دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

او آئی سی اجلاس: کشکول قبیلے کا ریشتاغ|| وجاہت مسعود

عمران خان فرماتے ہیں کہ افغان معیشت کا 75 فیصد انحصار بیرونی امداد پر تھا۔ کیا یہ بات امریکہ اور نیٹو کو قابض افواج قرار دینے والے طالبان کو معلوم نہیں تھی۔ تادم تحریر دنیا بھر میں سوائے پاکستان کے کوئی کابل انتظامیہ کے بارے میں گرم جوش نہیں۔

وجاہت مسعود

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پڑھنے والوں میں ایسے صاحبان علم کی کمی نہیں جو یہ عنوان پڑھ کر چونک اٹھیں گے۔ سیالکوٹ کے جوہر بے آب ایل ایل بی مدظلہ سے تو کچھ بعید نہیں کہ انسائیکلوپیڈیا کی کرم خوردہ جلد نکال کر یہ بھی نشاندہی فرما دیں کہ ریشتاغ تو روایتی طور پر جرمن پارلیمنٹ کی عمارت کو کہتے ہیں۔ سو عرض ہے کہ جنت مکانی مولانا عبدالمجید سالک کسی بے تکلف دوست کے ساتھ پرانے لاہور سے گزر رہے تھے۔ یہ شدھی، سنگھٹن، خلافت، احرار اور نیلی پوش کے دن تھے۔ قریب ہی علمائے کرام کا ایک جلسہ منعقد ہو رہا تھا۔ سالک صاحب کی رگ ظرافت پھڑکی، فرمایا کہ کیوں نہ اس ریشتاغ پر بھی ایک نظر ڈالتے چلیں۔ دوست نے تعجب کیا کہ یہاں ریشتاغ کا کیا محل ہے۔ سالک نے فرمایا کہ دیکھیے، ریش ہائے دراز کے اس جم غفیر کے لئے ریشتاغ سے بہتر اصطلاح کیا ہو سکتی ہے۔ یہ گم گشتہ حکایت حافظے کے قطعہ تاریک پر آج اس لئے کوندی کہ اسلام آباد میں او آئی سی کے وزرائے خارجہ کا غیرمعمولی اجلاس ہو رہا ہے۔ علاوہ مسلم اکثریتی ممالک کے غیر ارکان ممالک سے بھی مندوبین شریک مجلس ہیں۔ مقصد اس ریشتاغ کا افغانستان کے کھنڈرات اور وہاں بسنے والے زمیں زادوں کے لئے دست سوال اور کشکول خیرات دراز کرنا ہے۔ کچھ سکے تو شاید مل سکیں لیکن بیس برس تک ’قابض امریکہ‘ سے جو خطیر خراج ملتا رہا، اس کی توقع محال ہے۔ سد رمق کا سامان تو شاید ہو جائے، بندوبست حکومت اور افغان معیشت کی بحالی کا امکان نہیں۔

قضیہ سادہ ہے۔ دوحا معاہدے میں طے پایا تھا کہ افغان طالبان کابل حکومت سے مذاکرات کر کے وسیع البنیاد حکومت تشکیل دیں گے۔ یہ ایسا دشوار درہ ہے جسے مارچ 1993 میں حرم پاک میں مقدس حلف اٹھا کر بھی پار نہیں کیا جا سکا تھا۔ افغان طالبان نے معاہدے کی دھجیاں اڑاتے ہوئے کابل پر قبضہ کر لیا۔ مدرسہ حقانیہ میں غالبؔ تو پڑھایا نہیں جاتا۔ ہم نے یہ مانا کہ دلی میں رہیں، کھائیں گے کیا۔ آپ ہم تو اس بیان کا مقدور نہیں رکھتے، لیکن دنیا تو جانتی ہے کہ کابل پر اس یلغار کے پیچھے کس کا دست فیض کارفرما تھا۔ سو دنیا نے بزور طاقت اقتدار پر قبضے کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ اب طالبان کو انسانی المیہ اور انسانی حقوق یاد آئے۔ اقوام متحدہ میں نمائندگی کی خواہش جاگی۔ اس خانماں خراب نے ڈھونڈا ہے گھر کہاں؟ وکیل بھی کیا تو پاکستان کو۔ پاکستان کی اپنی الجھنیں ہیں۔ ایک تو یہی کہ پاکستان کے خلاف کھلی جنگ کا اعلان کرنے والے پاکستانی طالبان کابل انتظامیہ کی پناہ میں ہیں۔ پاکستان کے دستوری ڈھانچے کے علانیہ مخالف ہر روز پاکستانی محافظوں پر حملے کر رہے ہیں۔ ادھر پاکستان کو ایسا زیرک وزیر اعظم ملا ہے جو جہاں لب کشائی کرتا ہے، اپنی ہی لنکا ڈھاتا ہے۔ پہلے غلامی کی زنجیریں توڑنے کا اعلان کیا۔ پھر انتھونی بلیکن سمیت اعلیٰ امریکی قیادت کو بے خبر بتایا۔ پھر سرے سے بیس سالہ جنگ کے جواز ہی پر سوال اٹھا دیا۔ وزیر اعظم کے وزرا اور مشیروں کی فوج میں کوئی ایسا نہیں جو انہیں سیکورٹی کونسل کی قراردادیں 1368 (12 ستمبر 2001) اور 1373 (28 ستمبر 2001) یاد دلائے جن کی پابندی تمام اقوام عالم پر فرض تھی۔ اسی بندوبست کی روشنی میں امریکہ نے کولیشن سپورٹ فنڈ میں 6 ارب ڈالر سمیت پاکستان کو دس ارب ڈالر سے زیادہ کی امداد دی۔ اب اگر پاکستانی وزیراعظم سرے سے اس جنگ ہی کو بلاجواز قرار دیتا ہے تو سوال اٹھے گا کہ ہم کس حیثیت میں اہم ترین نان نیٹو اتحادی تھے۔ غیرذمہ داری کی حد ہے کہ برسبیل تذکرہ بھارت سے ایٹمی جنگ چھڑنے کا خدشہ بھی ظاہر کر دیا۔ کوئی عمران صاحب کو بتا دے کہ ایٹمی جنگ چھڑا نہیں کرتی، اس کا چھڑنا ہی اس کا خاتمہ بھی ہوتا ہے کیونکہ دو طرفہ مکمل تباہی لمحوں کا کھیل ہوتا ہے۔ ذمہ دار رہنما ایسے امکان کا اشارہ بھی نہیں کیا کرتے نیز فسطائیت کی مبادیات معلوم کر لیا کرتے ہیں۔

