محمد شیراز اویسی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بچپن کی ابتداٸی یادوں میں ایک خوبصورت اور حسین یاد جب ھم گھر کے بڑے چھوٹے دادا جان کے ساتھ تانگے پر سوار ھو کر عید گاہ نمازِ عید کی اداٸیگی کے لیے جایا کرتے تھے اور شفقت و دعاوں کے ساتھ کھلونوں سے جھولی بھر کر گھر واپس آیا کرتے تھے
آج اسی حسین یاد سے منسلک ایک تاریخی اور دلنشیں یادگار کا تذکرہ ھو جاٸے
یوں تو ملتان اپنی قدامت کے لحاظ سے کٸی تاریخی اور فن تعمیر کے لحاظ سے شاندار مساجد کو اپنے دامن میں سموٸے ھوٸے ھے جن میں مسجد اویس کھگہ ، مسجد درس والی ، مسجد گڑمنڈی ، مسجد پھول ہٹاں ، مسجد شاہ گردیز ، مسجد علی محمد خان ، ساوی مسجد ، ابدالی مسجد ، مسجد سلطان حیات خان اور مسجد باقر خان کے کٸی مساجد قابل ذکر ہیں لیکن مسجد عید گاہ اپنی وسعت و تاریخی اہمیت کے لحاظ سے منفرد مقام رکھتی ھے
چوک کمہارانوالہ سے جاتے ھوٸےنو نمبر چونگی سے زرا پہلے داہنی سمت پہ قاٸم یہ قدیمی عیدگاہ ہر آنے جانے کی توجہ اپنی طرف ضرور مبذول کراتی ھے
مستطیل عمارت اور چھ چھوٹے و ایک بڑے مرکزی گنبد پر مشتمل یہ عظیم الشان عید گاہ مسجد 1735 ٕ میں مغل گورنر نواب عبد الصمد خان تورانی نے تعمیر کراٸی یعنی ھم اس مسجد کو مغلیہ دور کی تاریخی نشانی بھی کہہ سکتے ہیں
مسجد کو روغنی ٹاٸلز سے مزین کر کے کیلی گرافی اور ملتانی نقاشی سے بھی انتہاٸی خوبصورتی سے سجایا گیا ھے
نواب عبدالصمد تورانی 1726 سے 1737 تک صوبہ ملتان کا گورنر تعینات رھا اس نے ملتان کے امن اور تعمیروترقی میں اھم کردار ادا کیا ملتان چھ دروازوں پہ مشتمل فصیل کے اندر ایک چھوٹا سا شہر تھا اور یہاں کے لوگ اپنی مذہبی رسومات و فراٸض بھی فصیل کے اندر عبادت گاھوں میں ادا کرتے تھے
ایک روایت کے مطابق جب ملتان کی آبادی اور شہر کی وسعت میں اضافہ ھوا تو مسلمانوں کے لیے شہر سے باہر ایک بڑی مسجد اور عید گاہ کی ضرورت محسوس ھوٸی تو نواب تورانی نے موجودہ جگہ پہ قاٸم کچی دیواروں سے بنی مسجد کو وسیع و عریض عید گاہ میں تبدیل کر دیا اور اپنے دور گورنری میں ھی 1735 اس عظیم منصوبے کو پایہ تکمیل کو پہنچایا
جب سکھوں نے ملتان پہ قبضہ کیا تو اور مساجد کی طرح انھوں نے عید گاہ کی حرمت کو بھی پامال کرتے ھوٸے ادھر فوجی ڈپو اور اسلحہ خانہ بنانے کے علاوہ اسے شاھی مہمان خانے کے طور پہ استعمال کیا اور جب انگریزوں نے سکھوں کو شکست دے کر ملتان پہ تسلط قاٸم کیا تو انھوں نے یہاں دیوانی عدالتیں قاٸم کیں آخرکار 1893 میں مسلمان اسے واپس حاصل کرنے میں کامیاب ھو گٸے اور اس کی دوبارہ سے تعمیر نو کی گٸی جس میں کٸی مسلمان روسا ٕ نے حصہ لیا قیام پاکستان کے بعد کٸی دفعہ اس کی تعمیرو توسیع ھوٸی اور آج تقریبا ایک لاکھ سے زاٸد نمازی یہاں نماز کا فریضہ ادا کرتے ہیں
ایک اور دلچسپ روایت بھی اس عید گاہ سے منسلک ھے کہ ملتان میں مذہبی اجتماعات اور اذان کے لیے لاوڈ اسپیکر کے استعمال کا آغاز اسی عید گاہ سے ھوا جس کے جواز میں برصغیر کے طول و عرض سے علما ٕ کرام نے فتاوٰی دیے
معروف ادیب مختار مسعود جو ملتان کے ڈپٹی کمشنر رہ چکے ہیں انھوں نے بھی عید گاہ کی تعمیر و توسیع میں اھم کردار ادا کیا دیواریں نٸے سرے سے تعمیر کیں اور گنبد پہ سفید چپس کا کام کرایا
حضرت سید احمد سعید شاہ صاحب ؒ نے کٸی برسوں تک یہاں خطابت کے فراٸض سرانجام دیے اور اپنی وفات کے بعد یہیں مدفون ھوٸے اور آج ان کا مزار عید گاہ میں ھی مرجعِ خلاٸق ھے
ملتان میں عید کی نماز کا سب سے بڑا اجتماع اسی عید گاہ میں ھوتا ھے جس میں ہزاروں مسلمان یہ فریضہ ادا کرتے ہیں اور آج کل ہر جمعہ کو کاظمی برداران کی زیر نگرانی ایک بہت بڑی روحانی محفل ذکر کا انعقاد ھوتا ھے اس محفل میں بھی ہر جمعہ کو طول و عرض سے ہزاروں لوگ شرکت کرتے ہیں
غرض کہ شاھی عید گاہ ملتان صرف ایک تاریخی مسجد ھی نہیں بلکہ مسلمانان ملتان کی روحانی اور سماجی تربیت میں بھی اس کا اھم کردار ھے
میرا ملتان
اے وی پڑھو
تانگھ۔۔۔||فہیم قیصرانی
،،مجنون،،۔۔۔||فہیم قیصرانی
تخیلاتی فقیر ،،۔۔۔||فہیم قیصرانی