زاہد گشکوری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قومی احتساب بیورو کے سرکاری ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے معلوم ہوتا ہے کہ ارکان پارلیمنٹ کی 22؍ فیصد تعداد (250؍ ارکان) 2017ء سے قومی احتساب بیورو (نیب) کے ریڈار پر رہ چکے ہیں۔ مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے موجودہ اور سابق ارکان پارلیمنٹ کے خلاف مبینہ طور پر تقریباً 513؍ ریفرنسز، انوسٹی گیشنز، انکوائریاں اور شکایات ایسی درج کی گئی ہیں جن میں قومی خزانے کو 700؍ ارب روپے کا نقصان کرنے کے متعلق ہیں۔ تقریباً 450؍ انکوائریاں (513؍ کا 88؍ فیصد) اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ارکان کیخلاف شروع کی گئیں جن میں 86؍ پیپلز پارٹی، 62؍ نون لیگ، 8؍ ایم کیو ایم، ق لیگ اور جے یو آئی ف کے ارکان پارلیمنٹ کیخلاف ایک ایک، مسلم لیگ ضیا کیخلاف ایک، پختونخوا ملی عوامی پارٹی کیخلاف، قومی وطن پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی کے رکن کیخلاف ایک ایک، عوامی نیشنل پارٹی 6؍ جبکہ نیشنل پارٹی کے ارکان کیخلاف 3؍ انکوائریاں شروع کی گئیں۔ نیب نے اسی عرصہ کے دوران پی ٹی آئی کے ارکان کیخلاف 48؍ انکوائریاں شروع کیں۔ موصول ہونے والے اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ بیورو کے ریجنل آفسز، بشمول ہیڈکوارٹرز، نے مذکورہ بالا جماعتوں کے ارکان کو 1250؍ نوٹسز بھیجے۔ ان میں سے تقریباً 1159؍ (92؍ فیصد) اپوزیشن جماعتوں کے ارکان کو بھیجے گئے۔ اس عرصہ کے دوران تین درجن کے قریب انکوائریاں / انوسٹی گیشنز ختم کی گئیں۔ بیورو نے پی ٹی آئی ارکان کیخلاف 14، پیپلز پارٹی کے موجودہ اور سابق ارکان کیخلاف 12، نون لیگ ارکان کیخلاف 4 جبکہ ق لیگ کی سینئر قیادت کیخلاف 5؍ انکوائری ختم کیں جبکہ کیو ڈبلیو پی پارٹی کے آفتاب شیرپائو کیخلاف بھی ایک انکوائری ختم کی گئی۔ نیب کی جانب سے جو اہم انکوائریاں پی ٹی آئی اور ق لیگ کی سینئر قیادت کیخلاف ختم کی گئیں اُن میں وزیراعظم عمران خان (دو ماہ میں کئی مرتبہ پوچھنے کے باوجود نیب نے تصدیق اور تردید نہیں کی)، وزیراعلیٰ کے پی محمود خان، وزیر دفاع پرویز خٹک، سابق ارکان کابینہ ظفر مرزا، عامر کیانی، چوہدری شجاعت، اسپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الٰہی، اوور سیز پاکستانیز کے وزیر ذلفی بخاری، منظور وٹوُ اور کئی دیگر شامل ہیں۔ پیپلز پارٹی کے جن ارکان کیخلاف انکوائریاں ختم کی گئیں اُن میں غلام قادر پلیجو، بخش مہر، ظفر لغاری وغیرہ شامل ہیں۔ کچھ انکوائریاں ایسی ہیں جن کو فی الحال جوں کا توں چھوڑ دیا گیا ہے اُن میں ہیلی کاپٹر کے غلط استعمال کی انکوائری، مالم جبہ اسکینڈل، دوائوں کا اسکینڈل، اربوں درخت لگانے کا اسکینڈل، بی آر ٹی پشاور اسکینڈل، اور گجرات کے چوہدریوں کیخلاف ذرائع سے زیادہ اثاثہ جات بنانے کا کیس شامل ہیں۔ نیب خیبر پختونخوا نے اپنی رپورٹ چیئرمین نیب کو بھیج دی تھی اور اب وہ فیصلہ کریں گے کہ یہ انکوائری بند کرنا ہے یا نیب کے پی کی رپورٹ پر مزید کام کرنا ہے۔ کئی یاد دہانیاں کرانے کے باوجود نیب نے اس معاملے پر کوئی موقف نہیں دیا۔ تاہم، نیب کے ایک سینئر عہدیدار، جو اس انکوائری کے پراسیس ہونے کے وقت نیب کا حصہ تھے، نے بتایا کہ عمومی طور پر سفارشات یہ پیش کی جاتی ہیں کہ اختیارات کے غلط استعمال میں ملوث شخص سے رقم ریکور کی جائے، جیسا کہ سرکاری املاک کے غلط استعمال کے معاملے میں ہوتا ہے۔ جیو نیوز نے رائٹ ٹوُ انفارمیشن قانون کے تحت نیب کے پی، نیب راولپنڈی، نیب ترجمان اور نیب چیئرمین کو 8؍ ہفتوں کے دوران کئی مرتبہ لکھ کر معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی تاکہ کے پی میں ہیلی کاپٹرز کے غلط استعمال کے حوالے سے معلومات جمع کی جا سکیں لیکن بیورو نے کئی معلومات فراہم نہیں کیں۔ نیب نے نون لیگ کے اہم رہنمائوں کو گرفتار کیا جن میں شاہد خاقان، احسن اقبال، خواجہ آصف، شہباز شریف، حمزہ شہباز، پیپلز پارٹی کے آصف زرداری، فریال ٹالپُر، آغا سراج، شرجیل میمن، خورشید شاہ، پی ٹی آئی کے علیم خان اور سبطین خان شامل ہیں۔ بعد میں انہیں عدالت سے ضمانت مل گئی۔ پارٹی کے لحاظ سے چارٹ دیکھیں تو جو سیاسی رہنما نیب کے ریڈار پر ہیں وہ یہ ہیں: پی ٹی آئی کے فیصل زمان، شوکت یوسفزئی، جعفر لغاری، نصر اللہ دریشک، سبطین خان، طالب نکئی، عثمان بزدار، انصار مجید، سعید اکبر، حیدر ٹھنڈ، کرامت علی، خسرو بختیار، ہاشم جوان، عادل شیخ، نور الحق، حامد ناصر، ناصر چیمہ، سردار عاشق، عامر گوپانگ، غلام سرور خان، احمد حسن، فردوس عاشق اعوان، اعظم سواتی، علی دریشک، عبدالقادر، لیاقت جتوئی، شاہنواز مری، ضیاء اللہ آفریدی، طارق بشیر، ضیاء اللہ بنگش، امجد آفریدی، امتیاز قریشی، عامر کیانی، ظفر مرزا، محمود خان، باسط سلطان خان، عاطف خان، محمد اقبال، ذلفی بخاری، سہیل ظفر، غصنفر چینا، مسعود احمد، شوکت ترین اور فردوس عاشق اعوان۔ پیپلز پارٹی کے نوابزادہ محمود زیب، مہر ارشاد، نواب ثنا اللہ زہری، مراد علی شاہ، اویس شاہ، علی غلام، سعید خان، راجہ خان مہر، نثار کھوڑو، شرجیل میمن، شرجیل میمن، عبدالکریم، عبدالمجید، پیر قادر شاہ، یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویز اشرف، جام خان شورو، اویس قادر، عامر مگسی، نادر مگسی، سردار خان، برہان خان، عبدالرئوف کھوسو، خورشید شاہ، ڈاکٹر عاصم، ناہید خان، صفدر عباسی، اسلم رئیسانی، منظور وسان، آغا سراج درانی، سہیل انور سیال، عثمان سیف اللہ، انور سیف اللہ، ہمایوں سیف اللہ، سلیم سیف اللہ، ناصر شاہ، اعجاز جکھرانی، شیر خان، مکیش کمار، رمیش لعل، غیبی چانڈیو، مرتضیٰ بلوچ، شیر اعظم وزیر، غلام قادر پلیجو، روبینہ خالد، سلیم مانڈوی والا، سحر کامران، شہلا رضا، جام مہتاب، ڈاکٹر سکندر علی، سہراب سرکی، ممتاز جکھرانی، صادق عُمرانی، نصر اللہ بلوچ، یوسف ٹالپُر، فرزانہ راجہ، محمود زیب، یاسین خلیل، تہماش خان، اسمہ عالمگیر، ارباب عالمگیر، ضیا الحسن، علی ملکانی، عبدالستار، گیان چند، دوست راہموں، اعجاز ہالیپوٹو، آغا طارق، منظور وسان، قائم علی شاہ، تیمور ٹالپُر، حکیم بلوچ، گیان چند ایسرانی، پیر مظہر اور علی مردان۔ نون لیگ کے صفدر اعوان، رانا ثناء اللہ، رانا مشہود، خواجہ سعد رفیق، اسحاق ڈار، نواز شریف، راحیلہ مگسی، عبدالکریم، افتخار شاہ (مرحوم)، پیر صابر، رانا اسحاق، جاوید لطیف، فضل خان، ماروی میمن، انوشہ رحمان، ارمغان سبحانی، میر اظہار، کلثوم پروین (مرحومہ)، مفتاح اسماعیل، خواجہ آصف، سہیل بٹ، رائے منصب، محمد منیر، رفیق پارن، قیصر مگسی، چوہدری تنویر، احمد خان، شیر علی، نعیم انور، سلیم خالد، غزالہ شاہین، بلیغ الرحمان، خواجہ سلمان، اظہار قیوم، مہر اعجاز، سیف الملوک، اسماعیل گجر، انیتا عرفان، طارق فضل، سردار مشتاق، سائرہ افضل، عابد شیر علی، شمیم اختر، رانا شعیب، کامران مائیکل، امیر مقام، برجیس طاہر، عبدالرئوف، مہتاب عباسی اور مریم اورنگ زیب۔ ق لیگ کے طارق بشیر، عاصم کرد، کامل علی، رضوان ظفر، جعفر خان اور جواد کامران۔ جے یو آئی ف کے اکرم درانی، زاہد درانی، فضل الرحمان، عبدالمالک، امیر زمان، جارج جعفر، عبدالرحمان، عبدالواسع۔ ایم کیو ایم کے بابر غوری، عادل صدیقی، رئوف صدیقی، وسیم اختر، فاروق ستار، خالد مقبول، خواجہ سہیل۔ بی این پی کے نواز کاکڑ، بی اے پی کے جان جمالی، محمد خان، غفور لہڑی، زبیدہ جلال۔ اے این پی کے قیصر ولی، ستارہ ایاز، مرید کاظم، معصوم شاہ، احمد بلور اور امیر حیدر۔ پی کے میپ کے عبید اللہ ببت، بی این پی کے امیر زمان، این پی کے مالک بلوچ، رحمت صالح اور خالد لنگو، ایم ایل ایف کے حسنین مرزا، علی غلام اور مرتضیٰ جتوئی شامل ہیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر