ڈاکٹر مجاہد مرزا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
راشد منیر کا حلقہ احباب ایسے لوگوں کا تھا جن میں بزعم خود لبرل بھی تھے اوراسلام شناس دنیا سے ہم آہنگ افراد بھی جن میں سے بہت سوں کو حقوق نسواں اورآزادی نسواں سے متعلق منصف ہونے کا دعوٰی تھا۔ ہردو طرح کے لوگ اپنے اپنے اندازمیں اس صفت کی وضاحت کیا کرتے۔ کوئی کہتا کہ ہم نے عورتوں کو غلام بنا کے رکھا ہوا ہے جبکہ عورتوں نے مغرب میں مرد کی بالا دستی سے آزادی پا لی ہے اور مرد کے برابر کے انسان کی طرح زندگی گذارتی ہیں۔ دوسرے کہتے کہ اسلام نے عورتوں کو چودہ سو سال سے زائد عرصہ پہلے اللہ کے حکم پر بہت زیادہ حقوق دے دیے تھے جو مغرب والوں نے صدیوں بعد دیے اوروہ بھی عورتوں کی جدوجہد کے سبب جسے شروع مردوں نے ہی کیا تھا۔
راشد منیردنیا کا مشرق مغرب گھوم پھر کے دیکھ چکا تھا اس لیے اسے دونوں ہی فریق آدھا سچ بولتے دکھائی دیتے یعنی آدھے جھوٹے لیکن وہ کہتا کچھ نہیں تھا۔ گھبراتا تھا کہ اگر ایک طرف سے قدامت پرست ہونے کے تو دوسری طرف سے کافر ہونے کے ٹھپے لگائے جا سکتے ہیں۔ یہ غلط نہیں کہ مغرب میں عورتوں کو کئی نوع کی آزادیاں حاصل تھیں مگر اس کے عوض وہ اور طرح سے بندھی ہوئی تھیں جیسے کہ انہیں گھر کے کام بھی کرنے ہوتے، ملازمت بھی کرنی ہوتی، شراب نوش خاوند بھی برداشت کرنا ہوتا اور بچوں کی تربیت بھی کرنی ہوتی ہے، یوں کئی کونے خالی رہ جاتے ہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ اسلام نے ساڑھے چودہ سو برس پہلے اللہ کے حکم پرعورتوں کو اتنے حقوق دے دیے تھے جتنے اس دور میں سوچے جانا بھی ممکن نہیں تھا مگر اس طویل عرصہ کے دوران ان حقوق کو کس طرح پامال کیا گیا اور کس طرح خواتین کو مرد کے پاؤں کی جوتی بنا دیا گیا یہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں تھا۔
ملک میں چونکہ مذبی بندشیں جنہیں مذہبی جبر کہنا غلط نہ ہوگا بڑھ گیا تھا جس کے سبب ایک صدی پہلے مغرب میں شروع ہوئی اور بیسویں صدی کی ساٹھویں دہائی کے اوائل میں معدوم ہو جانے والی نسائیت پسندی کو فروغ دیے جانے کی کوششیں شروع ہو گئی تھیں۔ کچھ مرد لیکھک اور بہت سی خواتین لکھاری، عورت کی آزادی اور عورتوں کے حقوق پرمسلسل لکھنے لگی تھیں۔ راشد منیر جانتا تھا کہ مغرب میں ادب اور تحریر کی متنوع اقسام چند دہائیوں کے دوران مقبول رہی تھیں مگر اسے ایسے فیشنی ادیب و مصنفین اس لیے کچھ زیادہ نہیں بھاتے تھے کیونکہ یکسانیت سے ویسے ہی انسان اوبھ سا جاتا ہے۔
اوبھ جانے کا دوسرا پہلو یہ تھا کہ عورتیں بھی مردوں پر کچھ کم ظلم نہیں توڑتیں اگر جسمانی نہیں تو لامحالہ ذہنی تشدد میں تو کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتیں، یہی وجہ تھی کہ ہر دو صف کے افراد بیویوں کے متعلق لطائف سن کر ایسے محظوظ ہوتے جیسے یہ لطیفے یا طنزیہ تحریریں کسی اور کی بیوی کے بارے میں ہوں اپنی بیوی کے بارے میں تو ہرگز نہیں، ویسے ہی جیسے سڑک پر کیلے کے چھلکے پہ پاؤں دھر کے پھسلنے والا تو تکلیف محسوس کرتا ہے مگر اس کے دیکھنے والے ہنستے ہیں۔
راشد منیر جانتا تھا کہ رخشندہ یعنی اس کے بچوں کی ماں اٹھتے ہی بچوں پرسختی کی شروعات کر دیا کرتی۔ پہلی وجہ تو یہ تھی کہ اس نے بچوں کو چھوٹ دے کر شروع سے لاپروا بنا دیا تھا اور اب وہ انہیں کیڈٹ سکول کے بچے بنانے پر تلی ہوتی۔ جواز یہ دیتی کہ آپ کے پیار سے بچے بگڑ گئے ہیں۔ جب آپ باہر ہوتے ہیں تو بچے تیر کی طرح سیدھے ہوتے ہیں لیکن وہ جانتا تھا کہ رخشندہ جان بوجھ کربچوں کو مسلسل ایسی گالیاں دیا کرتی جن سے باپ کی توہین کا پہلو نکلتا ہو۔ دراصل وہ راشد منیر کو ذہنی اذیت پہنچانے کے لیے ایسا کررہی ہوتی تھی۔
کل ہی کی تو بات ہے کہ دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد جو ناشتہ کرنے کے کہیں پانچ گھنٹوں بعد ملا تھا، ناشتہ بھی کیا دلیہ کا ایک پیالہ جو کہیں گیارہ بجے جا کر ملتا جبکہ راشد منیر کا معمول تھا کہ وہ نماز فجر کے لیے اٹھتا تو سو نہ سکتا، یوں بیدار ہونے اور ناشتہ ملنے کے بیچ کم از کم تین چار گھنتے کا وقفہ ہوتا پھر وہ تبخیر معدہ کا مریض بھی تھا، راشد منیر بچوں سے ہنسی مذاق کر رہا تھا کہ رخشندہ کچن سے بھاگی آئی اور کمرے میں داخل ہوتے ہی بچوں پہ برس پڑی۔ رخشندہ کے کانوں پر ہیڈ فون تھا جو وہ مسلسل سیریل دیکھتے چڑھائے رکھتی تھی۔ جب اس نے اس سے بچوں کو ڈانٹنے کی وجہ پوچھی تو راشد منیر پہ برس پڑی کہ اونچا مت بولا کریں۔ مجھے ایسا لگا تھا جیسے لڑائی ہو رہی ہے۔ ہیڈ فون کی وجہ سے باہرکی مدھم آوازبھی چونکہ آپ کی دلچسپی کی سماعت میں مخل ہوتی ہے اس لیے اونچی لگتی ہے۔
راشد منیر نے اسے یہ سائنسی بات سمجھانا چاہی تو وہ اس پہ چیخنے لگی جبکہ حقیقت یہ تھی کہ جتنا وہ چیختی تھی اسے اپنی اونچی آواز سنائی نہ دیتی لیکن وہ کوئی بھی سائنسی بات سمجھنے بلکہ سننے تک سے بری طرح گریزاں رہتی۔ راشد منیر سوچتا رہتا کہ مرد کی مجبوریوں کے بارے میں اس کے حلقہ احباب کے ہر دو فکر کے لوگ کیسے سوچتے ہونگے یقینا” دونوں ہی دوسرے مردوں کو دوش دیتےہوں گے اور اپنے اور اپنی بیوی کے تعلقات بارے خاموش رہتے ہوں گے کیونکہ ایک کے مطابق وہ تو عورتوں کے نجات دہندہ ہیں اور دوسروں کے مطابق اللہ ستارالعیوب ہے اس لیے انسان کو بھی ایک دوسرے کے عیوب پر پردہ ڈالنا چاہیے۔
یہ بھی پڑھیے:
آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی
خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی
ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر