دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

‎جب رحم اور ویجائنا گر جاتے ہیں!||ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

تیسری اور سب سے اہم بات یہ کہ عورت کو اپنے اعضاء کو پوشیدہ رکھنے کی ہدایت اور شرم سے جوڑے جانے کی روایت اسے اپنے جسم کو جاننے کی ہمت ہی نہیں دیتی۔

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

”میرا جسم گر گیا ہے۔ میں نہ بیٹھ سکتی ہوں، نہ چل سکتی ہوں۔ خدارا میری مدد کیجیے!“ وہیل چئیر پہ بیٹھی ستر پچھہتر سالہ عمر رسیدہ خاتون ہچکیاں لے لے کر رو رہی تھیں۔

”بہت برس ہوئے جب ماہواری ختم ہوئی تو میں نے شکر کا کلمہ پڑھا۔ ماہواری کے مسائل سے مر مر کے جان چھوٹی تھی، سوچا تھا کہ زندگی سہل ہو گی اب لیکن یہ تو اس سے بھی بڑا عذاب ہے۔ میرا پیشاب رک جاتا ہے، ایک تھیلی سی باہر لٹکنا شروع ہو جاتی ہے۔ اس تھیلی کو ہاتھ سے دبانے سے کچھ پیشاب نکل آتا ہے لیکن سب نہیں۔ پھر پیشاب کی نلکی ڈالنی پڑتی ہے۔ پاخانے کا بھی یہی حال ہے، دبا دبا کر نکالنا پڑتا ہے۔ رحم ہر وقت باہر لٹکتا ہے، ٹانگوں کے بیچ رگڑ کھانے سے شدید تکلیف ہوتی ہے۔ کپڑوں سے رگڑ کھانے سے اس پہ زخم بن جاتے ہیں، کبھی خون رستا ہے اور کبھی پیپ۔ بہت مجبور ہو کر آپ کے پاس آئی ہوں، دیکھیے کیا یہ میری عمر ہے کہ میں ابھی بھی زنانہ تکالیف میں مبتلا ہو کر ہر لمحہ اذیت کے ساتھ گزاروں۔“

خاتون کی حالت دیکھ کر دل دکھ سا گیا۔ ہمیں مسئلے کی سمجھ تو آ چکی تھی لیکن دیکھنا تو ضروری تھا۔ رحم اپنی جگہ سے ڈھلک کر ویجائنا سے باہر آ چکا تھا۔ اس گولے میں رحم کے ساتھ مثانہ (urinary bladder) بھی تھا، جو ویجائنا کی اوپری دیوار کو دھکیلتا ہوا باہر براجمان تھا۔ ویجائنا کی پچھلی دیوار کے ساتھ مقعد (anus) اور پاخانے والی نالی بھی گر چکی تھی۔

”ڈاکٹر صاحبہ! یہ کیوں ہوا ہے؟ میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ عمر کے اس حصے میں میں اتنی بڑی اذیت کا شکار بنوں گی۔“

ہم نے ان کے بھاری جثے پہ نظر ڈالتے ہوئے پوچھا کہ کیا آپ کوئی ورزش کرتی ہیں؟
”نہیں، موا گھٹنوں کا درد کہاں اٹھنے دیتا ہے۔“
وزن کم کرنے کی کوشش کی؟
”ہوتا ہی نہیں ہے، یقین کیجیے میں کچھ نہیں کھاتی۔“
قبض کا حال سنائیے؟
”جی، اکثر بلکہ کافی زیادہ، پہروں بیٹھی رہتی ہوں پھر کہیں فراغت ہوتی ہے۔“
کھانسی؟
”جی، ہو جاتی ہے وقتاً ً فوقتاً ً، اصل میں الرجی ہے بہت سی چیزوں سے۔“
بھاری وزن تو نہیں اٹھاتی رہیں؟

”ارے ڈاکٹر صاحبہ، میں تو بھاری بھاری فرنیچر خود ہی کھینچ کر سیٹنگ تبدیل کر لیتی تھی۔ بکس بھی اٹھا کر ادھر سے ادھر رکھ لیتی تھی۔ جوانی میں ہمت بھی بہت تھی۔“

بچے کتنے ہیں؟
”چھ ہیں جی، سب نارمل ہی پیدا ہوئے ہیں۔“
دیکھیے خاتون، آپ نے کوئی کسر نہیں چھوڑی اس حال کو پہنچنے میں!
”جی کیا مطلب؟“

مطلب یہ کہ آپ نے زندگی بہت بے احتیاطی سے گزاری ہے۔ وہ تمام عناصر، جو آپ کے اندرونی اعضا کو نقصان پہنچا سکتے تھے، وہ موجود تھے آپ کے ساتھ ساتھ۔

عورت کا رحم پیٹ میں کچھ سہاروں کی مدد سے معلق رہتا ہے۔ لیجیے کیا یاد آ گیا، جھمکوں کے ساتھ لٹکنے والے سہارے۔ پچھلے زمانوں میں خواتین کانوں میں بھاری بھرکم جھمکے پہنا کرتی تھیں۔ نرم و نازک کانوں کے لئے جھمکوں کا وزن سہارنا مشکل ہوا تو جھمکوں کے ساتھ کچھ ڈوریاں نتھی کی گئیں کہ جھمکے کانوں کے سوراخوں کو زخمی نہ کر سکیں۔ ان ڈوریوں کو سہاروں کا نام دیا گیا۔ کتنی ہی دفعہ اماں کے ساتھ سنار کی دکان پر بیٹھے ہوئے ہم نے خواتین کو سہارے مانگتے ہوئے سنا۔ دیکھیے بات کرتے کرتے لاشعور کے نہاں خانوں سے کیا کچھ نکل آتا ہے۔

پیٹ کے نچلے حصے میں رحم کا معلق رہنا اس لیے اہم ہے کہ حمل کے دوران ضرورت کے مطابق بچے کے سائز کے حساب سے بڑھ سکے۔ اس لیے قدرت نے اسے اس طرح مختلف سہاروں سے جوڑ کر رکھا ہے کہ جب چاہے بڑھ جائے، جب چاہے، زچگی کے بعد گھٹ کر اصلی جگہ پر واپس آ جائے۔

رحم کا نچلا حصہ ویجائنا میں کھلتا ہے، جس کے ذریعے ماہواری کا خون بھی باہر نکلتا ہے اور زچگی میں بچہ بھی۔

زچگی کے دوران جب عورت درد زہ میں زور لگا کر بچہ باہر کو دھکیلتی ہے، تب رحم کے ان سہاروں کے ڈھیلے پڑنے کا آغاز ہوتا ہے۔ متواتر بچوں کی پیدائش بتدریج ان کو کمزور کرتی چلی جاتی ہے۔

اگلا دھچکا مینوپاز کے بعد پہنچتا ہے، جب عورت کے ہارمونز نکلنے بند ہو جاتے ہیں۔ ایسٹروجن نامی ہارمون، جو زندگی کی علامت اور ماہواری آنے کا ذمہ دار ہے، کی کمی ان سہاروں کو مزید نحیف بناتی ہے۔

مرے پہ سو درے کے مصداق اگر مریضہ کو قبض بھی رہنے لگے، جس میں پاخانہ زور لگا کر نکالنا پڑے، تب یہ سہارے مزید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتے چلے جاتے ہیں۔

کھانسی، موٹاپے کے نتیجے میں ڈھلکا ہوا پیٹ، بھاری جسم، ورزش کی کمی، یوں سمجھ لیجیے کہ یہ سب سبب بن جاتے ہیں، گرتی ہوئی دیوار کو ایک دھکا اور دو کے۔

پہلے رحم کھسکتا ہوا ویجائنا میں آتا ہے اور پھر ویجائنا سے نکلتے ہوئے باہر کو لٹک جاتا ہے۔ مثانہ بھی ویجائنا کو دھکیلتے ہوئے اپنی جگہ چھوڑ کر رحم کا ساتھ دیتا ہے اور یہی حال پاخانے کی نالی اور مقعد کا ہوتا ہے۔ لیجیے سب کچھ ویجائنا سے باہر لٹکا ہوا، Uterovaginal prolapse۔

مثانہ، رحم اور مقعد تین ایسے اعضا ہیں، جو ویجائنا کے قرب میں پیٹ کے نچلے حصے میں آگے پیچھے رہتے ہیں اور کسی ایک کی خرابی عورت کی زندگی کو جیتا جاگتا جہنم بنا سکتی ہے۔

مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں پچاس برس کی عمر کا معنی یہ ہیں کہ اب عورت اپنے جسم کی دیکھ بھال کیوں کرے؟ اب تو ماہواری بھی بند ہو چکی اور حمل و زچگی سے بھی ناتا ٹوٹ گیا سو نانی دادی بن کر کیا ضرورت ہے کسی بھی چیک اپ، کسی بھی ورزش یا کسی بھی معائنے کی؟ بس آخرت کی تیاری کرو بی بی!

خاتون حیرت سے ہمیں دیکھتے ہوئے ہکلا کر بولیں، ”لیکن ان باتوں کے متعلق کوئی کچھ بتاتا کیوں نہیں؟“

اس لیے کہ پدرسری معاشرے میں عورت کی صحت اہم نہیں کیوں اسے درد سر بنایا جائے؟ صحت تو دور کی بات ہے، جب عورت محض استعمال کی چیز سمجھی جائے توکیا کرنا ہے اس کی زندگی آسان بنا کر؟

”ڈاکٹرز کیوں نہیں بتاتے یہ سب کچھ؟“

پہلی بات یہ کہ ہمارے یہاں ڈاکٹرز کو محض بچہ کھینچنے والی سمجھ کر غیر اہم قرار دے دیا جاتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ ان کی اکثر ہدایات پر یقین بھی نہیں کیا جاتا۔ یہ کہہ کر ٹال دیا جاتا ہے کہ کب ہوا ہماری ماؤں یا نانیوں دادیوں کے ساتھ ایسا؟ اپنے مختصر سے مشاہدات و تجربات کے مطابق فیصلہ کر لیا جاتا ہے کہ ضرور ڈاکٹر کا کوئی ذاتی فائدہ ہے۔

تیسری اور سب سے اہم بات یہ کہ عورت کو اپنے اعضاء کو پوشیدہ رکھنے کی ہدایت اور شرم سے جوڑے جانے کی روایت اسے اپنے جسم کو جاننے کی ہمت ہی نہیں دیتی۔

ماہواری کا نام، پیڈز کا استعمال، ویجائنا کا ذکر وہ مقامات ہیں، جہاں پر جلنے کا ڈر سب پر غالب آ جاتا ہے۔ یہ کیوں نہیں سمجھا جاتا کہ عورت کے جسم کی پیچیدگیاں زندگی کی نمو کا حصہ ہیں یا اسی مقام سے بار بار گزرنے کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ ان پیچیدہ یا دوسرے لفظوں میں ”پوشیدہ“ امور کے متعلق ہر مرد و زن کا سمجھنا، جاننا اور بات کرنا ہی عورت کے جسم کو بیڑیاں پہننے قیدی کی بجائے پرندے کا سا لطیف احساس بخش سکتا ہے۔

ماضی میں اگر ان موضوعات کو شرم و حیا کے پردوں میں لپیٹ کر عورت کی زندگی کو اہم نہیں جانا گیا تو کیا ضروری ہے کہ اکیسویں صدی کی عورت بھی غاروں اور جنگلوں میں رہنے والوں کی سی زندگی بسر کرے۔ اپنے جسم کو سمجھنا اور اس کے متعلق بات کرنا اس کا بنیادی انسانی حق ہے۔

ہم نے موقع پاتے ہی گائنی فیمینزم کا پرچار کر لیا تھا لیکن ہماری محنت رنگ لائی تھی۔ ارد گرد موجود خواتین کے چہرے آگہی کی روشنی سے دمک رہے تھے۔
بشکریہ ڈوئچے ویلے اردو۔

یہ بھی پڑھیے

ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے

About The Author