عمران خان فرماتے ہیں کہ افغان معیشت کا 75 فیصد انحصار بیرونی امداد پر تھا۔ کیا یہ بات امریکہ اور نیٹو کو قابض افواج قرار دینے والے طالبان کو معلوم نہیں تھی۔ تادم تحریر دنیا بھر میں سوائے پاکستان کے کوئی کابل انتظامیہ کے بارے میں گرم جوش نہیں۔ روس اور چین سے امید بندھی تھی، وہاں سے بھی تانگہ خالی آ گیا۔ دنیا افغانستان میں انسانی حقوق پر سوال اٹھاتی ہے تو عمران خان فرماتے ہیں کہ انسانی حقوق اور عورتوں کے مقام کے بارے میں ہر قوم کی اپنی روایات ہیں۔ عمران خان تو خیر انسانی حقوق کے یونیورسل معیارات سے کیا واقف ہوں گے، انہیں یہ جاننا چاہئے کہ اگر اقوام عالم ان بنیادی تصورات پر متفق نہیں تو انسانی المیہ، غذائی بحران اور انسانی ہمدردی کے تصورات پر اتفاق رائے کا مطالبہ کیسے کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان نے چالیس برس سے اپنی خارجہ پالیسی کو افغانستان کے کھونٹے سے باندھ رکھا ہے۔ اس دوران دنیا نے معیشت، علم اور تمدنی ترقی میں نئے آفاق دریافت کر لئے۔ ہم تزویراتی گہرائی کے بے سروپا تصور کے اسیر رہے۔ فروری 74ء میں مسلم امہ کی رہنمائی کے دعویدار سعودی عرب کا نقشہ بدل رہا ہے۔ موجودہ عشرے کے خاتمے تک توانائی کے نئے منابع دریافت ہونے سے مشرق وسطیٰ کی اہمیت باقی رہے گی اور نہ ایران آبنائے ہرمز کے بل پر اکڑ سکے گا۔ پاکستان کی معیشت آئی ایم ایف، فٹیف، امریکہ اور یورپین یونین کی گرفت میں ہے۔ چین سے دوستی کے دعوے اپنی جگہ، وہاں سے آنے والے پیغامات کا لہجہ بدل رہا ہے۔ مناسب یہی ہو گا کہ افغان پالیسی سے جان چھڑا کر جیو اکنامکس کی طرف چلا جائے۔ جیو اکنامکس کاغذ پر کھنچی لکیروں کا نام نہیں، اس کا مطلب ہے معاشی، سیاسی، سفارتی اور تمدنی ترجیحات پر جامع نظر ثانی۔ جیو اکنامکس دو خاندانوں کی مبینہ لوٹ کھسوٹ کا الاپ نہیں، 22 کروڑ کی منڈی کو نقشہ عالم پر واپس لانے کا کوہ گراں ہے۔ اس کیلئے چندہ جمع کرنے کی نہیں، پیداوار بڑھانے کی مہارت درکار ہوتی ہے۔

بشکریہ : ہم سب

یہ بھی پڑھیے:

منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود

ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود

وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود

اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود

وجاہت مسعود کی مزید تحریریں پڑھیں

About The Author