم کیسے خوش قسمت نکلے کہ تمہارے سر پہ ویکسین دریافت کرنے کا تاج سج گیا۔ تمہارا نام دنیا میں امید کا استعارہ بنا، بند گلی میں کھڑے لوگوں کو جینے کی امید نظر آئی، پھر سے جی اٹھنے کی خواہش!
کیا تم بھول گئے کہ دو ہزار ایک کے دامن سے ٹون ٹاورز کی تباہی کا داغ کبھی نہیں مٹے گا جس نے دنیا بدل کر رکھ دی۔ تقسیم کے دکھ انیس سو سینتالیس کی جھولی میں ہمیشہ دہکتے ہوئے انگاروں کی طرح تکلیف دیتے رہیں گے۔ ہیروشیما اور ناگاساکی سال انیس سو پینتالیس کبھی فراموش نہیں کر سکتے۔ انیس سو اکہتر ہماری تاریخ کا بد نما داغ ہے۔
لیکن دیکھا جائے تو کارخانہ قدرت میں ہماری تمہاری کہاں چلتی ہے؟ دامن پہ رسوائی کی کالک ملی جائے یا سر پہ کوئی کلغی سج جائے، ہمارا تمہارا اس میں بھلا کیا دخل؟ مجھے اور تمہیں کیا نصیب ہو گا، آتے سمے ہم خود نہیں جانتے۔ دم رخصت ہم ناز سے رخصت ہوں گے یا سسکیاں بھرتے ہوئے، کوئی نہیں جانتا ہم میں سے کوئی بھی نہیں۔
میں جو ابھی آنے کی اجازت مانگ رہا ہوں، تم کیا سمجھتے ہو کہ کیا اس کے بغیر میں آ نہیں سکتا؟ نہیں، مجھے تو آنا ہی ہے چاہے میں چاہوں یا نہ چاہوں اور چاہے تم مانو یا نہ مانو۔
اگلے تین سو پینسٹھ دنوں میں مجھے کیا دیکھنا اور کیا سہنا ہے میں نہیں جانتا۔ آنسو بہانا یا قہقہے لگانا، میں نہیں جانتا۔ ہاں یہ ضرور علم ہے کہ زمین پہ رہنے والوں کے دکھ مجھے اپنے دامن میں سمیٹنے ہیں۔ ان کو نئے خواب دکھانے ہیں ان دنوں کے متعلق، جن کے بارے میں میں خود نہیں جانتا۔ مجھے انسان کی بے حسی اور ظلم پہ تلملانا ہے، خون کے گھونٹ بھرنے ہیں اور ماتم کرنا ہے۔ اپنی ہستی پہ وہ سب کچھ سہنا ہے جو ہر کسی پہ گزرے گا لیکن میں کچھ بھی کرنے پہ قادر نہیں ہوں گا۔
مجھے کولہو کے بیل کی طرح تین سو پینسٹھ دنوں کو بھوگنا ہے اور پھر چلے جانا ہے ہمیشہ کے لئے جیسے ابھی تم جا رہے ہو۔
مجھے نہیں علم کہ دو ہزار بائیس کی آخری شام میں کیا سوچوں گا؟ دو ہزار تئیس کا استقبال کیسے کروں گا؟
لیکن ایک بات میں جانتا ہوں کہ مجھے جانا ہی ہو گا ہر قیمت پر، جیسے تمہیں جانا ہے ابھی۔ یہی لمحہ موجود کی حقیقت ہے۔
ہاں تم ٹھیک کہتے ہو، میں یہ سب کچھ جانتا تھا لیکن گزرے دنوں کی ہماہمی میں سب بھول گیا۔ مجھے علم ہے کہ یہ دنوں کا پھیر، گردش ماہ و ایام ہمیں باندھے ہوئے ہیں۔ یہاں کسی کی نہیں چلتی، چل ہی نہیں سکتی۔
چلو، سامان تو میرا پہلے ہی بندھا پڑا ہے، اب رخصت لیتا ہوں۔ اگر کبھی موقع ملے تو اس دھرتی کے باسیوں کو بتا دینا کہ میں ان کی زندگی کے ان تین سو پینسٹھ دنوں کو ہمیشہ زندہ رکھوں گا، جو انہوں نے میرے ساتھ گزارے، اپنی یادوں میں، اپنی محبت کے سہارے۔
الوداع!
یہ بھی پڑھیے
ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے
یہ بھی پڑھیے:
اسقاط حمل میں عورت پر کیا گزرتی ہے؟۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
کاظمی اینڈ سنز عرف سترہ برس کا بیٹا۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر