رانا ابرار خالد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نجانے دسمبر کا مہینہ ہر سال اپنے ساتھ سرد موسم کی ٹھنڈی آہیں اور تلخ یادیں لے کر کیوں چلا آتا ہے، کاش 2007 کا دسمبر نہ آتا یا پھر 2007 کے بعد آنے والے سال دسمبر کے بغیر ہی گزر جاتے تو پاکستان کے ان 80 فیصد محکوم و مجبور و مقہور عوام کو ہر سال اپنی کم مائیگی کا احساس نہ ہوتا، بار بار اپنی بے بسی کو یاد کر کے چپ رہنے کا زہر نہ پینا پڑتا، کہ کس طرح آمر وقت نے بے پناہ رعونت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کی محبوب قائد۔
نہیں نہیں محبوب قائد نہیں بلکہ ان کے دکھوں کا مداوا، روزگار لانے اور ان کی بے کیف زندگیوں میں تھوڑی سی خوشحالی کی امید کو بھرے مجمع میں بیدردی سے قتل کروا دیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ہر سال دسمبر کا مہینہ شروع ہوتے ہی ان 80 فیصد محکوموں کی یادوں کے زخم پھرسے ہرے ہونے لگتے ہیں اور زخموں پہ آئے کھرنڈ اترنے لگتے ہیں، ہر مزدور، کسان، ریڑھی والا، رکشے والا، ٹیکسی والا، بیروزگار نوجوان بے رحم یادوں کو اپنے ذہنوں میں دوہرانے لگتے ہیں، ہاں!
میں اس وقت فاضل پور (ضلع راجن پور) کے رحمٰن ہوٹل میں چائے کی ٹرے میز پر رکھنے ہی لگا تھا کہ اچانک ٹی وی پر بریکنگ نیوز چلی کہ لیاقت باغ راولپنڈی میں بے نظیر بھٹو پر خودکش حملہ ہوا ہے، سب سے پہلے یہ خبر میں نے سنی تھی، نہیں! یہ خبر سب سے پہلے میں نے سنی تھی، میں اس وقت ٹیکسی زیرو پوائنٹ (اسلام آباد) سے آبپارہ کی طرف موڑ رہا تھا کہ ریڈیو پر اچانک خبر چلنے لگی کہ بے نظیر بھٹو لیاقت باغ (راولپنڈی) میں خودکش حملے میں شدید زخمی ہو گئی ہیں، ان کے شوہر آصف علی زرداری نے عوام سے دعا کی اپیل کی ہے۔
نہیں نہیں یہ خبر سب سے پہلے میں نے سنی تھی، میں اس وقت چوبرجی سے ویگن میں گزر رہا تھا کہ ساتھ بیٹھے شخص کے موبائل پر میسیج آیا کہ لیاقت باغ (راولپنڈی) میں خودکش حملے کے نتیجے میں بے نظیر بھٹو شہید ہو گئی ہیں، ان کو قریبی سنٹرل ہسپتال لے جایا گیا لیکن راستے میں انہوں نے دم توڑ دیا تھا۔ سائیں آپ غلط کہتے ہو یہ خبر سب سے پہلے میں نے سنی تھی جب میں لاڑکانہ بس اڈے پر ریڑھی پر زیتون (امرود) بیچ رہا تھا کہ اچانک لوگ دھاڑیں مار مار کر رونے لگے تھے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کو لیاقت باغ (راولپنڈی) میں شہید کر دیا گیا ہے۔ غرض سب اپنے اپنے دل میں گواہی دینے لگتے ہیں کہ ہاں! ہماری آنکھوں کے سامنے ہماری امیدوں کو قتل کر دیا گیا اور ہم سب بے بسی سے دیکھتے رہ گئے، جبکہ آصف علی زرداری دبئی سے آ کے امیدوں کی گٹھڑی تابوت میں بند کر کے گڑھی خدابخش بھٹو چلے گئے!
