فضیل اشرف قیصرانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چاچااللّہ بشک بزدار بلوچی زبان کے نامور شاعر ہیں۔شاعری ،انکا ایک تعارف ہو سکتا ہے مگر ہمارے لیے وہ ایک ایسے فرد ہیں جنہوں نے اپنی تمام عمر اگر کسی ایک چیز کو جیا ہے تو وہ ہے بلوچستان۔میرے لیے یہ اعزاز کی بات تھی کہ ہمارے بچوں نے مجھے تونسہ لٹریری فیسٹیول میں انکے برابر کرسی عطا کی اور مجھے انکا شریک گفتگو بنایا۔یہ امر باعث فخر بھی تھا اور ایک طرح سے آزمائش بھی کہ ایک ایسے فرد کے ہم پلہ گفتگو کی جاۓ جن کا شمار ہمارے اساتذہ کے بھی استاذہ میں ہوتا ہے۔
یہ آزمائش دو آتشہ تب کے ہوئ جب لٹریری فیسٹول میں مجھے سٹیج پر بلایا گیا توقریب اسی وقت ہی بابا جان ، پروفیسر ڈاکٹر اشرف شاہین قیصرانی بھی ہال میں تشریف لے آۓ۔ہم چاہے جتنا اچھا بھی بول لیتے ہوں مگر اساتذہ اور والدین کی موجودگی میں بولنا بحر حال ایک آزمائش سے کم نہیں۔
کچھا کھچ بھرا ہوا ہال، زوراخ بزدار، حمید لغاری، علی گوہر بلوچ،پروفیسر طارق بزدار، بلوچستان سے آۓ بچے اور پروگرام کی مہمانان خاص ، ہماری بچیوں کی موجودگی جہاں اطمنان کا باعث تھی وہیں یہ امر باعث تفکر بھی تھا کہ کہیں ہمارے ان مہمانوں کا ہمارے لیے انتظار اکارت نہ چلا جاۓ کہ ہمارا بولنا اور لکھنا کس کھاتے کہ ہال میں موجود افراد کا ذوقِِ سماعت ہماری موجودگی سے کہیں بلند تھا۔
سو ہمارے میزبان نے جب بلوچ تاریخ و جغرافیہ کو لے کر سوالات کا آغاز کیا تو اپنے تئیں ہم نے بھرپور کوشش کی کہ ہم ان سولات کا اپنی طالبعلمانہ حیثیت میں اچھے سا اچھا جواب سکیں۔ہماری گفتگو کیسی رہی اسکا فیصلہ تو ہمارے جج صاحبان کے ہاتھ ہے کہ سننے والے ہی اول اور حتمی ہوتے ہیں جبکہ بولنے والے آخر۔
تو احباب!
خاص کر لٹریری فیسٹیول کے منتظمین ، ہماری انتہائ خاص اور ہماری بہت اپنی ، فیسٹیول میں موجود ہماری بیٹیاں، باہر سے آۓ مہمان اور ہمارے بچے آپکا شکریہ اور آپکی محنت کو پیار۔۔
ڈھیروں جئیں، یونہی علم و عمل کی شمعیں جلاتے رہیں اور سماج کے لیے مشعلِ راہ بنتے رہیں کہ حیاتِ نو آپ سے ہے،عہد اور تجدید عہد آپ سے ہے اور ان سب کے بعد یہ عہد آپکا ہے اور ہمیں بجا طور پر فخر ہے کہ ہم آپ کے عہد میں زندہ ہیں۔
اے وی پڑھو
تانگھ۔۔۔||فہیم قیصرانی
،،مجنون،،۔۔۔||فہیم قیصرانی
تخیلاتی فقیر ،،۔۔۔||فہیم قیصرانی