درحقیقت اپنی بے بسی کا ماتم منانا کسی بھی انسان کے لئے بہت زیادہ تکلیف دہ ہے، مگر جب کروڑوں انسان ہر سال اپنی بے بسی کا ماتم منانے پر مجبور کر دیے جائیں تو یہ بہت ہی زیادہ تکلیف دہ ہو جاتا ہے، ہر سال دسمبر باقاعدگی سے وارد ہو کر ان کو کچوکے دیتا ہے، کاش! ایسا نہ ہوا ہوتا، بے نظیر بھٹو کا قتل نہ ہوا ہوتا۔ کاش! ہم کسی طریقے سے بے نظیر بھٹو کو بچا لیتے۔ کاش! آصف علی زرداری بے نظیر بھٹو کی لاش کو تابوت میں بند کر کے گڑھی خدابخش بھٹو نہ روانہ ہوتے، کاش وہ کہتے کہ ہم لاشیں ڈھو ڈھو کر تھک گئے ہیں اب مری روڈ ہی ان سب کا مدفن بنے گی جو ہماری امیدوں کے قاتل ہیں، اب ہم ان سے انتقام لیے بغیر گھر واپس نہیں جا سکتے جنہوں نے نسلوں کا سکون چھینا ہے۔ کاش آصف علی زرداری ایسا سوچ سکتے!
کاش آصف علی زرداری ایسا سوچتے تو وطن عزیز کا منظر مختلف ہوتا، بلکہ بہت زیادہ مختلف ہوتا۔ وطن عزیز کے کروڑوں لوگوں کی طرح میری بھی کچھ یادیں ہیں، مجھے آج بھی یاد ہے سب ذرا ذرا۔ مری روڈ کے مناظر کچھ اور ہی تھے، سڑک پر اور سڑک کے اطراف غصے میں بپھرے عام لوگوں کی انگارہ آنکھیں جواب مانگ رہی تھیں، بے نظیر بھٹو کے قتل کا جواب، اپنی محرومیوں کا جواب، اپنی امیدوں کے قتل کا جواب۔ دوسری جانب ٹی وی چینلوں پر بیٹھے بوسیدہ تجزیہ کاروں کی بہانہ طرازیاں محض اعتراف جرم سے بڑھ کر کچھ نہیں تھیں، جوان آنکھوں میں ابلتے سوالوں کا جواب بننے کی سکت ہی نہیں رکھتی تھیں۔
محض مری روڈ ہی نہیں، بلکہ مری روڈ سے مال روڈ لاہور، مال روڈ سے فاضل پور اور فاضل پور سے لاڑکانہ، لاڑکانہ سے بولٹن مارکیٹ کراچی تک کا ایک جیسا منظر تھا۔ ٹی وی چینلوں نے نون لیگ کے قائد نواز شریف کے مری روڈ پہنچنے کی بریکنگ نیوز چلائی تو بپھرے ہوئے عوام کی آنکھوں میں دم توڑتی امیدوں میں جان پڑنا شروع ہوئی کہ شاید نواز شریف، آصف علی زرداری کا انتظار کریں گے اور ان سے ملے بغیر واپس نہیں جائیں گے، پھر سیاسی قیادت کوئی فیصلہ کن فیصلہ کرے گی اور بار بار مارے جانے والے شب خون کا سلسلہ آگے بڑھ کر روک دیا جائے گا۔
ہاں! میں گواہ ہوں اس بات کا کہ اگر سیاسی قیادت (آصف زرداری اور نواز شریف) فیصلہ لیتے تو پاکستان میں جمہوری انقلاب فقط آنکھ کے ایک ہلکے سے اشارے کا محتاج کھڑا تھا، مری روڈ اور آس پاس کے علاقوں میں موجود ہزاروں لوگ مکمل طور پر تیار تھے جو اشارہ ملتے ہی آمر پرویز مشرف کے ساتھ ویسا انصاف کرتے جیسا فیصلہ خصوصی عدالت کے جج وقار سیٹھ نے بہت سال بعد دیا، پھر بپھرے ہوئے عوام کو پارلیمنٹ پر قبضہ کرنے سے نہ تو ٹرپل ون بریگیڈ روک سکتی اور نہ ہی ٹین کور کے بس کی بات تھی۔
دراصل دسمبر کا مہینہ 80 فیصد محکوم عوام کو ان کی بے بسی کی یاد دلانے نہیں آتا بلکہ پاکستان کی سیاسی قیادت کو ہر سال ان کی تاریخی غلطی یاد دلانے آتا ہے کہ وہ جمہوریت کو انتقام لینے سے نہ روکتے تو آج یہ نہ ہوتا، آج وہ نہ ہوتا، مگر ایسے تاریخی فیصلے کرنے کے لئے صحیح معنوں میں سیاسی قیادت چاہیے ہوتی ہے۔
لہٰذا دسمبر یونہی ہر سال آتا رہے گا اور سب کو اپنی اپنی غلطیوں کا احساس دلاتا رہے گا!
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر